نوزائیدہ یونیورسٹی آف نارووال تنازعات کی زد میں کیوں؟
18 لاکھ آبادی والے پاکستان کے شمال مشرق میں دریائے راوی کے کنارے آباد ضلع نارووال کو "علم و امن کی بستی" کہا جاتا ہے۔۔۔ اس کے تینوں اطراف میں بھارت کی سرحدیں ہیں.۔۔ جنوب میں بھارت کا شہر امرتسر جو کرتار کے آگے سے شروع ہوجاتا ہے، مشرق میں بھارت کا ضلع گورداس پور ہے جو اکثریت مسلم آبادی والا ضلع ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر پاکستان کا حصہ بنتا تھا لیکن سوچی سمجھی سازش کے تحت بھارت کے حوالے کرکے بھارت کو کشمیر میں جانے کا زمینی راستہ فراہم کیا گیا جبکہ شمال کی طرف مقبوضہ کشمیر کی سرحد ہے، جو نارووال کی تحصیل شکرگڑھ سے شروع ہوجاتی ہے.۔۔ شکرگڑھ کو " باب کشمیر" بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں سے کشمیر کا "پہاڑی سلسلہ" بھی شروع ہوجاتا ہے.
نارووال وہ ضلع ہے جہاں سکول جانے والے بچوں کی تعداد پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے.۔۔یہاں پر پہلے کوئی سرکاری یونیورسٹی نہیں تھی. لوگ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دور دراز کے علاقوں میں جاتے تھے جو بچیوں اور غریب بچوں کے لیے انتہائی مشکل کام تھا۔۔۔بہت سارے لوگ اپنی صلاحیت کو دفن کردیتے تھے کیوں کہ نارووال میں اعلی تعلیم کا کوئی بندوبست موجود نہیں تھا.۔۔۔نارووال کے طلباء پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں میں جا کر اپنی علم کی پیاس بجھایا کرتے تھے. 2013ء سے 2018ءکے دور حکومت میں پروفیسر احسن اقبال نے نارووال میں تین سرکاری یونیورسٹیاں بنوا دیں.۔۔۔ یونیورسٹی آف نارووال، یونیورسٹی خان بہادر مشتاق خان اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نارووال کیمپس کے نام سے بنائی جانے والی تینوں یونیورسٹیوں میں نارووال کے طلباء و طالبات کے علاوہ پاکستان کے دوسرے علاقوں سے بھی لوگ یہاں پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں جو کہ نارووال کے لیے اعزاز کی بات ہے. احسن اقبال سے شدید ترین سیاسی اختلافات رکھنے والے بھی اس کارنامہ پر داد دیے بغیر نہیں رہ پاتے. یقینا یہ ایک ایسا کام ہے جس کو تاریخ ساز کارنامہ کہا جاسکتا ہے. ۔۔
دور دراز علاقوں میں جا کر پڑھنے والے طلباء اب جب دیکھتے ہیں کہ ان علاقوں کے بچے ہمارے پاس پڑھنے کے لیے آرہے ہیں تو سینہ چوڑا اور سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے. ڈویژن گوجرانوالہ کے سات اضلاع میں سے یہ اعزاز واحد نارووال کو حاصل ہے کہ یہاں تین سرکاری یونیورسٹیاں موجود ہیں.۔۔۔یونیورسٹی آف نارووال کی شاندار وسیع و عریض بلڈنگ دیکھیں تو دل خوش ہوجاتا ہے. یہ یونیورسٹی 100 ایکڑ کے وسیع و عریض رقبے پر محیط ہے.۔۔کچھ ماہ قبل معمولی بارش کی وجہ سے طلباء و طالبات یونیورسٹی کے اندر ہاتھوں میں کتابیں تھامنے کی بجائے جوتے تھامے، پائنچے چڑھائے، گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ سے گزرتے دیکھا تو افسوس ہوا کہ سڑک سے لے کر بلڈنگ تک جانے والا چند سو گز کا راستہ بھی تین سال گزرنے تک نا بنایا جاسکا تھا جو کہ اس کی اشد ترین ضرورت تھا۔۔۔اس کے بعد سوشل میڈیا پر خاصا شور تھا اور عوام نے یوں اپنے بچوں کو کیچڑ میں لتھرے دیکھا تو غم و غصہ کا اظہار بھی کیا جس کا فورا نوٹس لے لیا گیا اور غالبا اب وہ راستہ بن چکا ہے.۔۔
آج مسلسل چوتھے روز اساتذہ ہڑتال پر ہیں اور ان کی ہڑتال کی وجہ سے پچھلے چار دنوں سے یونیورسٹی کے اندر نظام تعلیم مفلوج ہوا پڑا ہے.۔۔گزشتہ دنوں اساتذہ کے حقوق کے لیے طلباء و طالبات کو پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے احتجاج کرتے دیکھا گیا۔۔. یونیورسٹی انتظامیہ کے موقف کے مطابق اساتذہ نے طلباء و طالبات کو بطور ڈھال استعمال کیا ہے اور وہ اپنے آپ کو مستقل کروانے کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں.۔۔ یونیورسٹی اساتذہ کا کہنا ہے کہ اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلباء و طالبات بھی یونیورسٹی کی پالیسیوں پر سراپا احتجاج ہیں اور وہ بغیر کسی دباؤ کے احتجاجی تحریک کا حصہ ہیں.۔۔اساتذہ کا موقف ہے کہ وہ لانگ ٹرم کنٹریکٹ پر تعینات ہوئے تھے جبکہ چھ سال گزرنے کے باوجود انہیں (پنجاب ریگولرائزیشن آف سروسز ایکٹ 2018ء) کے تحت ابھی تک ریگولر نہیں کیا گیا.۔۔
ان کا موقف ہے کہ ان کو ریگولر کرنے کی بجائے یونیورسٹی انتظامیہ نئے لوگوں کو بھرتی کررہی ہے. ۔۔وائس چانسلر ڈاکٹر طارق محمود صاحب سے میری صبح تقریبا گھنٹہ بھر بات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والے اساتذہ کا یہ کیس گورنمنٹ آف پنجاب کے خلاف ہے اور یہ ہائیکورٹ میں بھی اس کیس کو لے کر جا چکے ہیں لیکن وہاں ان کا موقف تسلیم نہیں کیا جا رہا. ۔۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے ایم فل کی کلاسز کو دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے جو ایچ ای سی کی طرف سے ہدایات ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ میں پی ایچ ڈی اساتذہ کو تعینات کروں، ان میں سے جو اساتذہ پی ایچ ڈی نہیں ہیں ان کو نئی آسامیوں پر نہیں لگایا جاسکتا.۔اساتذہ کی تحریک میں ان کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ پر کرپشن، بے ضابطگیاں، من پسند افراد کو نوازنے، مرضی کی بھرتیاں اور اس قسم کے لاتعداد الزامات کی بھرمار ہے جس کو یونیورسٹی انتظامیہ بالکل من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک مسئلہ صرف ان کے مستقل بھرتی ہونے والے مطالبے کا ہے جس کے لیے یہ مختلف طریقے استعمال کررہے ہیں.
عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا؟؟؟ اساتذہ کے انتظامیہ پر الزامات حقیقت ہیں یا محض افسانہ؟؟؟ مسئلہ صرف اپنی نوکریوں کو مستقل کروانا ہے یا واقعی یونیورسٹی کے اندر بے ضابطگیوں کا رونا ہے۔۔۔ یہ وہ باتیں ہیں جو زبان زد عام ہیں.۔۔پنجاب حکومت کو چاہئے کہ اس معاملے کا فی الفور نوٹس لے اور انتظامیہ و اساتذہ کے معاملات حل کرنے کی کوشش کرے.۔۔۔ان کی لڑائی کی وجہ سے یونیورسٹی آف نارووال کا نام خراب ہورہا ہے.۔۔ لوگ اس سے بدظن ہورہے ہیں. آج کل لوگ اس طرح کے ہنگاموں سے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اگر یونیورسٹی کو اس کی آماجگاہ بنا دیا گیا تو لوگ اپنے بچوں کو یہاں بھیجنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچیں گے.
پنجاب حکومت کو چاہیے کہ فی الفور اس معاملے کا نوٹس لے کر بروقت شفاف تحقیقات کا آغاز کرے.۔۔دونوں فریقین کو سننے کے بعد حقائق تک پہنچے اور اس میں جو بھی قصور وار ہے اس کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔۔. اگر یونیورسٹی میں مالی و انتظامی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں تو اس کا فائدہ اٹھانے والوں کو سامنے لایا جائے اور ان سے اس کا ازالہ کیا جائے اور اگر یہ محض الزامات ہیں تو اس کو لگانے والوں سے باز پرس کی جائے.
اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ نارروال کی سیاست کا بھی اس میں عمل دخل ہے تو خدارا اگر اس میں کوئی حقیقت ہے تو ایسے کرداروں کو بھی عوام کے سامنے ننگا کیا جائے جو دعوے تو مسیحائی کے کرتے ہیں مگر نوجوان نسل کا مستقبل جو درحقیقت پاکستان کا مستقبل ہے اس کو داؤ پر لگا رہے ہیں.نارووال کی عوام اس جھگڑے سے پریشان ہے خدارا حکومت پنجاب اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے تاکہ یونیورسٹی کا وقار برقرار رہ سکے..
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