سفید فام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، ہمیں اس وقت تک آزادی، انصاف اور برابری نہیں ملے گی جب تک ہم اپنے لیے کچھ نہیں کریں گے

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان
قسط:94
بہنوں اور بھائیو! سفید فام نے ہمارے دماغ دھو ڈالے تاکہ ہماری نگاہ سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے عیسیٰؑ پر مرتکز رہے۔ ہم ایسے حضرت عیسیٰؑ کی پرستش کر رہے ہیں جو ہم جیسا دکھائی بھی نہیں دیتا۔ اب آپ اسلام کے مبلغ ایلیا محمد کی تعلیمات سنئے۔ سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے سفید فام نے ہمیں سفید حضرت عیسیٰؑ کی پرستش سکھائی اور اپنے خدا کی حمد پڑھنا اور گانا سکھایا۔ ہمیں سکھایا گیا کہ ہم اس وقت تک یہ حمد پڑھتے گاتے رہیں جب تک کہ مر نہ جائیں اور اگلے جہاں کی تصوراتی جنت کا اپنی موت تک انتظار کریں۔ جب کہ سفید فام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں ان پختہ گلیوں میں بہہ رہی ہیں جو طلائی ڈالرز سے اس دنیا میں بنی ہیں۔
اگر آپ کومیرے کہے پر یقین نہ آئے تو جایئے اور جا کر اس جگہ کو غور سے دیکھیے جہاں آپ رہتے ہیں اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو دیکھیے۔ آپ کو یقین آ جائے گا اور یہ محض بدقسمتی کا معاملہ نہیں ہے۔ جب اپنے آپ کو دیکھ چکیں تو پھر سنٹرل پارک میں جا کر دیکھیے کہ سفید خدا نے سفید فاموں کو کیا کچھ عطا کیا ہے؟ سفید فاموں کا طرز زندگی دیکھیے ان کے گھروں کو دیکھیے لیکن وہاں زیادہ دیر رکئے گا نہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ زیادہ دیر رک ہی نہیں سکیں گے کیونکہ دربان آپ کو ”چلتے بنو“ کا حکم دیدے گا۔ شہر کے مرکز میں جا کر ان کی رہائشیں اور کاروبار دیکھئے ”مین ھیٹن“ جزیرے کو دیکھیں جسے اس شیطان صفت سفید فام نے بھروسہ کرنے والے انڈنیز سے 24 ڈالر میں ہتھیا لیا تھا۔ اس کے سٹی ہال کو ”اس کی وال اسٹریٹ کو‘ اپنے آپ کو اور اس کے خدا کو دیکھو!۔“
میں نے ابتداء میں ہی یہ بات سیکھ لی تھی کہ لوگوں سے اس زبان میں بات کرو جو وہ سمجھتے ہوں۔ جس طرح قوم پرست گروہوں میں تقریباً تمام مرد ہوتے تھے اسی طرح گرجا گھر جانے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہوتی تھی۔ میں خطاب کے دوران اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھتا۔ ”خوبصورت سیاہ خواتین! عزت مآب ایلیا محمد ہمیں بتاتے ہیں کہ سیاہ فام آدمی کو اس وقت تک عزت حاصل نہیں ہو گی جب تک وہ اپنی عورتوں کی عزت نہیں کرے گا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاہ فام اٹھ کھڑے ہوں اور ان کمزوریوں کو اٹھا کر پرے پھینک دیں جو سفید فام آقا نے اس پر مسلط کر رکھی ہیں۔ سیاہ فام مردوں کو چاہیے کہ وہ آج ہی سے اپنی عورتوں کو پناہ، تحفظ اور عزت دینا شروع کر دیں۔ تم میں سے کتنے ہیں جو میری بات سے اتفاق کرتے ہیں؟“ یہ سن کر تقریباً 100 فیصد لوگ کھڑے ہو گئے لیکن جب میں نے یہ سوال کیا کہ ”کیا کھڑے ہوئے لوگ عزت مآب ایلیا محمد کی پیروی کرنا چاہیں گے؟“
تو صرف چند لوگ ہی کھڑے ہوئے۔
مجھے علم تھا کہ یہ لوگ ہمارے سخت اخلاقی نظم و ضبط سے بھاگتے ہیں۔ میں نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا ”سفید فام چاہتا ہے کہ سیاہ فام بدکردار، گندا اور جاہل رہے جب تک ہم اس حال میں رہیں گے ہم بھکاری اور وہ مالک بنے رہیں گے۔ ہمیں اس وقت تک آزادی، انصاف اور برابری نہیں ملے گی جب تک ہم اپنے لیے کچھ نہیں کریں گے۔“
لیکن جو ڈانواڈول لوگ مجھے سننے کے لیے آتے تھے وہ ”ضابطہ“ کے متعلق وضاحت چاہتے تھے۔ ”قوم اسلام“ میں زنا قطعاً حرام تھا۔ غلیظ سور اور دیگر نقصان دہ غذائیں کھانا ممنوع تھا۔ ہر قسم کے تمباکو، شراب اور منشیات پر پابندی تھی۔ ایلیا محمد کا کوئی پیروکار رقص، جوئے، معاشقوں، فلموں یا کھیلوں میں ملوث نہیں ہو سکتا تھا اور نہ کام سے لمبی غیر حاضری کر سکتا تھا۔ ضرورت سے زیادہ سونے کی اجازت نہ تھی گھریلو جھگڑوں اور بدتہذیبی کی بالخصوص عورتوں کے ساتھ، سخت ممانعت تھی۔ جھوٹ بولنے اور چوری کرنے کی اجازت نہ تھی اور ماسوائے مذہبی معاملات کے سول افسران کی نافرمانی پر بھی پابندی تھی۔ اخلاقی ضابطوں کی نگرانی ہمارے ”ثمر اسلام“ گروہ کے لوگ کرتے تھے۔ جو باصلاحیت اور تربیت یافتہ مسلم مرد تھے۔ ضابطہ شکنی کی سزا جناب ایلیا محمد قوم سے معطلی یا مختلف عرصہ تک علیٰحدگی سے دیتے تھے اور اگر جرم بہت گھناؤنا ہوتا تو مجرم کو اپنی قوم سے نکال بھی دیا جاتا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