پاکستان سٹیل مل کا مقدمہ
ملک کا سب سے بڑا عظیم الشان، فولاد ساز صنعتی ادارہ پاکستان اسٹیل، جس کے بارہ بڑے مربوط کارخانوں میں سے کسی کو بھی علیحدہ اکائی کے طور پر رکھ دیا جائے، تب بھی وہ ملک کا سب سے بڑا کارخانہ شمار ہوگا۔فولاد کی قیمتوں کے بحران کی زد میں آکر کچھ اس طرح منہ کے بل گرا ہے کہ اس کا دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا محال ہو رہا ہے۔اتنے بڑے کسی بھی فولاد ساز ادارے کی طرح اسے بھی دوبارہ طاقت پکڑنے کے لئے خطیر رقم کی ضرورت ہے جو حکومت اپنی مجبوریوں کے سبب دینے یا بنکوں کے ذریعے دلوانے سے گریزاں ہے۔یہ رقم کہاں سے آئے گی؟کیا پاکستان اسٹیل کو نجی شعبے میں دینے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہے؟کیا نجی شعبے کو دینے سے پاکستان اسٹیل چل پڑے گی یا پھر خریدنے والا اسے سکریپ میں بیچ کر اپنی راہ لے گا؟ کیا پاکستان اسٹیل قومی خزانے پر بوجھ ہے اور اسے بند ہی کر دینا چاہیے؟ ان سوالات کا خاطر خواہ جواب ڈھونڈنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اسٹیل کے معاملات کو سنسنی خیزخبروں کی بجائے، اس سیاق و سباق کی روشنی میں جس میں یہ قائم کیا گیا تھا، حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے، تاکہ درست رائے قائم کی جا سکے،جس کی بنیاد پردرست فیصلے کئے جا سکیں یہ مقدمہ اسی تناظر میں پاکستان سٹیل کے بارے میں اکثر پوچھے گئے سوالات کی روشنی میں قائم کیا گیا ہے۔
س:کیا پاکستان اسٹیل قومی خزانے پر بوجھ ہے؟
ج:حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل قومی خزانے کے لئے بوجھ نہیں، بلکہ گرانقدر اثاثہ ثابت ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے بارے میں الٹا تاثر اس کے زیادہ تر نقصان میں رہنے اور کبھی کبھار منافع میں آنے سے پیدا ہوا،جسے گاہے بگا ہے تواتر سے شائع ہونے والی بدعنوانی کی خبروں نے اور بھی گہراکردیا۔پاکستان اسٹیل نے 1985ءمیں پیداوار شروع کی تھی اور اس کی تعمیر و تنصیب پر پچیس ارب روپے لاگت آئی تھی جبکہ یہ قومی ادارہ اب تک ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کی مد میں قومی خزانے میں ایک سو دس ارب روپے کی رقم براہ راست جمع کرا چکا ہے۔جو گیارہ ارب روپے کی اس رقم کے علاوہ ہے جو حکومتِ پاکستان نے ادارے کی تعمیر و تنصیب کے لئے لی تھی، لیکن پاکستان اسٹیل کے پیداوار شروع کرنے کے بعد اس کی ادائیگی سے منہ موڑ لیا، چنانچہ یہ رقم بھی 8ارب روپے سود کے ساتھخود پاکستان اسٹیل نے ہی ادا کی۔یہ تھا پاکستان اسٹیل نے کیالیا اور کیا دیا کا حساب کتاب ، اس سے سوا پاکستان اسٹیل کے طفیل ملک و قوم نے جو کچھ حاصل کیا، ان فوائد کا شمار ہی نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان اسٹیل سے قبل نہ توملک میں سلیگ سے سیمنٹ بنانے کا کوئی کارخانہ تھا اور نہ بلٹ (Billet)سے اسٹیل بارز، ٹوسٹڈ بارز اور وائر راڈ تیار کرنے کے کارخانے اور نہ ہی کولڈ رولڈ اور ہاٹ رولڈ شیٹس....