تشد د کیس، وزیراعلٰی کا نوٹس، پرانے مقدمے میں نئی دفعات شامل کرنیکا فیصلہ 

      تشد د کیس، وزیراعلٰی کا نوٹس، پرانے مقدمے میں نئی دفعات شامل کرنیکا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملتان (سپیشل رپورٹر‘خبر نگار خصوصی)ملتان میں نجی کالج کے پروفیسر اعجاز پر چند اوباش قسم کے نوجوانوں کی جانب سے بہمانہ تشدد کی ویڈیو گزشتہ روز 
(بقیہ نمبر27صفحہ12پر)


سوشل میڈیا پروائرل ہوئی تو اس واقعہ نے ہرذی شعور انسان کو ہلا کررکھ دیا اور انسانیت شرما کررہ گئی ویڈیو میں باآسانی دیکھا جاسکتاہے کہ ہمارے معاشرے کے نوجوان قوم کے معمارکو بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔اس ویڈیوکے وائرل ہونے پرروزنامہ پاکستان نے سارے واقعہ کے اصل حقائق جاننے کیلئے انویسٹی گیشن کی تو یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ مذکورہ واقعہ یکم نومبر 2019ء کو پیش آیا جب سٹی کالج آف سائنس اینڈ کامرس کے پروفیسر محمد اعجاز جوکہ مذکورہ کالج میں اکنامکس کا مضمون پڑھاتے ہیں کو یکم نومبر بروزجمعہ کو ایک موبائل نمبر سے ایک طالبہ کی کال موصول ہوئی کہ میرا نام زبیرہ فاروق ہے اور مجھے اکنامکس کے مضمون میں مشکل پیش آرہی ہے میں آپ سے ٹیوشن لینا چاہتی ہوں جس پر پروفیسر صاحب نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے تاہم مذکورہ طالبہ نے انھیں دن تقریباًساڑھے 12بجے دوبارہ فون کیا کہ اگر میں آپ کی بہن ہوتی تو کیا آپ مجھے پھر بھی پڑھانے سے انکار کردیتے جس پر پروفیسر اعجاز کے مطابق انھوں نے مذکورہ طالبہ کو ٹیوشن پڑھانے کی حامی بھر لی اور اسی روز طالبہ کے بتائے ہوئے پتہ پر دن سوا تین بجے ملتان کے علاقہ بخاری کالونی پہنچے تھے۔پروفیسر اعجاز نے بخاری کالونی پہنچ کر مذکورہ طالبہ کو کال کی تو انھوں نے کہا کہ سر آپ وہیں رکیں میرا بھائی آپ کو لینے آرہا ہے پروفیسرکے مطابق کچھ ہی دیر میں موٹر سائیکل پر سوار تین لڑکے وہاں آگئے اور مجھ سے میری شناخت پوچھی میرے تعارف پر ان میں سے ایک نوجوان نے اپنا نام حمزہ خان بتایا اور پروفیسر پر تشدد کرنا شروع کردیا اس دوران انھوں نے بتایا کہ حمزہ خان جو کہ سٹی کالج میں ہی پڑھتاہے اور ایک طلباء تنظیم کا عہدے دار بھی ہے کو پروفیسرنے کالج کے فنگشن میں لڑکیوں سے سامنے بیٹھنے پر منع کرتے ہوئے ہٹا دیا تھا جس کا اسے رنج تھا اور اس نے اسی رنجش کی بنیاد پر ایک فیک کال کے ذریعے پروفیسر اعجازکو اپنے علاقے بخاری کالونی میں بلا کراپنے ساتھیوں سمیت بدترین تشدد کا نشانہ بنا ڈالا اور اس واقعہ کی ویڈیو بھی بنا لی اور دھمکی دی کہ اگر قانونی کاروائی کی تو وہ ویڈیووائرل کردیں گے۔لیکن تشدد کا نشانہ بننے والے پروفیسر اسی روز ان طلباء کی اس دھمکی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے متعلقہ تھانہ کینٹ گئے اور ایس ایچ او سعید سیال کو ساری روداد سنائی جنھوں نے پروفیسر اعجاز کے بیان پر مقدمہ نمبر 995\19درج کرتے ہوئے پروفیسر کو میڈیکل لیگل سرٹفیکٹ کے حصول کیلئے نشتر ہسپتال کے شعبہ فرنزک بھجوا دیا پولیس تھانہ کینٹ نے واقعہ کے مرکزی ملزم حمزہ خان کو پروفیسر کی میڈیکل رپورٹ آنے پر 7نومبر کو گرفتار کرلیا تاہم مذکورہ طالبعلم کی گرفتاری کے بعد اس کے اہلخانہ صلح کیلئے پروفیسر اعجاز کے پاس پہنچ گئے اور پروفیسر کو صلح پر مجبور کردیا جس کے پیش نظر پولیس نے جب مرکزی ملزم حمزہ کو ریمانڈ کیلئے 8نومبر کو عدالت میں پیش کیا تو پروفیسر صاحب کی جانب سے صلح نامہ کا بیان حلفی جمع کرادیا گیا جس پر عدالت کی ہدایت پر پولیس نے مرکزی ملزم حمزہ خان کو رہا کردیا اور کیس کا نامکمل چالان 11نومبر 2019ء کو پرایسکیوشن پرانچ کو بھجوا دیا۔مذکورہ وقوعہ کے 12روز بعد ملزمان کی جانب سے مذکورہ واقع کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی جسے دیکھ کر انسانیت بھی شرما گئی وزیر اعلی پنجاب کے نوٹس لینے پر ملتان پولیس حرکت میں آچکی ہے اورانھوں مقدمہ میں ملوث دیگر ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارنا شروع کردیئے ہیں اس حوالے سے ایس ایچ او کینٹ سعید سیال نے ڈیلی پاکستان کو اپنے مؤقف میں بتایا ہے کہ پروفیسر  کا صلح نامہ مرکزی ملزم کی حد تک تھا تاہم اس واقعہ میں ملوث دیگر ملزمان کی ویڈیو کے زریعے شناخت کی جارہی ہے جنھیں جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔  تھانہ کینٹ کے علاقے  بخاری کالونی   میں ٹیچر پر اوباش  لڑکوں کے تشدد کرنے کاکے معاملے پر،وزیر اعلی پنجاب کے نوٹس لینے کے بعد پولیس نے کیس کی نئے سرے سے تفتیش شروع کردی۔۔اور پرانے  مقدمہ  میں نئی دفعات  کو بھی شامل کیا جارہا  ہے۔ جبکہ تشدد کرنے والے لڑکوں کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیلدے دی۔جو ملزمان کو گرفتار کرنے کیلئے چھاپے مار رہی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تھانہ کینٹ میں ٹیچر اعجاز پر تشدد کے واقعہ کے درج کیس میں مزید دفعات لگانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔دوسری جانب تشدد کا نشانہ بننے والے ٹیچر اعجاز بھی منظر عام پر آگئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کے نوٹس لینے پر شکر گزار ہوں۔طالبعلم سمجھ کربچوں کو معاف کر دیا گیا تھا۔ مگر انہوں نے جان بوجھ کر  تشدد کی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا یے۔اور دھمکیاں دیتے رہے تھے۔  جس  کے  باعث اس  کا  تمام  خاندان  سوگواری   کیفیت میں مبتلا ہیں۔اورسخت ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ذرائع کے مطابق پولیس کا کہنا ہے۔پہلے بھی ملزمان کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جارہی تھی۔مگر فریقین میں باہمی راضی نامہ کے باعث معاملہ ختم کردیا گیا تھا۔