وزیراعظم نے ملتان -خانیوال موٹروے کا افتتاح کیا پیپلز پارٹی کے بانی پر میٹھی تنقید

وزیراعظم نے ملتان -خانیوال موٹروے کا افتتاح کیا پیپلز پارٹی کے بانی پر میٹھی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جنوبی پنجاب کی سیاسی ڈائری
شوکت اشفاق
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر نہ صرف گذشتہ حکومتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ پیپلز پارٹی کی موجودہ اور مرحوم قیادت کو بھی لفظوں کے تیر مارے اور کہا کہ مشرقی پاکستان ہماری غلطیوں سے جدا ہوا حالانکہ بنگالیوں نے پاکستان کی ترقی کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں مگر یہاں ’’ادھر ہم، ادھر تم‘‘ کے نعرے لگائے گئے، انہوں نے قرار دیا کہ مخالفین کی سازشوں سے ملک ترقی کی راہ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے لیکن اب ہم ترقی کے زینے پر چڑھ چکے ہیں اور ملک میں امن لوٹ رہا ہے اور اڑھائی برس بعد یہاں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی اب ہم صوبوں کو قریب لانے کے لئے ملک بھر میں موٹر وے کا جال بچھا رہے ہیں اور جلد ہی صوبوں کے درمیان فاصلے کم ہو جائیں گے، میاں نواز شریف نے یہ باتیں ملتان سے خانیوال ایم۔ 4 موٹر وے سیکشن کی افتتاحی تقریب جو خانیوال کے قریبی گاؤں شام کوٹ کے پاس منعقد ہوئی میں کہیں اور دعویٰ کیا کہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو ترقیاتی کاموں کی وجہ سے کامیابی ملی اور اس کامیابی کو ترقی کا راستہ روکنے والوں کا احتساب بھی قرار دیا۔
وزیر اعظم نے یہ باتیں ایسے وقت میں کہی ہیں جب اس خطے میں چند اضلاع کو چھوڑ کر باقی میں بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے کے لئے 5 دسمبر کو ووٹنگ ہو گی، سیاسی مخالفین اور نقاد اس تقریب کو بھی بلدیاتی انتخابات کے لئے ایک مہم قرار دے رہے ہیں کہ جس طرح انہوں نے لودھراں میں نہ صرف ایک بڑے کسان پیکج کا اعلان کیا تھا بلکہ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز بھی مختص کئے تھے، لیکن اس کے باوجود نمبر کے لحاظ سے تو مسلم لیگ(ن) بلدیاتی انتخابات کے رزلٹ میں پہلی پوزیشن پر آچکی ہے لیکن تناسب کے لحاظ سے اس کی سیاسی پوزیشن خاصی کمزور ہے یہی وجہ ہے کہ عوام نے آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کو ترجیح دی ہے۔
تحریک انصاف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے جبکہ پیپلز پارٹی سمیت باقی جماعتیں تو ’’عزت سادات‘‘ بھی بچانے میں ناکام رہی ہیں سیاسی مبصرین اسے ایک طرح کا سیاسی جماعتوں یا ان کے حمایت اور ٹکٹ یافتہ امیدواروں پر عدم اعتماد بھی قرار دے رہے ہیں لیکن کیا کہیے وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کہ وہ اسے بھی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں جہاں انہیں کافی اضلاع میں مقامی حکومتیں تشکیل دینے کے لئے نہ صرف آزاد امیدواروں کی حمایت درکار ہو گی بلکہ انہیں کلیدی عہدے بھی دینے پڑیں گے جس سے ایک مرتبہ پھر ایک اور ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس کے لئے یقیناًمسلم لیگ (ن) نے کافی ’’ہوم ورک‘‘ کر رکھا ہے جو انہیں اس موقع پر کام آئے گا لیکن لیگیوں کی اندرونی چپقلش کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے خصوصاً ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ اور خانیوال سمیت دوسرے شہروں میں انہیں سخت مزاحمت کا سامنا ہو گا جس کے لئے یقیناًانہوں نے انتظامات کئے ہوں گے لیکن خانیوال میں میاں نواز شریف کے جلسہ کے دوران ملتان اور خانیوال کے کچھ عہدیداروں کو جلسہ گاہ میں داخلے کی اجازت نہ دینا شاید ان کے لئے سیاسی دھچکے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ جلسہ کے انتظامات کے ذمہ داران کو کسی نہ کسی نے تو منع کیا ہو گا کہ کسے اندر جانے کی اجازت ہے اور کسے روکنا ہے جس پر وہاں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جس کی اطلاع شاید وزیر اعظم کو نہ دی گئی ہو مگر انتظامیہ اور دیگر ذمہ داران کو تو یقیناًاس بارے آگاہی ہو گی۔ یہ معاملات تیسرے مرحلے کی ووٹنگ میں منفی کردار ادا کر سکتے ہیں اور آزاد امیدواروں کے جیتنے کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف لگتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی میڈیا ٹیم میں کوئی بڑی کمزوری ہے یا پھر جان بوجھ کر کوئی ایسا کام کروا رہا ہے جس سے ان کی ’’اچھائی‘‘ کو ’’برائی‘‘ یا قابل تنقید بنانے کے لئے ایسے ثبوت بنائے جا رہے ہیں اور ایسا کام کروایا جا رہا ہے جس سے میاں نواز شریف کی بطور وزیر اعظم ، پارٹی سربراہ اور بطور سیاستدان توقع نہیں کی جا سکتی جو انہوں نے ایک اچھے اور مثبت پیغام اور اپنا اچھا تاثر قائم کرنے کے لئے خانیوال کے نواحی گاؤں شام کوٹ میں لڑکیوں کے ایک ہائی سکول میں کیا۔ خبر یہ جاری کی گئی کہ یہ ایک اچانک دورہ ہے جو میاں نواز شریف کی خواہش پر ہو رہا ہے لیکن دراصل یہ ایک پہلے سے طے شدہ دورہ تھا جس کے لئے گذشتہ ایک ہفتے سے انتظامات کیے جا رہے تھے اور تیاریوں کے عین مطابق میاں نواز شریف کو وہاں لے جایا گیا اور پھر وہ کر دیا کہ جس کو کسی مہذب معاشرے کے وزیر اعظم سے توقع نہیں کی جا سکتی ہے یہ شاید سینکڑوں سال پہلے کسی بادشاہت میں بھی نہ ہوا ہو کہ ہائی سکول کی بچیوں کو صبح سے ہی سکول میں پابند رکھا گیا اور انہیں گراؤنڈ میں بیٹھا دیا گیا اور چند کرسیاں سامنے رکھ دی گئیں جس پر وزیر اعظم، گورنر پنجاب اور وزراء کے ہمراہ ان کرسیوں پر بیٹھ گئے اور بچیاں ان کے پاؤں کے پاس بیٹھی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’میاں نواز شریف زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتی رہیں اور پھر وزیر اعظم کے پھرتیلے اور چاق و چوبند میڈیا نے اس کی تصویر بھی جاری کر دی جو ایک بدترین منظر پیش کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کو یقیناًاس بارے احساس بھی نہیں ہوا ہو گا لیکن دراصل یہ مقامی انتظامیہ اور ذمہ داران کا کام تھا کہ وہ اس ’’اچانک‘‘ دورے کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں لیکن بقول سیاسی تجزیہ نگار کہ وزیر اعظم کی میڈیا ٹیم نے ان کے اس عمل سے مثبت کی بجائے نقصان دہ تاثر پیدا کیا ہے جو آئندہ نواز شریف کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے میڈیا ٹیم یا منیجرز کی بات ہے تو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ معلوم نہیں کون انہیں گائیڈ کرتا ہے کہ جب جنوبی پنجاب میں آئیں تو لاہور اور اسلام آباد سے اپنے حواری میڈیا کو ساتھ لائیں۔ حالانکہ یہ ایک روایت ہے کہ صدر مملکت وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ جس شہر میں جائیں وہاں کے مقامی میڈیا کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا ہے لیکن وزیر اعظم اور خاص طور پر وزیر اعلیٰ کے میڈیا منیجرز ان کو مقامی میڈیا سے نہ صرف دور رکھتے ہیں بلکہ انہیں کسی بھی قومی ایونٹ میں مدعو نہیں کیا جاتا اور وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو شاید اس بارے خبر ہی نہیں ہے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -