منظوروٹو، آصف ہاشمی کا جھگڑا، پارٹی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے

منظوروٹو، آصف ہاشمی کا جھگڑا، پارٹی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے
منظوروٹو، آصف ہاشمی کا جھگڑا، پارٹی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب کی صدارت تبدیل ہوئی تو نشاندہی کر دی گئی تھی کہ میاں منظور احمد وٹو کے تقرر کی وجہ سے نئی گروہ بندی ہو گی اور پرانے پارٹی کارکنوں کو یہ تقرر ہضم کرنا مشکل ہو گا۔ اب یہ سلسلہ سامنے آنے لگا ہے۔ سابق صدر امتیاز صفدر وڑائچ اور سیکرٹری عزیز الرحمن چن منظر سے غائب ہیں تو سینیٹر اراکین بھی میاں منظور احمد وٹو کے ساتھ نظر نہیں آتے۔ منیر احمد خان البتہ ساتھ ساتھ ہیں ۔پیپلزپارٹی کے پرانے کارکنوں کو میاں منظور احمد وٹو کا وزارت اعلیٰ والا دور بھی یاد ہے۔ اس زمانے کے اراکین پنجاب اسمبلی آج بھی موجود ہیں اور شکوے شکایت لئے پھرتے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ روائت کے مطابق قیادت کا یہ فیصلہ بالآخر قبول کر لیا جائے گا۔ یوں بھی میاں منظور احمد وٹو دھیمے مزاج کے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ حالات سنوار لیں گے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دلوں سے غبار دھلے نہیں۔ منیر احمد خان کی پارٹی میں جو پوزیشن ہے وہ بھی اثر انداز ہو رہی ہے، جبکہ خود میاں منظور احمد وٹو میڈیا میں بھی انہی کی پسند کے حضرات سے رجوع کر رہے ہیں۔ یوں جو اٹھان شروع میں نظر آئی وہ اب کچھ اور انداز دکھا رہی ہے۔ میاں منظور احمد وٹو کو جوڑ توڑ اور اچھے امیدوار سامنے لانے کے لئے صدر بنایا گیا۔ ان کا پہلا دھچکا چودھری برادران کو لگا۔ صدر آصف علی زرداری نے ذاتی مداخلت سے معاملہ بڑھنے نہ دیا، میاں منظور احمد وٹو نے بھی ملاقات کر لی۔ چودھری برادران کے اختیارات بڑھ گئے اور اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ کون زیادہ اثر رکھتا ہے اور مسلم لیگ(ن) کے اثر کو زائل کر سکتا ہے۔ میاں منظور احمد وٹو کا دعویٰ ہے کہ وہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا کریں گے اور یہاں جیالا وزیراعلیٰ ہو گا جبکہ مسلم لیگ(ق) کے مرکزی (اب) رہنما اور ڈپٹی پرائم منسٹر چودھری پرویز الٰہی ڈیرہ دار سیاسی عمل کے ذریعے مسلم لیگ (ق) کی پوزیشن بہتر بناتے چلے جا رہے ہیں حتیٰ کہ وہ بعض نشستوں پر امیدوار کا اعلان بھی کر دیتے ہیں آگے چل کر یہ صورت حال بھی مشکل پیدا کرے گی کہ ان حلقوں میں پیپلزپارٹی کے امیدوار بھی ہیں۔
بہرحال صورت حال جو بھی ہے اب بات نکلنے لگی ہے۔ حاجی عزیز الرحمن چن نے ایک مفاہمی محفل میں ماضی کے شکوے بھی کر ڈالے اور واضح ہو گیا کہ دل صاف نہیں ہوئے۔ یہ بات پارٹی کے لئے کم از کم لاہور کی سطح پر اچھی نہیں۔ ابھی یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ جمعہ کے روز رہمارے ایک ساتھی روزنامہ ”دُنیا“ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی کی والدہ کے لئے قرآن خوانی کی مجلس میں دُعا کے بعد میاں منظور احمد وٹو اور سید آصف ہاشمی اُلجھ پڑے اور یہ آج کی اہم خبر بن گئی۔ سید آصف ہاشمی پیپلزپارٹی کے بنیادی اراکین میں شمار ہوتے ہیں اُن کا بچپن اور لڑکپن پیپلزپارٹی سے جوانی اور اب ادھیڑعمری میں ڈھلا، کئی بار الزامات کا سامنا کیا۔ پارٹی کو دغا نہ دیا، اب وہ متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین ہیں اور اس حیثیت میں بھی اُن کو بہت متنازعہ بنایا گیا، لیکن پیپلزپارٹی لاہور کے کارکن ان کو بہت پسند کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی حیثیت میں کارکنوں کو بہت نوازا، بلکہ یہ تک کہا گیا کہ کارکنوں کے اگر کوئی کام آتا ہے تو وہ آصف ہاشمی ہیں۔ اب اسی آصف ہاشمی کو شکوہ ہے کہ میاں منظور احمد وٹو اُن کی راہ میں مزاحم ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے (آصف) نے شاہدرہ کے حلقہ سے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ملک ریاض کے خلاف بی اے کی جعلی ڈگری کا کیس جیتا، مسئلہ آزاد کشمیر یونیورسٹی کے رجسٹرار کی پیشی تھا، میاں منظور احمد وٹو امور کشمیر کے وزیر ہیں اس کے باوجود رجسٹرار ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں نہیں آیا۔ سید آصف ہاشمی نے الزام لگایا کہ انہوں نے (میاں منظور احمد وٹو) نے کوئی مدد نہیں کی، بلکہ رکاوٹ ڈالی۔
اسی محفل میں سید آصف ہاشمی مزید بولے اور الزام لگایا کہ شاہدرہ میںجو ٹکٹ ہولڈر ہونے کی وجہ سے اُن کا حلقہ انتخاب ہے ہسپتال کی جگہ پر قابض گروپ کو میاں منظور احمد وٹو کا تعاون حاصل ہے، کہ لیز ختم ہوئے عرصہ گزرا، لیز جس کے نام تھی وہ مر چکا، لیکن قابض قبضہ نہیں چھوڑ رہے، وہ میاں منظور احمد وٹو کے ملنے والے ہیں اور وہ اُن کی مدد کر رہے ہیں جبکہ وہ (آصف) اس زمین پر ہسپتال بنانا چاہتے ہیں۔ میاں منظور احمد وٹو نے باقی باتیں تحمل سے سنیں اس مسئلے پر یہ تو تسلیم کیا کہ قابض اُن کے جاننے والے ہیں لیکن وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر رہے وہ لیز ہولڈر ہیں۔ یہ جھگڑا سیاسی عمائدین، کارکنوں اور میڈیا والوں نے بھی دیکھا اور سنا، جو خبر کا ذریعہ بھی بنا۔ بہرحال سید آصف ہاشمی نے جوش میں فقرہ کہا:” اگر مَیں نے وہاں سے الیکشن نہ لڑا تو اس کے ذمہ دار آپ (وٹو) ہوں گے“ جواب ملا، پیپلزپارٹی کے پاس کارکنوں اور امیدواروں کی کمی نہیں۔ ٹکٹ کسی اور کو مل جائے گا (بالواسطہ ٹکٹ نہ دینے کی بات سمجھا دی گئی) پھر یہ مکالمہ بھی ہوا ”آپ مجھے پارٹی سے نکلوا دیں،ہاشمی نے کہا: ”مَیں پارٹی سے نکلوانے نہیںجوڑنے آیا ہوں“ جواب ملا،
بظاہر یہ انفرادی معاملہ ہے، لیکن پارٹی کے نقطہ نظر سے گہرے اثرات کا حامل ہے۔ سید آصف ہاشمی کارکنوں میں مقبول ہیں، پرانے ہیں اور مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ خاندانی مراسم بھی ہیں۔ صدر آصف علی زرداری بھی اُن کو بُرا نہیں جانتے۔ ان حالات میں یہ تنازعہ اچھا نہیں، پہلے ہی پیپلزپارٹی کو کئی چیلنج درپیش ہیں۔ میاں منظور احمد وٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کارکنوں کو منائیں گے، ساتھ لے کر چلیں گے۔ یہاں صورت حال مختلف بنتی جا رہی ہے۔ یہ غور طلب ہے۔ انتخابات سر پر ہیں، اختلافات اور تنازعات جلد ختم اور طے نہ ہوئے تو نقصان ہو گا۔

مزید :

تجزیہ -