کچھ ہوکر رہے گا

کچھ ہوکر رہے گا
کچھ ہوکر رہے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد میں جب لال مسجد میدان جنگ بنی تو درجنوں بیٹیوں اور بچوں بوڑھوں کے ساتھ فوج کے قیمتی افسران کی جانیں اس جنگ کا ایندھن بن گئی تھیں،یہ بھی مذاکرات میں ناکامی کے بعد جنرل پرویز مشرف کی ”سول حکومت “ کا خونی اقدام تھا ،لیکن ذرا غور کریں کیاتحریک لبیک اور لال مسجد کے عزائم ایک نظر آتے ہیں؟تحریک لبیک تو انتخابات میں شامل ہوکرسیاسی جمہوری جماعت کا حق حاصل کرچکی ہے لیکن حکومت نے دھاوا بول کر انہیں بھی لال مسجد والوں کے ساتھ لا کھڑا کیا ہے۔اُن پر ظلم ڈھایا گیا ،اب ان پربھی ظلم کا آغاز کیا گیا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے اگر کوئی مذہبی جماعت سیاسی جمہوری طور پرمیدان عمل میں آتی ہے تو کیا ایک عوامی اور سیاسی حکومت کو ایسا بہیمانہ تشدد کرنے کا حق حاصل ہے جبکہ مظاہرین نے اس دوران کسی قسم کی توڑ پھوڑ بھی نہ کی ہو........ یہ معاملہ معمولی نہیں انتہائی غیر معمولی ہے۔ لال مسجد کے مضمرات ابھی تک پورا ملک بھگت رہا ہے ۔تحریک لبیک کے ساتھ وابستہ مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کو بند گلی میں لاکر کھڑا کرنے کی کوششیں بھیانک نتائج کی صورت میں برآمد ہوں گی۔اور اسکے اسبا ب پیدا ہوچکے ہیں۔
اسلام آباد میں تحریک لبیک کے دھرنے کے خلاف جہاں سیاسی جماعتوں نے حکومتی اقدام کو آڑے ہاتھوں لیا ہے وہاں میاں نواز شریف نے بھی سخت الفاظ میں اپنی جماعت کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو امن سے مسئلہ حل کرنے پر زور دیا اور انہیں گولی چلانے سے پرہیز کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ آرمی چیف نے بھی وزریر اعظم کو تحمل اور امن سے معاملہ کو ہینڈل کرنے کا مشورہ دیاہے ۔ پنجاب سے ن لیگ کے حمائتی اراکین اسمبلی نے بھی تشدد کو مسئلہ کا حل قرار نہیں دیا جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ن لیگ کی سیاسی قیادت تحریک لبیک کے خلاف کسی قسم کے تشدد کو اپنی سیاسی موت سے تعبیر کرتے ہوئے ہر طرح کے غلط اقدامات اٹھانے سے منع کررہی ہے ۔لیکن لگتا ہے حکومت اس سے قبل ہی دھرنے والوں کوتنہا کرنے کا منصوبہ بنا چکی تھی۔
پاکستان میں دھرنے غیر معمولی طور پر اسلام آباد کا حصار کرتے رہے ہیں ،وہ دھرنے مہینوں پر دراز تھے لیکن انہیں بالاخر ہینڈل کرلیا گیا لیکن تحریک لبیک کا دھرنا پہلے دھرنوں کے بالکل برعکس تھا ۔ان کے سیاسی مقاصد نہیں تھے ۔ان کا مطالبہ ناجائز نہیں تھا اور انہیں پورے پاکستان سے مسلمان بھائی بہنوں کی حامیت حاصل تھی ۔یہی وجہ ہے کہ دھرنے کے خلاف تشدد کرنے سے پہلے ٹی چینلز،فیس بک ،ٹویٹر سمیت ہر ان ذرائع کو حکومت نے معطل کردیا جو دھرنےکے خلاف لئے جانے والے ایکشن کی کوریج کرسکتے اور عوام کو ابھارنے کا باعث بن سکتے تھے ۔لیکن حکومت کا ایساغیر جمہوری طرز عمل اپنانے کے باوجود عوام آگاہ ہے ۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے ،ایک جمہوری حکومت نے ہی آزادی اظہار کا گلا گھونٹ کر کالے قانون کا اطلاق کیا ہے جو اس بات کا ثبوت مہیا کرتا ہے کہ حکومت ڈر چکی ہے۔اسے ذرائع ابلاغکی طاقت کا اندازہ ہوچکا ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں قومی میڈیا نے تحریک لبیک کے دھرنے کی مساویانہ کوریج نہیں کی تھی تودھرنے والوں نے سوشل میڈیا پر لائیو کوریج چلا کر میڈیا کو بھی پیغام دے دیا تھا کہ وہ اپنا نقطعہ نظر اور احتجاج ان کی مدد کے بغیر بھی چلا سکتے ہیں ۔تحریک لبیک کا دھرنا منظم سوشل میڈیا سے کامیاب رہا ہے ۔اس حوالہ سے دیکھا جائے تو آنے والے وقت میں قومی میڈیا کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔خاص طور پر اُس میڈیا کو جس پر الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ ن لیگ اور تحریک انصاف سمیت جن جن جماعتوں نے میڈیا سے مک مکا کیا انکی کوریج کا بھر پور انتظام ہوتا رہا لیکن تحریک لبیک قومی میڈیا کے ان سوداگروں کو چونکہ خرید نہیں سکتی تھی لہذا اس نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرکے اپنے نصب العین کو اجاگر کردیا ۔
دھرنے پر تشدد کے بعد بالخصوص پنجاب میں شدید ردعمل سامنے آچکا ہے۔شہر شہر احتجاج اور گرفتاریاں اور مزاحمتیں ہورہی ہیں۔ سندھ ،خیبر پختونخوا ،کشمیر ،بلوچستان میں بھی تحریک لبیک کے حق میں احتجاج کی لہر اٹھی ہے جس پر حکومت فوج اور رینجر کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہوچکی ہے۔اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فوج کوامن کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آئینی طور پر بلایا جاسکتا ہے لیکن سوال اٹھتا ہے کہ فوج سے پہلے جن سلامتی اور امن کے محافظ اداروں کویہ کام انجام دینا تھا، انہوں نے لاہور سے اسلام آباد تک تحریک لبیک کے قافلوں کو کیوں آنے دیا۔اس لئے کہ حکومت نے اس وقت تسلیم کرلیا تھا کہ یہ ان کا جمہوری حق ہے کہ وہ احتجاج کرسکتے ہیں ؟ اگر یہ جمہوری حق تھا تو پھر یک طرفہ آپریشن اور تشدد کیوں کیا گیا ۔اب تک کی روپورٹس کے مطابق تحریک لبیک کے کارکنوں جن میں مشائخ اور خانقاہوں کے سجادگان بھی شامل ہیں اپنے مریدوں کے ساتھ اسلام آباد سمیت پورے ملک میں بھرپور مزاحمت کا اعلان کرچکے اور عملاً کئی مذہبی تنظمیں اس تحریک میں شامل ہوچکی ہیں۔ اگر تشدد و قتال کی پالیسی مزید تیز ہوتی ہے تو کیا حکومت سیاسی مذہبی جماعتوں کو اس تحریک کا حصہ بننے سے روک سکے گی؟ سیاسی مذہبی جماعتوں نے تو اپنا نقطہ نظر واضع کردیا ہے کہ حکومت کا یہ ناجائز اقدام بڑی مذہبی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔مذاکرات اور ڈیڈ لائن بڑھائی جاسکتی تھی،یہ دھرنا تھا لال مسجد نہیں تھی کہ جسے حکومت نے اپنی خودسری سے لال مسجد کے سانحہ میں بدل دیا ہے۔ہلاکتیں ہوچکی ہیں، سینکڑوں لوگ مجروح اور ہزاروں قید ہیں اور یہ علامت نظام مصطفٰی کی تحریک کا نمونہ نظر آنے لگی ہے۔ ایسی صورتحال سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگلے انتخابات سے پہلے ملک میں کچھ ہوکر رہے گا ۔

مزید :

بلاگ -