ایران میں احتجاج، پس پردہ حقائق!
ایران کے اسلامی انقلاب کے قیام میں رضا شاہ پہلوی کے خلاف عوامی احتجاج میں یہاں کی سوشلسٹ جماعت ”مجاہدین خلق“ نے بھی حصہ لیا،اس جماعت کا خیال تھا کہ انقلاب اگر علماء کی قیادت میں کامیاب ہوبھی گیا تو مولوی اس اہل نہیں کہ امور مملکت چلاسکیں لہٰذا انقلاب کی کامیابی کی صورت میں قائم ہونے والی حکومت ان کی سوشلسٹ پارٹی ہی کی ہوگی لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ عالم ربانی آیت اللہ روح اللہ خمینی جنہوں نے کئی سالوں سے پلاننگ کر کے امور مملکت کے لیے طاقتوراور تربیت یافتہ علماء کا کیڈر تیار کر لیا تھا۔لہٰذاتحریک انقلاب اسلامی کی کامیانی کے بعد جب ”مجاہدین خلق“ کو اقتدار میں حصہ نہ ملا تو انہوں نے ملک میں افراتفری پھیلانے کے لیے اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا،اس مقصد کے لئے مذہب سے بیزار نوجوانوں کو استعمال کیا گیا حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایران کی سرکردہ قیادت وزیر اعظم ہاوس میں ہونے والے بریف کیس بم دھماکے میں شہید کر دی گئی، اس سانحہ میں وزیر اعظم محمد جوادباہنر،صدر مملکت محمد علی رجائی اورایک دوسرے واقعہ میں چیف جسٹس آیت اللہ محمد بہشتی جیسے اہم لوگ بھی شہید ہوگئے۔ راقم کو وہ وقت یاد ہے کہ انقلابی لوگ اور اسلام پسند عوام سڑکوں پر نکل آئے اور گریہ و زاری کرتے ہوئے امام خمینی کی رہائش گاہ پرپہنچے۔وہ نعرے لگا رہے تھے کہ:ہم کہاں جائیں ”باہنر،رجائی اور بہشتی اس دنیا میں نہیں رہے“۔ امام خمینی اپنی رہائش گاہ سے باہر نکلے۔ غم زدہ لوگوں سے مخاطب ہوئے، انہیں تعزیت پیش کی اور لرزتے ہاتھوں کو اٹھا کر کہا:”رجائی، باہنر، بہشتی نیستند، خدا ہستند“۔پھر امام خمینی نے فوری انتخابات کروانے کا حکم دے دیا۔
ایرانی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بین الاقوامی بڑی طاقتوں اور خطے کی کچھ مسلمان قوتوں نے بھی ایران عراق جنگ شروع کروا دی، جس میں ایران کا بہت جانی اور مالی نقصان ہوا لیکن اسلام کی فدائی ایرانی قوم کے مثالی جذبے کو کم نہ کیا جاسکا۔۔۔نعرہ لگا،’جنگ جنگ تا پیروزی‘۔۔یعنی ’جنگ فتح تک جاری رہے گی‘۔پھر جب ایران نے پورے عزم کے ساتھ جنگ لڑی اور استعماری قوتوں کامقابلہ کیا۔ تواسی دوران امت مسلمہ کے لیڈران نے جنگ بندی کی غرض سے امام خمینی سے ملاقاتیں کی، جن میں جنرل ضیا الحق بھی شامل تھے اور جنگ بندی کی استدعا کی۔ اس کے جواب میں رہبر مسلمین نے ان رہنماوں سے سوال کیا، کیاآپ ہمارے ساتھ ہیں یا دوسری قوتوں کے ساتھ؟آپ ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ اسی دوران سعودی عرب نے یہاں تک بھی پیغام بھیجا کہ جنگی نقصانات کے ازالے کے لیے25ارب ڈالرز ایران کو دے گا۔ لیکن بات آگے نہ چل سکی۔ جنگ کے دوران بھی ایران کے اندر حکومت مخالف گروہوں کو پیسہ دے کر ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی گئی اوراب ہو رہی ہے۔لیکن تمام خطرناک ہتھکنڈوں کے باوجود اسلامی حکومت آگے بڑھ رہی ہے اور ترقی بھی کررہی ہے۔حال ہی میں ایران کی طرف سے روس کو جدید ڈرون طیاروں کی فروخت کرنے کی خبر نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔
ایران میں آئین کے مطابق تسلسل کے ساتھ باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔عوامی نمائندے اپنی مدت اقتدار پوری کرنے کے بعد عوام سے ووٹ مانگتے ہیں۔اس سلسلے میں بھی کسی قسم کی رکاوٹ کبھی پیدا نہیں ہوئی۔اور جنگ کے دوران بھی انتخابات کروائے گئے۔ اسی طرح اسلامی حکومت نے ابوالحسن بنی صدر کو معتدل آدمی سمجھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کاصدر بنا یا،وہ بھی امریکی ایجنٹ نکلا،جس کا علم ولی فقیہہ اور اعلیٰ ایرانی حکام کو ہوا تو اپنی جان بچاتے ہوئے ملک سے فرار ہوگیا۔
پھر انتخابات ہوئے تو صدارتی منصب پر سید علی خامنہ ای کو چن لیا گیا۔جو کہ جنگ کے دوران فوج کی وردی پہن کر اگلے مورچوں تک لڑائی کا تجربہ رکھتے تھے اور آج بھی ان کی زندگی کو خطرات سے نمٹنے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔جس کا ثبوت جنگ کے دوران مفلوج ہونے والا ان کا ہاتھ ہے۔یہ ان کی جواں مردی، ہمت اور اسلام پر جان نثاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ان دنوں ایران میں بدامنی ہے، حکومت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔اس بدامنی نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے،چاہے ایران کی مخالف ہویا حمایتی۔ ایران کی اپر کلاس جو کہ کبھی بھی انقلاب اسلامی کی حمایتی نہیں رہی۔ان کی آزاد خیال لڑکیاں اسلام اور اسلامی جمہوریہ کی قیادت کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ اور اس میں بے مقصد قسم کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک لڑکی ’مہسہ امینی‘ کو حجاب کی خلاف ورزی پرتنبیہ کی گئی تو اس نے شدید ردعمل دیا۔جس پر اسلامی تہذیب کو برقرار رکھنے والی اخلاقی پولیس نے اسے کونسلنگ سنٹر پہنچا دیا تاکہ اسلامی اقدار کی پابندی کے حوالے سے اس کو سمجھایا جاسکے۔ میڈیا کے مطابق مہسہ امینی کو دل کا دورہ پڑا،اسے ہسپتال لے جایا گیا مگرجانبرنہ ہو سکی۔پھر اس کی موت کو ایشو بنا کر بین الاقومی میڈیا، امریکی،برطانوی، سعودی اور یورپی ممالک کے ٹی وی چینلز لڑکی کی موت کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔اور اسلامی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو پیش کیا جارہا ہے۔
میں حیران ہوں کہ اگر مسئلہ حجاب کا تھا تو حل ہوجانا چاہیے تھا۔ ایران کے اندر 90 فیصد خواتین اپنے بال کٹوا تی اور ترشواتی ہیں لیکن صرف گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر، شرعی پردے کے ساتھ۔ لیکن یہ احتجاج کیسا ہے جس میں اللہ کے نام لکھے ایرانی پرچم کی توہین کی جا رہی ہے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی توہین کی جا رہی ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دنگا فساد مہسہ امینی کی موت کی وجہ سے نہیں ہورہا بلکہ مختلف ممالک ایران کی اسلامی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کے لئے سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔جبکہ کچھ علاقوں سے مظاہرین کواسلحہ بھی مہیا کیا جا رہا ہے۔
میں اس مسئلے کی حساسیت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ دنوں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈبھی ایران کے خلاف احتجاج میں شامل تھے۔ اسی طرح اسرائیلی حکمران، وائٹ ہاؤس میں اپنے امریکی ہم منصب سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں ایران کے خلاف مزید وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے،جو کچھ کر سکتے ہیں،اس پر جو بیچ لگایا تھا،وہ اب زمین سے اوپر آگیا ہے۔ ہمیں حکومت کی تبدیلی کے لئے اکٹھے ہو کر آگے قدم بڑھانا چاہیے۔اسی طرح سعودی عرب بھی انتشار پھیلانے والے گروہ کو سپورٹ کر رہا ہے جس پر ایرانی صدرسید ابراہیم رئیسی نے سعودی عرب کوتنبیہ کی ہے کہ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت ایران کی بڑھتی ہوئی جدید اسلحہ کی پیداوار، جدیدڈرون اور میزائل ہیں، جس نے بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے۔یوکرین کی جنگ میں ایران روس کو میزائل اور ڈرون فراہم کر رہا ہے۔ اور وہ اتنے جدید ہیں کہ اس صلاحیت پر امریکہ، برطانیہ اور یوکرین میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں فرانس جو یوکرین کو پہلے سے جاری اسلحہ کی سپلائی کے ساتھ ٹینک اور سرمایہ کی فراہمی بھی زیادہ کر دی ہے۔
انہی حالات کے ساتھ بین الاقوامی سطح پراندرونی مظاہروں کو روکنے کی وجہ سے ایران کو داعش جیسی خوفناک دہشت گردگروہ مذہبی قوت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔اور جواز پیش کررہے ہیں کہ ان واقعات میں ایرانی فورس کے استعمال کی وجہ سے سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اور ہزاروں جیل میں ہیں۔ تو عام فہم شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ بدامنی کو امن میں بدلنے کے لئے شرپسندوں کے خلاف ملکی قانون کے مطابق اقدامات نہیں کرتے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ ریاست کا نقشہ کیا ہوگا؟ اور یہ کہنا کہ سختی کی جارہی ہے افسوسناک ہے۔ عراق اور شام میں شیعہ اسلام کے پیروکاروں نے داعش کے خاتمے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اسلامی حکومت کے قیام کے دنیا میں دو ماڈل ایران اور افغانستان ہیں، دونوں میں جمہوریت کہاں ہے؟ اس پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایران کو اپنے خلاف پراپیگنڈے کو زائل کرنے اور مشکل حالات کو قابو کرنے کے لئے سخت اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ امریکی، اسرائیل، سعودی سرمایہ کاری کے ممکنہ زہریلے اثرات سے بچا جاسکے۔