پاکستان کے شہیدانِ وفا
بنگلہ دیش کی حکومت تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ان شہریوں کو پھانسیاں دیتی جا رہی ہے، جن پر45برس بعد اس نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے1971ء میں جنگی جرائم میں حصہ لیا تھا۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما صلاح الدین قادر چودھری اور علی احسن محمد مجاہد سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کو بنگلہ دیش حکومت نے اپنے اندھے گونگے اور بہرے قانون اور انصاف کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اس سے قبل شیخ حسینہ واجد کی دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر بننے والی حکومت عبدالقادر ملا اور قمر الزماں کو انہی بے بنیاد الزامات کی بناء پر تختۂ دار پر لٹکا چکی ہے۔ ضعیف و نزار پروفیسر غلام اعظم کو بھی تمام بنیادی انسانی حقوق اورانتقام کی نذر کر دیا گیا اور ابھی مطیع الرحمن نظامی و دیگر جیلوں میں صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے اپنی آخری سانس گِن رہے ہیں، لیکن زندگی اور موت کا وقت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ان سر بکف محبانِ اور شہیدانِ پاکستان کو1971ء میں کیا خبر تھی کہ ہم پر جب کڑا وقت آیا تو اسی پاکستان سے ہماری حمایت میں کوئی آواز نہیں اُٹھے گی۔ ابھی وزیر داخلہ چودھری نثار علی اور عمران خان کے بیانات قدرے حوصلہ دیتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ بروقت محسوس نہیں ہوتا۔ بقول فراز:
ستم تو یہ ہے کہ عہدِ ستم کے جاتے ہی
تمام خلق میری ہم نوا نکلتی ہے
بنگلہ دیشی حکومت9اپریل1974ء کو پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کے درمیان طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کر رہی ہے، جس میں واضح طور پر یہ تحریر تھا کہ جنگ1971ء کے حوالے سے کوئی ملک کسی بھی شہری سے کوئی انتقام نہیں لے گا۔ایک نئے آغاز کے لئے اسے ماضی کا حصہ بنانا ہو گا۔ مسلم لیگ کی حکومتِ پاکستان کو چاہئے تھاکہ مسلم لیگ مشرقی پاکستان کے رہنما فضل القادر چودھری کے صاحبزادے صلاح الدین کی سرا سر بلا جواز، غیر قانونی اور بے بنیاد پھانسی کو رکوانے کے لئے اپنا پورا زور لگاتی۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا دروازہ کھٹکھٹاتی اور ہیومن رائٹس کونسل میں آواز اٹھاتی، ان این جی اوز کو اپنے مطالبات یاد کرواتی،جس میں وہ سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں، لیکن بنگلہ دیش میں بزرگ سیاست دانوں کی سزائے موت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ ان پر وہ ہر شب ٹی وی ٹاک شوز میں واویلا نہیں مچاتیں۔ ابھی گزشتہ دِنوں جس فیض احمد فیض انٹرنیشنل فیسٹیول میں وہ بھنگڑے ڈال ڈال کر فارغ ہوئے ہیں وہ فیض تو زندگی بھر دُنیا میں محبت، انسانی حقوق اور امن کی بات کرتا رہا اور بنگلہ دیش اور پاکستان کے اس مسئلے پر آپ چُپ سادھے ہوئے ہیں۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی والی این جی اوز کے بھارت سے اچھے تعلقات ہیں، ان کے ذریعے بالواسطہ طور پر بنگلہ دیشی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی طرف توجہ دلائی جا سکتی ہے۔
صلاح الدین قادر چودھری کو بھی پھانسی دینے کا اقدام سرا سر بے انصافی اور غرور اور انتقام پر مبنی ہے سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ صلاح الدین شہیدؒ اس وقت پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بی اے آنرز کر رہے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور دانشور جناب اسحاق خاکوانی اور چند افراد نے ان کی ڈگری کی کاپی یونیورسٹی ریکارڈ سے نکلوا کر جس پر سیشن 1969-71ء چھپا ہوا ہے، رجسٹرار ڈاکٹر لیاقت علی اور وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران سے تصدیق کروا کے ایک ایل ای بائی (Alibi) بنا کر بنگلہ دیش کی عدالت میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی جس میں ثابت کیا گیا تھا کہ 1971ء کی جنگ کے دران تو صلاح الدین لاہور میں زیر تعلیم تھے وہ جنگی جرائم میں حصہ کیسے لے سکتے تھے؟ دنیا بھر کی عدالتیں ایسے ٹھوس ثبوت اور گواہان کی بنیاد پر قتل کے ملزم کو بھی سزا نہیں دے سکتیں، لیکن بنگلہ دیشی ہائی کمشنر نے ان کو بنگلہ دیش جانے کی اجازت ہی نہیں دی ڈھاکہ ہائی کورٹ کے جسٹس تفہیم احمد بھٹی اس وقت ان کے کلاس فیلوتھے ان کی بات انہیں یاد آ گئی آخری دنوں میں اسحاق خاکوانی نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ایک خط تیار کروا کے حکومت بنگلہ دیش کو بھجوایا، لیکن اس کے چند گھنٹوں بعد دونوں بے قصور رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی اسحاق خاکوانی نے یہ ڈگری، لیٹر اور سہ فریقی معاہدے کی کاپیاں جیو ٹی وی پر طلعت حسین کے پروگرام میں سکرین پر بھی دکھائی۔ پاکستان کے دیگر ٹی وی چینلوں اور پورے میڈیا نے اس واقعہ پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ اب حکومتی سطح پر بین الاقوامی طور پر اس مسئلہ کو پورے شد و مد کے ساتھ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر یہ سبھی کوششیں نقشِ بر آب ثابت ہوں گی۔
بنگلہ دیشی حکومت کے سیاسی انتقام اور بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے یہ اقدامات اتنے مضحکہ خیز اور بے سرو پا ہیں کہ ہر سوچنے سمجھنے والا انسان ان پر حیران ہے۔ پہلے جن دو سیاست دانوں کو پھانسی دی گئی وہ خالدہ ضیاء حکومت کی کابینہ اور پارلیمینٹ کے منتخب ممبر رہے تھے۔ اگر وہ مجرم تھے تو عوام ان کو اپنے اعتماد کا ووٹ دے کر منتخب کیوں کرتے رہے؟یہاں دُنیا بھر کی بڑی جمہوریتوں کے دعوے داروں کو جمہوریت نظر نہیں آتی۔ اس طرح صلاح الدین شہیدؒ 6 مرتبہ پارلیمینٹ کے ممبر منتخب ہوئے، ان پر 23 مقدمات قائم کئے گئے اور یہ دونوں شہداء 2010ء سے جیل میں نظر بند تھے۔ پھر بھی قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر ان کو اچانک پھانسی دے دی گئی۔
’’انٹرویو ود ہسٹری‘‘ میں عالمی شہرت یافتہ صحافی اوریانہ فلاسی لکھتی ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن سے جب اس نے پوچھا کہ 1971ء کی جنگ میں کتنے بنگالیوں کا قتلِ عام ہوا تھا تو وہ صحیح اعداد و شمار (Exact Figures) بنانے سے قاصر رہے تھے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ مکتی باہنی کے غنڈوں کے ساتھ مل کر بنگالی قوم پرستوں نے پاکستان کے حامیوں کا قتل عام کیا تھا۔ ان کا ذکر تاریخ میں بہت واضح طور پر نہیں کیا جا سکا۔ ہندوستان کے سابق آرمی چیف مانک شاہ انٹرویو اور ریندھر سنگھ اور ایس کے اے ڈبلیو چودھری کی تحریریں ’’سولجرنگ وِد ڈگنٹی‘‘ کرنل شریف الحق دالم کی کتاب میں ایسے کئی سر بستہ رازوں سے پردہ اُٹھا دیا گیا ہے۔ اب تو جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر بے گناہ انسانوں کو کوئی سزا نہیں دی جا سکتی، لیکن بنگلہ دیشی حکومت پوری ڈھٹائی سے ظلم کرتی جا رہی ہے۔
بنگلہ دیش کی حکومت ایسے اقدامات سے بین الاقوامی سطح پر اور اسلامی دنیا میں تو خود کو بدنام کررہی ہے، لیکن داخلی طور پر بھی اسے قومی تشخص کا مسئلہ درپیش ہے۔ یہ درست نہیں کہ اس ملک کی اکثریت عوامی لیگ کی حامی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو شیخ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کو اپوزیشن کے بائیکات کے باوجود وہاں الیکشن کا ڈھونگ رچانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ؟ اگر ایسا ہوتا تو حکومت ڈھاکہ سٹیڈیم میں پاکستان بنگلہ دیش کرکٹ میچ کے دوران پاکستانی پرچموں پر پابندی لگانے کا حکم کیوں نافذ کرتی؟ایک طرف یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بنگلہ دیش کو سیکولر اور لبرل بنانے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں، تو دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں نفاذِ اسلام کی تحریک بھی بہت مضبوط اور زوروں پر ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں اب بھی عوام ڈھاکہ اور دیگر بڑے شہروں میں اکٹھے ہوتے ہیں اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپنے مطالبات سے دست بردار نہیں ہوتے اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ سو بنگلہ دیش کے عوام اسی سیاسی انتشار اور قومی تشخص کے بحران سے دوچار ہیں۔ وہاں کی حکومت جو دنیا بھر میں اپنا امیج ظاہر کرنا چاہتی ہے وہی مکمل، اصل اور حقیقی تصویر نہیں ہے، بلکہ بہت سی چیزوں کو چھپایا جا رہا ہے۔ اب وہاں کی معیشت بھی آئے روز کی ہڑتالوں اور احتجاج کی وجہ سے بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔ اسی وجہ سے دیگر ممالک کے صنعت کاروں نے وہاں مزید سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، جس کا نقصان بالآخر وہاں کی حکومت اور عوام کو ہی ہوگا، لہٰذا بنگلہ دیشی حکومت کو ہر پہلو سے ان یکطرفہ پھانسیوں کے نتائج اور اثرات پر غور کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں ایک ذہنی مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسی دینا بنگلہ دیش کا داخلی مسئلہ ہے، ہمیں اس میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ یہ خیال سراسر حقائق اور تاریخ کے برعکس ہے۔ یہ جرائم 1971ء میں رونما ہونے والے واقعات سے متعلق بیان کئے جاتے ہیں۔ اس وقت مشرقی پاکستان کے تمام عوام آئینی اور قانونی رو سے متحدہ پاکستان کے شہری تھے۔ اس لئے ان پر اگر اب ظلم ہو رہے ہیں تو حکومت پاکستان،ریٹائرڈ عسکری افسران، تمام پاکستانی سیاست دانوں اور ذرائع ابلاغ کو ان مظالم کے خلاف اخلاقی طور پر بھی آواز اٹھانا چاہئے، تاکہ بنگلہ دیش حکومت آئندہ کوئی غلط قدم اٹھانے سے باز رہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ پھانسیاں پانے والے پاکستان کے یہ شہیدانِ وفا شیخ حسینہ واجد کے ادوارِ حکومت میں پارلیمنٹ کے ممبرز منتخب ہوتے رہے ہیں۔ خالدہ ضیاء کی کابینہ میں شریک رہے ہیں، کیا اس وقت یہ 1971ء کے جنگی جرائم کے مجرم نہیں تھے؟ ساری بات دراصل شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد کی حد سے بڑھتی ہوئی اقتدار کی ہوس اور سیاسی انتقام کی ہے، جو بالآخر اس خاتون حکمران کو اپنی ہی آگ میں جلا کر بھسم کر دے گی۔