ایک اور سنگ میل عبور

 ایک اور سنگ میل عبور
 ایک اور سنگ میل عبور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حکومت انتخابی اصلاحات کا نیا بل قومی اسمبلی سے منظور کروانے میں بلا آخر کامیاب ہو گئی حکومت کے مطابق نیا انتخابی نظام مکمل طور پر انتخابی دھاندلی کے خاتمے کی نوید ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا انتخابی اصلاحات بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 221 ارکانِ اسمبلی نے ووٹ دیا جبکہ اس کی مخالفت میں 203 ووٹ آئے، جس کے بعد بل کی شق وار منظوری دی گئی۔ اس بل کے تحت 2017ء کے الیکشن ایکٹ میں دو ترامیم کی گئیں جس کے بعد ووٹنگ کے لیے الیکٹرانک مشینوں کا استعمال کیا جائے  گا ان اصلاحات کا فائدہ اووسیز پاکستانیوں تک حق رائے دہی کی صورت میں پہنچے گا جو کہ میری نظر میں بھی بحیثیت اوورسیز پاکستانی بہت خوش آئند ہے اس کے بعد یقینا اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملکی سیاست میں حق رائے دہی کے ذریعے عملی طور پر شامل ہو سکے گی  ویسے بھی اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ووٹ قوم کی امانت ہے اس لیے اس کو اہمیت دی جانی چاہئیے تھی کہ وطن عزیز کے شہری خواہ کسی بھی خطہ زمین پر موجود  ہوں اْن کو حق رائے دہی کے ذریعے ملکی سیاست میں حصہ لینے کا پورا حق حاصل ہونا چاہیے،جو ایک حقیقی جمہوریت کو پروان  چڑھانے کی طرف عملی قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔


گذشتہ ستر سال سے بیرون ملک پاکستانیوں کو ملکی سیاست سے کافی حد تک الگ تھلگ رکھا گیا مگر اب صورتحال بہتری کی طرف جانے کے امکانات روشن ہیں، جس میں وزیراعظم پاکستان کی ذاتی دلچسپی کا بہت بڑا عمل دخل ہے کہ جنہوں نے اس بل کو عملی جامہ پہنا کر پوری قوم کے لیے ایک سنگ میل عبور کیا اور ملک کو نئی جہد بخشی جو انتہائی قابل ستائش ہے۔اب اوورسیز شہریوں کو ووٹنگ کا حق دینا اور الیکٹرونک سسٹم استعمال کرنا دو الگ معاملات ہیں کیونکہ اوورسیز شہریوں کو ووٹ کا حق دینا ضروری ہے جو کسی بھی طریق پر دیا جا سکتا ہے کہ جیسے برطانیہ میں اوورسیز برطانوی شہریوں کے لیے پوسٹل ووٹ کا حق موجود ہے لیکن وہ بھی دھند و دھاندلی سے پاک ہو نا چاہیے۔


اپوزیشن کی طرف سے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا ایادہ کیا گیا ہے قائدِ حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں مشترکہ اجلاس کو موخر کر کے انتخابی اصلاحات پر مکمل مشاورت کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر حکومت الیکٹرانک ووٹنگ کے قانون کے تحت آنے والے الیکشن کروائے گی  تو وہ آج سے ہی آئندہ الیکشن کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں ان کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ووٹنگ کے معاملے میں یہ نہیں ہو سکتا کہ ووٹ پیرس میں ڈالا جائے اور اس کا اثر ملتان کے کسی حلقے کے نتیجے پر پڑے۔ ان خیالات کا اظہار اپوزیشن کا حق ہے مگر اس پر اعتراض کی وجہ میری سمجھ سے تو  باہر ہے  بعض حلقوں میں اسے عجلت کا فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے جو کہ ایک اہم دلیل ہے مگر اب نہیں تو کبھی نہیں کیونکہ کبھی کبھی کچھ فیصلے جلد کرنے سے ملکوں و قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے حالانکہ ہم ملکی تاریخ کی ستر سالہ تاخیر کو اب بھی جلدی قرار دے رہے ہیں جو کافی تعجب کی بات ہے مجھے یقین ہے کہ اس فیصلے سے جمہوری اقدار کو فروغ ملے گا۔ 
اس کی سب سے بڑی مثال ہمسایہ ملک ایران میں موجود ہے جہاں ایرانی قوم کو بیرون ملک رہتے ہوئے ایران کی سیاست میں ووٹنگ کے ذریعے حصہ ڈالنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اسی ضمن میں امریکہ اور برطانیہ سمت بے شمار ممالک اپنے شہریوں کو یہ سہولت اپنے سفارت خانے کے ذریعے فراہم کرتے ہیں برطانیہ تو اپنی روایات کو اہمیت دیتے ہوئے بیرون ملک رہنے والے برطانوی شہریوں کو ووٹ کا حق  دیتا ہے جس کا ذکر میں نے پہلے بھی کیا ہے۔


اب تک115 ممالک نے بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو ووٹ کا حق دیا ہے جن میں یورپ کے تقریباً 36 ممالک سمیت21 افریقن اور15ایشائی ممالک شامل ہے اس کے علاوہ  دنیا میں ایک بڑی تعداد میں ممالک الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم بھی استعمال کرتے ہیں اور اس جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے ملکوں میں انتخابی اصلاحات کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں  جن میں بیلجیم، برازیل، ایسٹونیا، فرانس، جرمنی، انڈیا، اٹلی، نمیبیا، ہالینڈ، ناروے، سوزرلینڈ، فن لینڈ، ملائیشیا وغیرہ شامل ہیں ان میں الیکٹرونک ووٹنگ کا نظام کامیابی سے چل رہا ہے مگر ان میں سے چند ممالک اس نظام پر اندرونی طور تنقید کا شکار ہیں اور اس کو روائتی انداز کی طرف واپس لے جا چکے ہیں یا اس کی تیاری میں پیش پیش ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے  بہرکیف بحیثیت مجموعی ابھی تک الیکٹرونک ووٹنگ کے ان ممالک کے سیاسی نظام پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔


لیکن حکومت اپوزیشن کی رائے کے مطابق معاملے کو باہمی رضامندی اور خوش اسلوبی سے بھی نمٹا سکتی تھی کیونکہ ملک پھر سے افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا، حال ہی میں  پی ڈی ایم کا سترہ نومبر کی قانون سازی کے خلاف مارچ میں لانگ مارچ کا اعلان سامنے آیا ہے، جس میں پہیہ جام ہڑتال اور دیگر احتجاجی ہتھکنڈے استعمال کیے جا سکتے ہیں جو کہ اپوزیشن کی طرف سے معمول کی بات معلوم ہو رہی ہے کیونکہ اپوزیشن اگر ایک لانگ مارچ سے اپنے مطالبات کی منظوری پر یقین رکھتی ہے تو شاید ایسا ممکن نہیں کیونکہ اس کے لیے ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے جس کے لیے شاید ابھی اپوزیشن تیار نہیں جس کی بے شمار وجوہات ہے لیکن اس سارے عمل میں حکومت کی پوزیشن زیادہ مستحکم محسوس ہو رہی ہے،کیونکہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی کثیر تعداد اس معاملے میں حکومت کے موقف کو سپورٹ کر رہی ہے۔ 
اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن مہنگائی ایجنڈے کو ایک طرف رکھ کر نئے انتخابی قانون پر عوامی ہمدردی کیسے حاصل کرتی ہے اور حکومت ان مشکلات سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہے مارچ کے سیاسی ٹی ٹونٹی میں کون سا دھڑا کامیاب ہوتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -