نیٹ میٹرنگ سے گراس میٹرنگ تک
کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے ا?ئی ایم ایف کو یقین دلا دیا ہے کہ وہ سولر انرجی کے حصول کی جاری کاوشوں کی حوصلہ شکنی کے لئے چھتوں پر لگے سولر پینلز سے بجلی حاصل کرنے کے طریقے پر پابندی لگانے کے لئے پالیسی تشکیل دے گی۔ نیٹ میٹرنگ کی جگہ گراس میٹرنگ کے فروغ کے ذریعے سولر پینلز سے بجلی حاصل کرنے کی بجائے گرڈ سے بجلی حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ سولر پینلز سے سستی بجلی حاصل کرنے کی بجائے لوگوں کو گرڈ کی مہنگی بجلی حاصل کرنے پر مجبور کرنے کی پالیسی تشکیل دی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ سولر انرجی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث مہنگی بجلی مہیا کرنے والے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کی شرح منافع گھٹنے لگی ہے جس سے انہیں اور ان کے سرپرستوں میں تشویش کی شدید لہر دوڑ گئی ہے ہم نے اپنے پہلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ ہم سرمایہ دارانہ نظم کے تحت جی رہے ہیں عالمی سرمایہ داری کے تحت نظام چل رہا ہے۔ ا?ئی ایم ایف اسی نظام کا ایک اہم ستون ہے بجلی مہیا کرنے والی کمپنیاں اسی نظام کی خوشہ چین ہیں۔ ہمارے حکمران، پالیسی ساز اور منتظمین حکومت و ریاست اسی نظام کے پروردہ ہیں اس لئے اس نظام سے وابستہ کسی بھی فریق کے مفادات پر زد پڑتی ہے تو اس نظام کے کل پرزے اس فریق کو بچانے کے لئے فعال ہو جاتے ہیں۔
سولر انرجی کے فروغ کے ذریعے انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کی بجلی کی کھپت میں کمی ا?نے لگی تھی۔ منافع جات گھٹنے لگے تھے اس لئے ا?ئی ایم ایف انہیں بچانے کے لئے ا?گے بڑھا کیونکہ ہم قرض حاصل کرنے کے لئے ا?ئی ایم ایف کو خوش کرکے راضی کرنے میں مصروف ہیں اس لئے ہمیں انہیں بتانا پڑا ہے کہ ہم جلد ہی اس شکایت کا ازالہ کردیں گے۔ ویسے عوام کی تسلی اور تشفی کے لئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت نیٹ میٹرنگ ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ بات بادی النظر میں درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ حکومت نے ا?ئی ایم ایف کو کچھ کرنے کا یقین دلایا ہے، فوری طور پر تو کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ گویا حکومت نے دونوں فریقین کی تسلی و تشفی کرا دی ہے۔ سردست سچ بولا ہے جھوٹ نہیں بولا ہے لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ حکومت ا?ئی ایم ایف کے چنگل میں مکمل طور پر پھنسی ہوئی ہے۔ عالمی قرضوں کی واپسی کی سکت نہیں رہی اور مزید قرضوں کے حصول کے لئے فنڈ کی ضرورت ہے اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے اور جیسے تیسے بھی چلتے رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم عالمی نظام زر کا فعال حصہ بنے رہیں جس کے لئے ا?ئی ایم ایف، ورلڈ بینک، لندن و پیرس کلب اور ایسے ہی دیگرعالمی اداروں کی حمایت کی ضرورت ہے وگرنہ ہم فی الحقیقت دیوالیہ ہو چکے ہیں ہمارے وصول کردہ ٹیکس، قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات پورے کرنے کے بعد ختم ہوجاتے ہیں اس کے بعد کے تمام اخراجات پورے کرنے کے لئے ہمیں قرض اور مزید قرض لینا ضروری ہوتا ہے اس سلسلے نے ہمیں عملاً فنڈ کی غلامی میں دے دیا ہے۔
پچھلے دنوں ایک معتبر سیاستدان نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عمران کے ساتھ معاملات طے کرکے انہیں رہا کر دیں وگرنہ کسی ٹیلی فون کے نتیجے میں اگر ایسا کرنا پڑا تو حکومت کے لئے گھاٹے کا سودا ہوگا۔ ٹیلی فون کہاں سے ا? سکتا ہے؟ یقینا امریکہ، برطانیہ یا عالمی نظام زر کے کسی معتبر فرد کی طرف سے عمران خان کی رہائی کے لئے کہا گیا تو ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے اس ٹیلی فون پر دی گئی ہدایات کے برعکس عمل کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ ہم پہلے بھی ان کے مرہونِ منت ہیں۔ گویا ہمارا نظام ریاست و حکمرانی اس قدر ابتر اور ا?لودہ ہو چکا ہے کہ ہم اپنے قومی مفادات کے مطابق کام کرنے کے لئے ا?زاد نہیں ہیں ہم قومی ملزمان کو اپنے ا?ئین اور قانون کے مطابق سزا دینے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ ہم 24کروڑ والی ایٹمی ریاست کے باسی ہونے کے باوجود مجبور محض قوم کے طورپر زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔
ہم کسی قسم کے ا?زادانہ فیصلے کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ سولر بجلی کے حصول کی بڑھتی ہوئی عوامی طلب نے عالمی نظام زر کے گماشتوں اورمحافظوں کو الرٹ کر دیا ہے وہ کبھی بھی اس نظام کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے کیونکہ سولر کافروغ ا?ئی پی پیز کے مفادات کے خلاف ہے اس لئے سولر بجلی کے حصول کی حوصلہ شکنی کی جائے گی اور عملاً ایسا ہو بھی رہا ہے۔ نیٹ میٹرنگ میں سولر بجلی کا صارف اپنے زائد یونٹس واپڈا کو دیتا ہے اور جب اسے ضرورت پڑتی ہے تو وہ واپڈا سے یونٹس لے کر اپنی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہاں ایک بات بتانا ضروری ہے کہ واپڈا صارف سے بجلی سستی لیتا ہے جبکہ اسے مہنگی واپس کرتا ہے اب تک یہ شرح 3.1کی ہے یعنی سولر صارف سے یونٹ اگر 1روپے کا لیتا ہے تو اسے واپس 3روپے پر دیتا ہے۔کیا یہ ظلم نہیں ہے، بدمعاشی نہیں ہے۔اطلاعات ہیں کہ یہ شرح 5.1کی ہونے والی ہے یعنی صارف سے سولر یونٹ 1روپے کا لے کر اسے اسی کا یونٹ واپس5روپے کا دیا جائے گا گویا سولر پاور جنریشن کی حوصلہ شکنی کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ عوام نے اگر خود ہی اپنے مسائل حل کرنے کی کوئی کامیاب کاوشیں شروع کررکھی ہیں تو حکومت انہیں بھی پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتی، سولر انرجی کے شعبے میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ ہزاروں افراد کو روزگار مل رہا ہے ایک مثبت معاشی سرگرمی فروغ پا رہی ہے جسے پھلتا پھولتا رہنا ضروری ہے لیکن کیونکہ ایسا ہونا، ساہوکاروں کے پروردگان کے مفاد میں نہیں ہے اس لئے ایسا نہ ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
ویسے ا?زادکشمیر میں عوامی جذبات اور ری ایکشن کے ذریعے جس طرح حکمرانوں کو جھکنے پر مجبور کیا گیا وہ اپنی مثال ا?پ ہے ہمارے حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث جس طرح عوامی مسائل بڑھ رہے ہیں،عوامی بے بسی میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر یہاں بھی عوام اٹھ کھڑے ہوئے تو کیا ہوگا؟ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں۔