سیم لیس پائپ، بڑے قطر کے پائپ ،الیکٹرک پینل، سلنڈر، گرین سلیوز و دیگر فولاد مصنوعات تیار کرنے کے کارخانے جن کا ایک سلسلہ ہائے دراز پاکستان اسٹیل کے طفیل وجود میں آیا، اگرچہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے معاملے میں پرائیویٹ سیکٹر کی شہرت تو اچھی نہیں پھر بھی ان متعدد کارخانوں نے ڈیوٹیوں کی شکل میں تو اربوں روپے قومی خزانے میں جمع کرائے ہوں گے اور وہ بھی نہ سہی تو بھاری مقدار میں وہ زرمبادلہ تو بچا ہی ہوگا، جو اس سے قبل مذکورہ بالا اشیاءکی درآمد کے لئے درکار ہوگا۔
س:قیمتوں کے اس عالمی بحران کی وجہ کیا تھی اور کیا صرف پاکستان اسٹیل ہی تھا جو اس کی لپیٹ میں آیا۔
ج:فولاد سازی کی دنیا میں اس عالمی بحران کا سبب فولاد کی قیمت میں وہ غیر معمولی اضافہ تھا جو چین میں دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بننے کے سبب رونما ہوا، جس کے لئے درکار فولادی مصنوعات کی چین نے دس سال تک پیشگی خریداری کرلی تھی، جس کے نتیجے میں ان مصنوعات کی قیمتوں میں چند سال کے اندر اندر کئی گنا اضافہ ہوگیا۔مثلاً اعلیٰ درجے کا سریا بنانے کے لئے بلٹ (Billet) کی قیمت بیس ہزار روپے ٹن سے ایک لاکھ روپے ٹن تک جا پہنچی۔قیمتوں میں اضافے کا یہ رجحان 2001ءسے 2008ءتک جاری رہا،جس سے پاکستان اسٹیل نے بھی پورا پورا فائدہ اٹھایا۔اس عرصے کی پہلی مدت میں پاکستان اسٹیل کے چیئرمین پرویز مشرف کے کاکول کے ساتھی لیفٹیننٹ کرنل(ریٹائرڈ) محمد افضل خان تھے،جن کی سربراہی کے پہلے سال 1999ءکے دوران پاکستان اسٹیل کو نامساعد حالات کی بناءپر ایک ارب سے زائد خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن جب قیمتیں اوپر جانا شروع ہوئیں تو 30دسمبر2003ءکو حرکت قلب بند ہونے سے ان کا انتقال ہونے تک پاکستان اسٹیل اتنا منافع کما چکا تھا کہ پاکستان اسٹیل کے ذمے انیس ارب روپے کا قرض اتارنے کے بعد بھی بھاری رقم بچ رہی تھی۔چھپرپھاڑ کر پاکستان اسٹیل کو ملنے والی اس رقم کے بل پر دوسرا بڑا نام پرویز مشرف کے منظور نظر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم خان نے کمایا، جنہیں پاکستان اسٹیل کو نجی شعبے میں دینے کے مسئلے پر اپنے دوہرے کردار کی وجہ سے پرویز مشرف کے زیر عتاب آکر 13ستمبر2006ءکو اسٹیل مل چھوڑنا پڑا۔اس وقت تک ان کے دور میں منافع کی رقم تیرہ سے چودہ ارب روپے تک پہنچ چکی تھی۔پرویز مشرف کی ناراضگی ان کے لئے اس لحاط سے نیک شگون ثابت ہوئی، کیونکہ اس وقت تک فولاد کی قیمتیں واپس اپنے اصل کی طرف لوٹنا شروع ہو گئی تھیں، جبکہ خام مال کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان برقرار تھا، چنانچہ منافع رفتہ رفتہ نقصان میں تبدیل ہونا شروع ہو گیاتھا، جس کے نتیجے میں جنرل قیوم کے بعد آنے والے میجر جنرل(ریٹائرڈ) جاوید کے زمانے میں منافع کی رقم گھٹ کر صرف دو، تین ارب روپے رہ گئی اور ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ جنرل قیوم کے زمانے میں جمع ہونے والے گیارہ بارہ ارب روپے منافع کی رقم کہاں گئی؟
پرویز مشرف کی طرح جنرل جاوید کی بھی خوش قسمتی تھی کہ وہ 2008ءمیں رخصت ہوگئے۔(اگرچہ خوار ہونے کا شوق انہیں دوبارہ لے آیا تھا) کیونکہ انہی دنوں شروع ہونے والے عالمی بحران نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں جو تباہی مچائی، اس کے خوفناک اثرات فولاد سازی کی صنعت پر بھی مرتب ہوئے تھے جو مرے کو سو درے مارنے کے مترادف تھا۔پاکستان اسٹیل جیسے اداروں کے لئے فولاد کی قیمت میں کمی اور خام مال کی قیمت میں مسلسل اضافے کے سبب اسی مناسب سے نقصان کا عمل شروع ہوگیا تھا جس تناسب سے چند سال قبل تیس، چالیس ارب روپے کا منافع ہوا تھا۔
بین الاقوامی سطح پر فولاد ساز اداروںکا جو حال ہوا اس کے لئے دو ہی مثالیں کافی ہیں۔ پہلی یورپ کے دیو ہیکل فولاد ادارے ’کورس‘ کی جو برطانیہ اور ہالینڈ کی دو بڑی اسٹیل ملوں پر مشتمل ہے اور جسے ہندوستان کے ٹاٹا اسٹیل نے پانچ سال قبل خریدا تھا۔2008 اور 2010 کے درمیان ہندوستانی کرنسی کے مطابق 70 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا جو پاکستان کرنسی کے حساب سے 100 ارب روپے سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ دوسری مثال امریکہ کے سب سے بڑے فولاد ساز ادارے یو ایس اسٹیل کی ہے جسے مذکورہ بالا تین سال کے دوران پانچ ارب تین کروڑ ڈالر کا نقصان ہو چکا تھا جبکہ 2010ءتک یہ ادارہ تین ارب ستر کروڑ ڈالر سے زائد رقم کا مقروض ہو چکا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اچھے دنوں اور اچھے حالات کی امید میں سرمایہ کاری کا عمل جاری رہا اور موجودہ مالی سال کے دوران امید کی جا رہی ہے کہ نقصان کا عمل خاطر خواہ منافع میں تبدیل ہو جائے گا۔ پاکستان اسٹیل کو بھی 2008ءسے 2010ءتک زبردست خسارہ ہوا تھا جس سے نمٹنے اور پیداوار کو معمول کے مطابق جاری رکھنے کے لئے اسے بیس ارب روپے کی ضرورت تھی۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ چند سال قبل چھپڑ پھاڑ کر ملنے والی منافع کی رقم آڑے وقتوں کے لئے رکھی جاتی تو پاکستان اسٹیل بحران کی اس دلدل میں پھنسنے سے بچ جاتا جس کا اب بروقت سرمایہ حاصل نہ ہونے کی بنا پر سامنا کرنا پڑا۔ حکومت نے بڑی مشکل سے دس ارب روپے کی رقم منظور کی جس کے آتے آتے نقصان کا زخم مندمل ہونے کی بجائے اور گہرا ہو گیا۔ چنانچہ اگلے سال 25 ارب کی ضرورت پڑی جس کے جواب میں پھردس ارب روپے ملے اور اسی طرح 2012-13 میں چھبیس ارب روپے کی ضرورت کے مقابلے میں چودہ ارب روپے ہی مل سکے اور یوں سرمایہ کاری کی نیم دروں اور نیم بروں کی کیفیت پاکستان اسٹیل کو اس مقام پر لے آئی جہاں اس پر نزع کا عالم طاری ہے اور کوئی اسے آکسیجن ماسک لگانے پر بھی تیار نہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا تمام رقم قومی خزانے سے ادا نہیں کی گئی، بلکہ بینکوں سے قرضوں کی شکل میں پاکستان اسٹیل کو دلوائی گئی، جو اگر یہ ادارہ زندہ رہا اور انشاءاللہ رہے گا تو اسے خود ہی مع سود واپس لوٹانا ہو گی جیسے اس نے قرضے کی پچھلی رقم لوٹائی تھی۔
س: پاکستان اسٹیل کے زیادہ تر نقصان میں رہنے کی کیا وجہ تھی؟
ج: پاکستان اسٹیل کے زیادہ تر خسارے میں رہنے کی وجہ اس کا نا مکمل رہ جانا تھا۔ یہ منصوبہ دو مراحل پر مشتمل تھا، جس میں سے گیارہ لاکھ ٹن استعداد کے حامل پہلے مرحلے نے 1985ءمیں پیداوار شروع کر دی۔ دوسرا مرحلہ جس میں پاکستان اسٹیل کی پیداوار معمولی سے خرچ سے بائیس لاکھ ٹن سالانہ ہو جاتی آئندہ دو تین سال تک یعنی 1987-90ءتک ہی مکمل ہونا تھا جس کے لئے درکار بلاسٹ فرنس وغیرہ کی تعمیر کے لئے بنیادیں پہلے مرحلے میں ہی تیار کر لی گئی تھیں۔ پیداوار دوگنی ہو جانے سے اکانومی آف سکیل کے تحت نہ صرف مصنوعات کی فی عدد لاگت تقریباً آدھی رہ جاتی بلکہ فی کس اخراجات بھی آدھے ہی رہ جاتے۔ پاکستان اسٹیل کو دوسرے مرحلے کی تکمیل پر ہی اکانومیکلی وائیبل یعنی معاشی طور پر کارآمد ادارہ بننا تھا لیکن جب دوسرے مرحلے کا وقت آیا تو ملک کی سیاسی فضاءاس حد تک تبدیل ہو چکی تھی کہ سوویت یونین نے جس نے ہمیں نہ صرف کوڑیوں کے بھاﺅ کارخانہ لگا کر دیا تھا بلکہ اسٹیل ٹیکنالوجی بھی منتقل کی تھی، جو کوئی مغربی ملک منتقل کرنے کے لئے تیار نہیں تھا، میدان جنگ میں ہمارا ہدف بن چکا تھا۔ ادھر اس کے مخالف کسی بھی مغربی ملک یا عالمی ادارے کو پاکستان اسٹیل جیسے منصوبے میں صرف اس حد تک دلچسپی تھی کہ وہ پاکستان جیسے غریب ملک کو اتنا بڑا کارخانہ چلانے کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے، اور ان کے خیال میں پاکستان کو فولاد کے لئے دوسرے ملکوں کا دست نگر بن کر رہنا ہی زیادہ مناسب تھا۔ اس حوالے سے پاکستان اسٹیل کا قیام در اصل ایک بہت بڑا سیاسی فیصلہ تھا، جس کا مقصد ملک کو صنعتی، معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط بنانے کے لئے فولاد سازی میں خود کفالت حاصل کرنا تھا۔ چنانچہ اس وقت یہی جواب ان حلقوں کو بھی دیا گیا تھا جن کی پاکستان اسٹیل کے قیام کی مخالفت کی دلیل یہ تھی کہ بین الاقوامی منڈی میں جب سستا فولاد دستیاب ہے تو پاکستان اسٹیل جیسا بڑا گھوڑا پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ سوویت یونین نے بھی جو اس وقت دنیا میں فولاد پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا، فولاد کی فاضل پیداوار کے لئے راستہ تلاش کرنے اور فولاد ساز کارخانوں کو زک پہنچانے اور پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے ہمارا ساتھ دیا تھا۔ لیکن جب تک دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کا وقت آیا اس وقت کی غیر سیاسی حکومت کی ترجیحات قطعی مختلف رخ اختیار کر چکی تھیں جن کے مطابق دوسرے مرحلے پر عمل درآمد تو درکنار پہلے مرحلے کو ہی سفید ہاتھی قرار دے کر اسے بند کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ (جاری ہے)