سالِ رواں میں27پولیس افسر بلوچستان میں نشانہ بنے

سالِ رواں میں27پولیس افسر بلوچستان میں نشانہ بنے
 سالِ رواں میں27پولیس افسر بلوچستان میں نشانہ بنے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بلوچستان مسلسل دہشت گردی کی زد میں ہے ان حملوں کی زد میں پاک فوج اور پولیس کے جوان آ رہے ہیں۔پولیس پر حملوں میں وہ مسلح گروہ شریک ہیں،جن کا تعلق مذہبی رجحانات سے ہے اور ان پر پابندیاں عائد ہیں۔پرویز مشرف کے دور سے لے کر زرداری اور نواز شریف کے دور تک ان کے بیانات ، احتجاجی جلسے اور جلوس ہوا کرتے تھے۔ برسر عام ان کے عقائد پر حملے ہوتے تھے اور اشتعال انگیز تقریریں اور نعرے ہوتے،مگر حکومتوں نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں ردّالفساد پر عمل شروع ہوا تو ان کا راستہ روکا گیا اور وہ اپنے دائرے میں محدود ہوتے چلے گئے،لیکن ان کے حملوں میں کمی آ گئی۔ دوسری جانب بلوچ مسلح گروہ ہیں،جو بلوچستان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے حملوں کی زد میں زیادہ تر پاک فوج کے جوان آتے ہیں۔ ان کا تصادم فوج سے بعض دفعہ براہِ راست ہوتا ہے اور بعض دفعہ بارودی سرنگیں بچھا کر کرتے ہیں۔ دونوں گروہ بعض دفعہ براہِ راست اور بعض دفعہ خفیہ وارداتیں کرتے ہیں۔ بلوچ گروہ کا نشانہ زیادہ تر ایف سی اور فوج کے جوان بنتے ہیں، پہلے کی نسبت اب ان میں بہت زیادہ کمی آ گئی ہے۔ ان حملوں میں رواں سال میں پولیس والے27کی تعداد میں نشانہ بنے، ان میں ڈی آئی جی حامد شکیل، ایس پی مبارک شاہ سمیت تین پولیس محافظ شامل تھے، جو 13جولائی کونشانہ بنے اور10جولائی کو ایس پی ساجد مومند چمن میں زد میں آئے اور جولائی کے مہینہ میں ڈی آئی جی آفس کے قریب دہشت گردی کا حملہ ہوا، اس حملے میں 15اہلکار مارے گئے، ماہِ رمضان میں جیل روڈ پر ڈی ایس پی کو مسجد سے نکلتے وقت نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی عالمی اور تحریک طالبان پاکستان قبول کرتی ہے۔
9نومبر کو ڈی آئی جی حامد شکیل کو گھر سے نکلتے وقت نشانہ بنایا گیا، ان کے ساتھ اے ایس آئی محمد رمضان اور ڈرائیور جلیل احمد مارے گئے، اس حملے میں چار گاڑیاں، دو موٹر سائیکلیں اور ایک رکشہ تباہ ہوا، ان کے علاوہ 9 افراد زخمی ہوئے۔ ڈی آئی جی حامد شکیل کی نمازِ جنازہ میں کمانڈر سدرن کمانڈ، گورنر بلوچستان، صوبائی وزراء اور اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ حامد شکیل30 جولائی1961ء کو خضدار میں پیدا ہوئے، ان کے والد فوج میں میجر تھے، صابر عباسی خضدار میں فوج میں تھے، حامد شکیل کی تعلیم گرائمر سکول، اسلامیہ کالج اور بلوچستان یونیوسٹی میں ہوئی، تعلیم سے فراغت کے بعد پولیس میں بطور ڈی ایس پی بھرتی ہوئے۔

2006ء میں ایس پی بنے اور2017ء میں ایس ایس پی کے عہدے پر فائز ہوئے، آخرمیں ڈی آئی جی آپریشن انوسٹی گیشن کوئٹہ تعینات ہوئے اور9 نومبر کو ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔اس المناک واقعہ کی مذمت تمام سیاسی پارٹیوں نے کی۔ اب حکومت نے اس واقعہ میں ملوث افراد کی نشاندہی پر ایک کروڑ کا انعام رکھا ہے۔ اِس قسم کی دہشت گردی کے واقعات میں کم لوگ ہی گرفتار ہو سکے ہیں۔پولیس پر حملوں میں مذہبی کالعدم تنظیمیں شامل ہیں، اس لئے کہ جو بھی گرفتار ہوتے ہیں، وہ پولیس کی تحویل میں ہوتے ہیں اور اس کے ردعمل میں وہ پولیس سے انتقام لیتے ہیں اور دہشت گردی کی زد میں پولیس کے اہلکار آ جاتے ہیں۔ افغانستان ان کی پناہ گاہ ہے، امریکہ، اسرائیل اور بھارت جب تک وہاں موجود ہیں، پاک افغان بارڈر مضطرب رہے گا۔


