کالا باغ ڈیم کی کہانی، شمس الملک کی زبانی (2)
دراصل کسی صوبے کواِس قسم کے معاملات میں کوئی شکایت ہو تو اس کو کونسل آف کامن انٹرسٹ (Council of Common Interest) میں جانا چاہئے، کیونکہ وہاں تو حقائق پر مبنی بات ہو گی گویا (Facts And Figures) کو سامنے رکھ کر، معاملات کو طے کیا جائے گا۔ اِن صوبوں میں کوئی بھی صوبہ اِس کونسل آف کامن انٹرسٹ میں نہیں گیا۔ کیونکہ اِن کو معلوم ہے کہ وہاں یہ اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ یہ صرف اسمبلیوں اور اخباروں میں، بیان بازی ہی کرتے ہیں۔ جو اس کا مناسب فورم ہے ۔۔۔اس میں نہیں جاتے۔ جہاں اس کا فیصلہ ہونا ہے۔ شمس الملک کے مطابق، بلوچستان کے نمائندے ہمیشہ سندھ کی شکایت کرتے تھے کہ ہمیں پورا پانی نہیں دیا جاتا۔ اِس لئے میرا یہ پروگرام تھا کہ بلوچستان کا ایک (Independent) بیراج ہو۔ تاکہ سندھ کے ساتھ، جھگڑا ختم ہو۔صرف بلوچستان کے لئے الگ ، جُدا بیراج! دریائے جہلم ، نیلم، چناب۔۔۔انڈس میں داخل ہوتا ہے تو پانی کو (Divert) کیا جائے ۔۔۔یہ کوشش انڈیا کر رہا ہے۔ اِس معاملے کو ہم نے صحیح طور پر نہیں سوچا۔ ہائیڈل پاور بنانے کے لئے، انڈیا کے پاس لامحدود (Unlimited) حق ہے۔یہ حق دیا گیا ہے، لیکن (Limits) کیوں نہیں ہوں گی۔ کشمیرسے، پانی ہمارا اور اُسے لے جا کر ، دہلی اور لکھنؤ کو روشن کرتے ہیں، کیونکہ ہر بات میں، (Basin) کی بات ہوتی ہے۔ انڈیا کی طرف سے۔ کمزوریاں ہماری اپنی ہیں، جس میں کمیشن وغیرہ کا معاملہ ہوتا ہے۔ مثلاً آپ ہمیں ایک سٹور دیتے ہیں، 10ارب روپے کا۔ ساتھ بندوق دیتے ہیں۔۔۔ بغیر کار تواس کی رکھولی بھلا کیسے ہو گی؟
چلئے اَب کالا باغ ڈیم کو چھوڑ کر ۔۔۔دوسرے مختلف ہائیڈل پراجیکٹس کی بات کرتے ہیں۔ مختلف ہائیڈل پاور کے علاوہ سکردو ہائیڈل کو بھی شامل کر کے، کتنی بجلی پیدا ہو گی۔ اس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اِن تمام امور میں۔ انڈیا کا ایجنڈا ہے۔۔۔ پاکستان کا ایجنڈا نہیں حالانکہ ہم نے 1994ء میں کالا باغ ڈیم اور 2010ء میں بھاشا ڈیم بنانا تھا۔ کدھر ہے؟ ان تمام کاموں میں، ایک کمپنی جو کام کر رہی تھی۔۔۔ اب وہ انڈین کمپنی بن چکی ہے۔ بھلا وہ ہمارا فائدہ کب سوچیں گے؟داسو ڈیم بنانے کا فائدہ یہ تھا۔ کہ پانی سٹور نہیں ہو گا۔ پانی (Flow) میں آئے گا۔۔۔ بجلی بنائے گا۔۔۔ آگے نکل جائے گا۔ سٹوریج نہیں ہو گی۔ کیونکہ وہ جگہ (Narrow) تنگ ہے۔ نہ ہی (Siliting) کا مسئلہ ہو گا۔ بھاشا ڈیم کے بغیر ۔۔۔ ہماری قومی ضرورت پوری ہونا، ممکن نہیں! تیل سپلائرز (Suppliers) کا مافیا ہے۔ گیس کا مافیا ہے۔ تیل کا بل 10فیصد کاروں پر استعمال ہو گا اور 90فیصد بجلی بنانے کے لئے، استعمال ہو گا۔ یہ تو خود کشی والی بات ہے۔ کاربن کریڈٹس ملے گا۔۔۔ ادھر نہیں جاتے۔ اِس وقت بھی 204ارب روپے سالانہ، بجلی کے دے رہے ہیں۔ فیصلے کرنے والے، بھلا کیسے کیسے فیصلے کرتے ہیں؟ (Oil Producing Companies) ہمارے مُلک کو دیمک کی طرح کھا جائیں گی۔ جب بجلی پیدا کرنے کے لئے بھی تیل کو استعمال میں لایا جائے گا اور اِس کے علاوہ (Kick Backs) جو کہ (Necessary Evil) ہے۔۔۔ وہ بھی موجود! یاد رہے! پانی ایسی (Commodity) ہے جو نہ (Manufacture) کی جا سکتی ہے اور نہ ہی یہ (Portable) ہے۔ اِسی لئے انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ:
"Water is Such a commodity which is neither Manufacturable Nor Portable."
ہاں! یقیناًپانی زندگی ہے۔ ہر زندہ چیز پانی ہی سے پیدا ہوئی ہے ۔۔۔ اور اپنی (Existence) کے لئے پانی ہی کی محتاج ہے۔ اِسی لئے اللہ رب العزت نے کرّہ ارض پر، تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی کا رکھا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے پاکستان کے فیصلے کون کر رہا ہے۔ کوئی اور ہی کر رہا ہے۔ اپنے تو اتنے بے رحم نہیں ہو سکتے۔ اسمبلی میں بیٹھے چار ساڑھے چار سو کے لگ بھگ ، پوری قوم کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کیا وہ پلاننگ وزارت کی تیار کی ہوئی پر اجیکٹس فائلیں اور PCIاور PCII کو پڑھتے بھی ہیں یا ایسے ہی اسمبلی میں آکر، ہاں میں ہاں ملا کر ، قوم کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں؟
ایک سیاست دان نے کہا۔۔۔ بہترین آمریت سے، بدترین جمہوریت بدرجہا بہتر ہے۔ وہ سچ ہی کہتے ہیں کیونکہ وہ ایک ہاتھ سے، حکومت کو لُوٹتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے عوام کو ۔یاد رہے! اس مُلک میں 35 سال سیاست دانوں اور 35برس جرنیلوں نے حکومت کی،بلکہ پاکستان کی قسمت سے کھیلے۔ ایک جرنیل آیا اُس نے ایک پاکستان کے چار صوبے بنا دیئے اور ساتھ ہی مشرقی پاکستان بھی۔۔۔ بنگلہ دیش بنایا۔ ایک جرنیل آیا اُس نے سول سروس کے ڈھانچہ کی اکھاڑ پچھاڑ کی ۔۔۔ ڈی ۔ سی سسٹم سے ڈی سی او سسٹم کو لے آیا۔ جیسے جی چاہا ویسے کیا اور پراگریس نہ ہونے کے برابر ۔ ایک عجیب سا (Concept) رہا ہے کہ ملٹری گورنمنٹ ، ہمیشہ (Strong) ہوتی ہے بھلا کیسے؟ جنرل ایوب خان 10برس اِس ملک پر حکمرانی کرتا رہا۔ جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ (One Unit) توڑا اور مشرقی پاکستان کو بھی۔ الیکشن بھی کرائے۔۔۔ اور (Legal Frame Work Order Lfo) بھی لائے۔ جنرل ضیاء الحق نے آئین میں ، ترامیم کیں۔ جنرل پرویز مشرف نے سول ایڈمنسٹریشن کو (Reverse Gear) لگایا یاد رہے! ملٹری لیڈر آئے۔۔۔ حکومت پرسنل ہو گئی۔ آرمی چیف کا (Tenure) ختم ہوتا ہے تو وہ چھوڑتا نہیں۔ (Personal Ruler) بن جاتے ہیں۔ پھر اُن کو اس کی (Legitimacy) درکار ہوتی ہے۔ سروسز کے لوگ، عوام پر فیصلے نہیں کر سکتے۔ اُن کو عوام کے سہارے کی تلاش ہوتی ہے۔ انہی سیاست دانوں میں سے، اُن کا سہارا بن جاتے ہیں۔ یوں ان کے اقتدار کو طول ملتا ہے۔ جنرل ایوب خان واحد آدمی تھا، جس کے دور میں پاکستان کا (Growth Rate) 10فیصد بڑھ گیا تھا۔ اور پاکستان ایشین ٹائیگر بن گیا۔
انڈس واٹر ٹریٹی کے وقت شمس الملک چیف انجینئر تھے۔ اس معاہدہ سے پہلے، چیف انجینئر پنجاب کو ہر وقت اس بات کی فکر ہوا کرتی تھی کہ آج انڈیا ہمارے لئے کتنا پانی چھوڑے گا، کیونکہ TAP اُن کے پاس تھا کیونکہ دریا وہاں سے ہی نکلتے تھے۔ گو اُن کے پاس اِس کی پاور نہیں تھی۔ اِس معاہدہ کا یہ فائدہ ہوا کہ ہمارے تین دریاؤں کا پانی ہمارا ہو گیا بلکہ ہماری ملکیت میں آگیا۔ اب ہم نے اِس کی ملکیت کو لینا تھا، جو بوجوہ ہم نہ لے سکے۔ جناب شمس الملک تو ہائیڈل پاول کے ہی ایڈووکیٹ ہیں۔ متبادل انرجی کے بارے میں، ان کا خیال خاص طور پر سولر انرجی کے بارے یہ تھا کہ پوری کی پوری چھت بھر دیتے ہیں (Solar Panels) سے، اس کے باوجود ایک ایئر کنڈیشنر تک نہیں چلا سکتے۔ وہ اِس لئے کہ اسے دوسری انرجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قائداعظم سولر پارک جو کہ رحیم یار خان کے پاس ہے۔ اس کے بارے بھی انکا خیال یہی ہے کہ اس کا تعلق براہِ راست سورج کی حرارت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ اِس لئے جتنی زیادہ سورج کی حرارت اِسے ملے گی، اتنی ہی زیادہ بجلی پیدا ہو گی۔ سورج کی حرارت کے (Peek Hours) دوپہر 12بجے سے لے کر سہ پہر 4بجے تک ہی ہوتے ہیں۔ اس میں (Maximum)بجلی پیدا ہوتی ہے۔
پاکستان کی انرجی پالیسی یا انرجی بلڈنگ میں واپڈا کا رول کیا ہوتا ہے؟ 1994ء تک واپڈا (Effective) تھا۔ پورے پاکستان کے لئے، انرجی کا ذمہ دار تھا۔ ہائیڈل اور تھرمل۔ سب کے لئے۔ پھر حکومت کو باور کرایا گیا کہ ڈیم اتنی بڑی چیز ہوتے ہیں، جس میں ورلڈ بینک وغیرہ (Involve)ہوتے ہیں۔ اس لئے طے ہوا کہ (Power House) پرائیویٹ دے دیں اور (Power Stations) (Rent) ،یعنی کرائے پر لے لیتے ہیں۔ ڈیم کے دو (Problem)گنوائے گئے ایک تو یہ (Environment) کو (Damage) کرتا ہے اور دوسرا یہ بہت سی زمین روک لیتا ہے۔ جناب شمس الملک فرماتے ہیں کہ چین نے 25ہزار ڈیم بنائے ہیں۔ امریکہ نے 6500ڈیم، اور ہندوستان نے 4500ڈیم بنائے ہیں۔ اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ جنہوں نے ڈیم نہیں بنائے۔۔۔ وہ تباہ ہوئے اور جنہوں نے ڈیم بنائے ۔۔۔ وہ بچے رہے اور کامیاب ہوئے۔ مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ چین ۔ امریکہ اور ہندوستان کی لوڈشیڈنگ اور پریشانی۔ کام کرنے کی صلاحیت میں کمی آئی ہے۔ بجلی ہوگی۔۔۔تو روشنی آئے گی۔۔۔ تو طلبہ مطالعہ کریں گے اور آگے بڑھیں گے۔ اِسی طرح بجلی ہو گی۔۔۔ تو انڈسٹری فعال ہو گی ۔۔۔ وگرنہ مقامی ضروریات بھی پوری نہیں ہوں گی اور نہ ہی کوئی چیز ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہوں گے۔
عجیب منطق ہے کہ ہم دو ڈیم بنانے سے تباہ ہونے والے ہیں۔ حالانکہ ویسے تو ہماری (Survival) کا ذریعہ بنیں گے۔۔۔یعنی کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم دو بڑے ڈیم منگلا ۔ تربیلا تقریباً 29ارب یونٹ بجلی پیدا کر تے ہیں اور ایک یونٹ بجلی کی قیمت صرف ڈیڑھ روپیہ ۔ ظاہر ہے کہ جس طرح ایک انسان کی (Age) ہوتی ہے۔ اسی طرح ڈیم کی بھی ایک (Age)ہوتی ہے۔ (Silt) وغیرہ کا آنا ایک فطری امر ہے۔ اس کی صفائی وغیرہ اِس کا ایک لازمی حصہ ہوا کرتا ہے۔ یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ جب بھی بجلی کی پیداوار کا پراجیکٹ بنایا جاتا ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ اِس کی (Cost) کیا ہے؟ یعنی بالفاظ دیگر ایک ڈیم کی طبعی (Age) ۔ انسان کی طبعی (Age) کی طرح ہے۔ بعض انسان چالیس سال، بعض پچاس۔ ساٹھ برس تک زندہ رہتے ہیں۔ دورانِ زندگی بیمار بھی ہوتے ہیں۔ علاج سے درست بھی ہو جاتے ہیں حتی کہ اپنی طبعی عمر کے اختتام تک جا پہنچتے ہیں۔ اِسی طرح ڈیم کی بھی ایک طبعی عمر ہوتی ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ، اس میں (Silt) وغیرہ آئے گی اُسے (Desilit) کرنا پڑے گا۔ اس کے بند اورپُشتے مضبوط کرنا پڑیں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اخراجات طبعی اور ڈیم کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔
کالا باغ ڈیم (Medium Height) کا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کا 2/3حصہ (Silting) سے بالکل بچا رہے گا اور 1/3 جس میں (Silting) ہو گی اس کی صفائی کا بندوبست بھی (Inbuilt) ہے۔ ہر برس جولائی کے مہینہ میں (Flushing) کا (Tunnel) کھولا جائے گا۔ جو (Silt)آئے گی اُسے (Flush) کر کے آگے لے جائے گا۔ اس کے بعد باقاعدہ کھولا جائے گا۔۔۔ ڈیم کو۔ پاکستان کے مستقبل میں، ہمیں ایسے پراجیکٹ کی ضرورت ہے۔ جس سے ہمیں کم سے کم وقت میں، انرجی میسر ہو اور وہ بھی ہائیڈل۔ اب یہ کالا باغ ڈیم پر تمام صوبوں کو یکجا کرنا۔۔۔ بھلا کیسے؟ ایک مثال سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ پچھلے دنوں ، دِیر میں ، جب لوڈ شیڈنگ اپنے عروج پر تھی۔ تو لوگ پوچھتے اصل مسئلہ کیا ہے؟ تو کسی نے کہا فلاں کہتا ہے کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ فلاں جگہ ڈوب جائے گی۔ تو دِیر کے لوگوں نے بھلا کیا کہا؟ کہتے ہیں کہ اللہ کرے! سب ڈوب جائیں۔۔۔لیکن پھر ایوانِ اقتدار میں بیٹھے لوگوںں کو ، سوچنا پڑے گا۔ کہ جمہوریت تو نام ہی ۔۔۔عوام کی امنگوں اور خواہشات کے احترام کا ہے۔ جب قومی مفاد پر، اپنے مفاد کو ترجیح دیں گے ۔۔۔تو لامحالہ ایسے جذبات کا پیدا ہونا۔۔۔ ایک لازمی امر ہے۔ کالا باغ ڈیم سے بارہ ہزار میگاواٹ بجلی بآسانی حاصل کی جا سکتی ہے اور اسی طرح بھاشا ڈیم بھی اسی قدر اہمیت کا حامل ہے۔ وزیراعظم پاکستان سے التماس ہے کہ بسم اللہ کریں اور ان ہر دو ڈیموں کو بنائیں۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم میں اتفاق و اتھاد عطا فرمائے۔ آمین ! (ختم شد)