پاک۔ روس دفاعی معاہدہ
20نومبر 2014ء پاکستان اور روس کے باہمی دفاعی تعاون کے تناظر میں ایک یادگار دن تھا۔اس روز اسلام آباد میں روس۔ پاکستان ملٹری معاہدے پر دستخط کئے گئے۔اس معاہدے کا مقصد خطے میں امن و استحکام لانا تھا۔ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق : ’’ اس ریجن کے دو اہم ممالک میں دفاعی تعاون کا یہ معاہدہ ایک سنگ میل ہے۔اب مستقبل قریب میں پاکستان اور روس اس تعاون کو مزید آگے بڑھائیں گے اور ملٹری روابط کو فروغ دیں گے‘‘۔
روس کے وزیر دفاع جنرل سرگی شوگو (Sergei Shogu) اس روز اسلام آباد میں آئے ہوئے تھے۔ان کے ہمراہ 41 اراکین پر مشتمل ایک ’’بھاری دفاعی وفد‘‘ بھی تھا۔ 1991ء میں جب سوویت یونین کا سقوط ہوا تھا اور اس کا نیا نام ’’رشین فیڈریشن‘‘ رہ گیا تھا تو تب سے کوئی روسی وزیر دفاع پاکستان نہیں آیا تھا۔یعنی گزشتہ تقریباً چوتھائی صدی میں پاکستان آنے والا یہ پہلا دفاعی وفد تھا۔
یہ امر قابل غور ہے کہ یہ معاہدہ اس وقت ہوا ہے جب افغانستان سے ناٹو فورسز واپس جا رہی ہیں۔روس ایک طویل عرصے سے ہمارے دشمن نمبر ایک بھارت کو ہر قسم کے ہلکے اور بھاری ہتھیار سپلائی کرتا رہا ہے اور اس حوالے سے دیکھا جائے تو روسی وفد کی آمد بھارت کے لئے ’’خطرے کی گھنٹی‘‘ تصور ہوگی۔ اگرچہ بھارت ، پاک ۔ روس تعلقات کی اس سٹرٹیجک شفٹ سے بظاہر زیادہ چیں بہ جبیں نہیں ہوگا لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ افغانستان میں بھارت بھی موجود ہے اور 31دسمبر 2014ء کے بعد بھی اس کا وہاں رہنے کا ارادہ ہے۔ چین بھی وہاں ’’کچھ کچھ‘‘ آیا ہوا ہے اور مزید بھی ’’آئے‘‘ گا ۔ اس طرح روس، چین اور پاکستان تینوں مل کر اس خطے کو امن و استحکام دینے کی تیاریاں کررہے ہیں۔
قارئین کو معلوم ہو گا کہ افغان جہاد کے دور میں سوویت ٹروپس 25دسمبر 1979ء کو دریائے آمو کو عبور کرکے افغانستان میں داخل ہوئے تھے اور 1988ء میں آخری روسی سپاہی واپس چلا گیا تھا۔ ان آٹھ سالوں میں افغانستان اور پاکستان میں اتنی خونریزی اور قتل و غارت گری نہیں ہوئی تھی جتنی 2001ء سے لے کر 2014ء تک کے درمیانی 13برسوں میں ہوئی۔ اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ خود افغانستان میں کہ جو 1980ء کے عشرے میں سوویت یلغار کا نشانہ بنا تھا، اتنا خون خرابہ نہ ہوا جتنا نئی ہزاری کے اس ڈیڑھ عشرے میں ہوا۔ اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور میں پاکستان میں خونریزی کا کوئی شاذ و نادر سانحہ ہی ہوا ہوگا۔ لیکن قطع نظر اس کے کہ امریکی آمد کو جنرل پرویز مشرف کی جبری آشیرباد حاصل تھی، امریکیوں کے ’’ورود مسعود‘‘ نے ہماری مملکت خداداد کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اور پاکستان کے عوام الناس میں ایسی تفریق پیدا کی کہ اس کے اثرات آنے والے کئی عشروں تک شائد ہی بھلائے یا مٹائے جا سکیں۔
پاک۔روس دفاعی معاہدہ پر یہ دستخط عین اس وقت کئے گئے جب پاکستان کے آرمی چیف امریکہ کے ہفتہ بھر کے دورے پر واشنگٹن میں تھے اور ان کے ہمراہ بھی پاک آرمی کا ایک ’’بھاری وفد‘‘ گیا ہوا تھا۔بین الاقوامی میڈیا کہہ رہا ہے کہ روس کو یوکرائن کے مسئلے پر شائد آئندہ پاکستان کی حمائت درکار ہوگی ۔شائد روس اس لئے پاکستان کی طرف دیکھنے لگا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو خود پاکستان کو بھی روس کی زبانی کلامی حمائت کے علاوہ مقرون (Concrete) مدد درکار ہوگی۔ اس مقرون مدد کا ایک مظاہرہ اسی روسی دورے کے دوران اس وقت دیکھنے میں آیا جب روس نے پاکستان کو Mi-35M قسم کے جدید ترین ہیلی کاپٹر دینے کی حامی بھر لی۔اگرچہ ان کی تعداد نہیں بتائی گئی لیکن چند دنوں میں یہ ہیلی کاپٹر پاکستان پہنچ جائیں گے۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک سے حاصل شدہ، کوبرا گن شپ وغیرہ اب ’’بوڑھے‘‘ ہو چکے ہیں اور کوئی ’’جوان ہیلی ‘‘ مغربی ممالک سے ملنے کی زیادہ امید نہیں ہے۔
جہاں تک اس ہیلی کاپٹر کی ٹیکٹیکل اور ٹیکنیکل خوبیوں کا تعلق ہے تو Mi-35M روس کا جدید ترین ہیلی کاپٹر ہے۔پاکستان کے پاس قبل ازیں Mi-17اور Mi-24قسم کے روسی ہیلی کاپٹر موجود ہیں جن کی کارکردگی ساری دنیا میں مسلّم ہے اور ان کا مقابلہ دنیا کے کسی اور ہیلی کاپٹر سے نہیں کیا جا سکتا۔Mi-17 تو دنیا کے تقریباً 100ممالک کی افواج کے زیر استعمال رہا ہے اور آج بھی ہے۔
Mi-35M ایک ملٹی رول اٹیک ہیلی کاپٹر ہے جو Mi-24V کی جدید ترین اپ ڈیٹ ہے۔ اس کی سیریل پروڈکشن 2005ء میں ماسکو کے ہیلی کاپٹر پلانٹ میں شروع کی گئی تھی۔ روسی فضائیہ کے علاوہ ونزویلا اور برازیل کی افواج میں بھی اس کا استعمال گزشتہ دس برسوں سے ہو رہا ہے۔اس ہیلی کاپٹر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انتہائی گرم اور انتہائی سرد موسم میں دن رات (24گھنٹوں تک) بغیر رکے آپریٹ کر سکتا ہے۔اس کے اندر گائڈڈ اور ریگولر اسلحہ رکھا جا سکتا ہے اور یہ دن اور رات میں زمین پر اور سطح سمندر پر یکساں آسانی کے ساتھ پرواز کر سکتا ہے۔اس کے کاک پٹ میں جدید ترین رنگین Gadgets نصب ہیں جو پائلٹ کے لئے مسلسل اور تادیر پرواز ی آسانیوں کا باعث بنتے ہیں۔اس میں جدید انجن، روٹر بلیڈ، ایوی آنکس اور نیوی گیشن کے جدید ترین آلات نصب ہیں۔(عام قارئین کے لئے اس کی مزید تکنیکی خوبیاں اگر بتا بھی دی جائیں تو ان کی تفہیم ذرا مشکل ہوگی۔)البتہ یہ بتانا ضروری ہوگا کہ دوران پرواز اس کا شور کم ہوتا ہے۔مختلف پروازوں کے دوران اور ہر پرواز کے بعد ایک عام ہیلی کاپٹر کو جس قسم کی روٹین دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے، اس ہیلی کاپٹر میں وہ دیکھ بھال تقریباً 50فیصد کم ہو جاتی ہے۔
اس میں آٹھ چھاتہ بردار مع اپنے چھاتوں کے، بیٹھ سکتے ہیں، اس کی باڈی کے اندر 1500کے جی تک وزن اٹھانے کی صلاحیت ہے۔اس وقت پاکستان کے پاس ہیلی کاپٹروں کا جو بیڑا ہے اس میں اٹیک ہیلی کاپٹر اور کارگو ہیلی کاپٹر دونوں شامل ہیں۔
مزید برآں اس ہیلی کاپٹر میں زخمیوں کو لانے لے جانے کی سہولتیں بھی موجود ہیں۔ آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کے مختلف مناظر جو قارئین نے ٹیلی ویژن سکرینوں پر دیکھے ہوں گے ان میں ایم آئی17 اور کوبرا قسم کے ہیلی کاپٹر شامل ہوتے ہیں۔ چونکہ آرمی اور فضائیہ ایک طویل عرصے سے ان ہیلی کاپٹروں کو استعمال کر رہی ہیں، اس لئے مرورِ ایام سے ان میں شکست و ریخت (Wear & Tear) کا گراف بڑھ گیا ہے۔اگر چہ ہیلی کاپٹروں میں حادثات کی شرح کم ہے لیکن پاکستان کو شمالی وزیرستان ، خیبرایجنسی ، باجوڑ اور دیر وغیرہ میں ان مشینوں کے استعمال کی ضرورت بہت زیادہ ہے،ا س لئے ضروری ہو گیا ہے کہ ہیلی کاپٹروں کے بیڑے میں توسیع کی جائے۔
جب روسی وزیر دفاع پاکستان آئے تو بعض مبصرین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان کے دورے سے بھارت کے ناراض ہو جانے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ خواجہ آصف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ : ’’ ایسی کوئی بات نہیں۔ بھارت کو ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے۔جب امریکی زعماء بھارت کا دورہ کرتے ہیں تو پاکستان کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کرتا۔روس، اس خطے کی ایک بڑی طاقت ہے۔ روسی وزیر دفاع کے اس دورے کا نہ بھارت کو بُرا منانا چاہیے اور نہ امریکہ کو۔ روس، پاکستان کا ہمسایہ ہے اور پاکستان کو آنے والے برسوں میں اس خطے کی سلامتی اور امن و امان کی فکر ہے۔ اگلے ماہ جب امریکہ افغانستان سے چلا جائے گا تو چین اور روس کا رول افغانستان میں بڑھ جانے کی توقع نہ کرنا ، نادانی ہے۔جب امریکہ 2001ء میں افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا تو روس نے یا چین نے کتنا بُرا منایا تھا؟ ہمیں ماضی کو بھول کر آگے بڑھنا چاہیے۔ہمیں اس ریجن میں نئی شروعات کرنی ہیں۔ماضی کے ساتھ چمٹے رہنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔پاکستان اس خطے میں روس اور چین کی موجودگی کو استحکام کا باعث گردانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس، چین اور پاکستان تینوں مستقبل قریب میں ایک دوسرے کے ساتھ ملٹری تعاون و اشتراک کو بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔‘‘
اگر روس اور پاکستان اپنی پرانی سٹرٹیجک روشوں میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں تو اس کی وجوہات امریکہ اور بھارت کی روشوں میں تبدیلی میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے انڈیا نے امریکہ، اسرائیل اوریورپی ممالک سے دفاعی تعاون بڑھا دیا ہے۔اگرچہ آج بھی بھارت کے بھاری اسلحہ کا 70 فیصد روسی نژاد ہے پھر بھی اس برس بھارت نے امریکہ سے 1.9 ارب ڈالر کے دفاعی سودے کئے ہیں ۔ اس طرح بھارت امریکی عسکری سازوسامان خریدنے والا دنیا بھر میں سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔
تین روز پہلے (22نومبر2014ء)نئی وزارت کا چارج سنبھالنے کے بعد بھارت کے نئے وزیر دفاع منوہر پریکر نے مسلح افواج کے سربراہوں اور اپنی وزارت کے اعلیٰ افسروں کے اولین اجلاس میں ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے۔30برس پہلے بوفورتوپوں (Bofor Guns) کی خریداری کے سودے میں کرپشن اور کمیشن کے انکشاف کے بعد انڈیا نے اس معاہدے پر عملدرآمد کو روک دیا تھا۔ اب بھارتی وزیر دفاع نے حکم دیا ہے کہ یہ گنیں فوراً خریدی جائیں۔ ان کی تعداد 814 ہے اور ان پر 15750 کروڑ روپے کا خرچہ آئے گا۔ان میں سے 100بو فور توپیں سویڈن میں ڈھالی جائیں گی کہ جوان کا اصل مینو فیکچر ر(توپ ساز)ملک ہے اور باقی 714 انڈیا میں ڈھالی جائیں گی۔ بھارتی وزیراعظم شری مودی نے حکم دے رکھا ہے کہ Made in India کلچر پر سختی سے عمل کیا جائے۔ لیکن مغرب کے وہ شاطر سوداگر جن کے حال اور مستقبل کا دار و مدار اپنی اسلحی برآمدات پر ہے، وہ بھلاکیسے اپنے ہاتھ کاٹنے کی اجازت دیں گے؟بھارتی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں جواسلحہ ڈھالا جائے گا وہ نمبر دو ہو گا۔نمبر ایک وہی ہوگا جو اصل یورپی اور امریکی کارخانوں میں بنایا جائے گا اور وہیں سے برآمد کیا جائے گا!