بلوچستان میں اخبارات کی مشکلات؟
بلوچستان میں اخبارات کی اہمیت صوبائی حکومت تشکیل دینے کے بعد ہوئی ہے،1972ء تک بلوچستان صوبائی درجہ حاصل کر چکا تھا، نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومت قائم ہوئی، مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو مشرق ٹرسٹ کا اخبار تھا ، حکومت کو ضرورت تھی اِس لئے کوئٹہ سے مشرق اخبار کا اجرا ہوا، اس کے بعد جنگ کی ابتداہوئی، ایک طویل عرصے کے بعد صوبے کے بعض صحافی حضرات نے اس طرف توجہ دی اور مزید اخبارات کا اجرا ہو گیا۔ انتخاب اور کوہستان، انگریزی میں بلوچستان ایکسپریس، آزادی اُردو کے ممتاز اخبارات تھے۔ آزادی اور انتخاب کے مدیر مالکان صدیق بلوچ اور انور ساجدی،جبکہ صدیق بلوچ پہلے ڈان کوئٹہ کے نمائندے تھے۔ 1972ء میں گورنر بلوچستان غوث بخش بزنجو کے پی آر او تعینات ہوئے،ان دونوں اخبارات نے بلوچ قوم پرست پارٹیوں کی حمایت کی تاکہ بلوچ حلقوں میں اپنا مقام بنا سکیں، ان کے بعد ایک بلوچ بیورو کریٹ نے اخبار نکالا۔اس کا نام آساپ تھا، اس نے ان دونوں اخبارات کو پیچھے چھوڑ دیا اور بلوچ قومیت کا پرچارک بن گیا۔ سابق ڈی سی، سردار اختر مینگل کی حکومت میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں سیکرٹری کے عہدے پر قائم ہوئے۔ آساپ ایک لحاظ سے آزاد بلوچستان کا پرچارک تھا، چند سال بعد ان پر نامعلوم لوگوں نے حملہ کیا، اس حملے میں وہ شدید زخمی ہو گئے۔ انہیں ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی پہنچایا گیا، جہاں ان کا علاج کیا گیا اور وہ موت سے واپس آ گئے۔ ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی، صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے پاکستان چھوڑ دیا، پھر ایک طویل عرصے کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد اپنے علاقے میں لوٹ گئے ان کی غیر حاضری میں آساپ نے دم توڑ دیا، اب اس کا صرف نام باقی ہے۔ ان تین اخبارات نے سب سے زیادہ بلوچ مزاحمت کاروں کو کوریج دی۔ یوں بلوچ مزاحمت کاروں کو ان اخبارات کے علاوہ باقی اخبارات بھی اہمیت دیتے رہے۔ اس کے ساتھ کالعدم مذہبی تنظیموں کا دباؤ بھی ان تمام اخبارات پر پڑ گیا اور ان سب کی خبریں لفظ بہ لفظ بغیر کسی ردوبدل کے شائع ہوتی رہیں۔ مذہی تنظیموں کے ارکان اخبارات میں جا کر اپنی مرضی کی سرخیاں نکالتے تھے اور ان سب کو نمایاں کوریج دی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ پرویز مشرف کے دور سے شروع ہوا اور جنرل راحیل شریف کے ضربِ عضب کے حکم کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔


پہلے کالعدم مذہبی تنظیموں کے بیانات بند ہوئے،اس کے بعد بلوچ مسلح تنظیموں کے بیانات روک دیئے گئے۔ انتخاب اور آزادی اخبار نے کچھ زیادہ آزادی کا مظاہرہ کیا تو گرفت میں آ گئے۔حکومت نے اشتہارات کا حربہ استعمال کیا کہ حکومت سے بھاری رقوم کے اشتہارات بھی حاصل کر رہے ہیں اور ریاست کے خلاف بیانات کو بھی اہمیت دے رہے ہیں، یوں وہ زد میں آ گئے۔ دوسری جانب بلوچستان کی مسلح تنظیمیں بھی اصرار کرتی تھیں کہ ان کے بیانات اور جلسوں کو مکمل کوریج دی جائے۔ یہ کام ان اخبارات کے علاوہ تمام اخبارات ان کے بیانات کو من و عن شائع کرتے رہے، اس کے خلاف حکومت نے قدم اٹھایا اور ان کے بیانات بند ہو گئے اس اقدام کو کوئی ایک سال ہو گیا تو اخبارات میں مسلح تنظیموں کے بیانات روک دیئے گئے تو کوئی خبر اخبارات کی زینت نہ بن سکی۔ انہوں نے تمام اخبارات کو دھمکی دی کہ اخبارات بلوچستان کے شہروں میں تقسیم نہیں ہوں گے، اگر ہوئے تو صحافی حضرات اور مالکان ذمہ دار ہوں گے اور ایجنٹ بھی اس کی زد میں ہوں گے۔24 اکتوبر کے بعد سے بلوچ علاقوں میں اخبارات کی ترسیل روک دی گئی، ابتدا میں تین دن تک تمام علاقوں میں ترسیل رکی ہوئی تھی، اس کے بعد ایف سی نے اخبار مارکیٹ میں اپنے جوان تعینات کر دیئے اور صدر مارکیٹ کھل گئی۔ سو کوئٹہ شہر اور بعض بلوچ علاقوں میں اخبارات تقسیم ہو رہے ہیں اور پشتون علاقوں کے تمام شہروں میں اخبارات تقسیم ہو رہے ہیں ، تمام پریس کلب کھلے ہوئے ہیں، اشتہارات کی بندش کی زد میں آزادی اور انتخاب آئے ہوئے ہیں، ان دونوں اخبارات نے اداریے لکھے ہیں اور احتجاج کیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کب تک اخبارات کی ترسیل بلوچ علاقوں میں بند رہتی ہے۔ اس بندش کے خلاف عوام کا ردعمل موجود ہے، اس لئے کہ وہ اخبارات کے مطالعے کے عادی ہو چکے ہیں۔ نیشنل پارٹی نے بھی اس رویے کی مخالفت کی ہے،جبکہ حکومت اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے کہ کالعدم تنظیموں کے بیانات شائع نہیں ہوں گے۔

مزید :

کالم -