اسرائیلی وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری

Nov 25, 2024

انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت ترکیہ، سپین، نیدر لینڈ، اٹلی،آئر لینڈ، کینیڈا اور برطانیہ نے اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔اسرائیل کے حمایتی ممالک البتہ اس فیصلے پر خوش نہیں ہیں، وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان نے عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹرز کی جانب سے وارنٹ گرفتاری کے حصول میں عجلت اور اِس فیصلے کی وجہ بننے والے پریشان کن عمل کی غلطیوں پر امریکہ کو گہری تشویش ہے۔ امریکی صدرنے تو وارنٹ گرفتاری کے اجراء کو شرمناک قرار دیا۔اُن کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی مماثلت نہیں ہے،اسرائیل کی سلامتی کو درپیش خطرات کے خلاف امریکہ ہمیشہ اُس کے ساتھ کھڑا رہے گا۔یہی نہیں بلکہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی سینیٹر لنزی گراہم نے برطانوی وزیراعظم کو برملا دھمکی دی کہ اگر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو گرفتار کیا گیا تو وہ برطانیہ کی معیشت تباہ کردیں گے جبکہ برطانوی وزیراعظم کا موقف ہے کہ برطانیہ کو قانونی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ اقوامِ متحدہ نے بھی عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد رُکن ممالک سے عالمی قوانین کی پاسداری کا مطالبہ کیا ہے۔

بعض ممالک اب بھی اسرائیل کے ساتھ ہیں،ارجنٹائن کے صدر نے ایکس پر بیان جاری کیا کہ عالمی فوجداری عدالت کا فیصلہ اسرائیل کے حق ِ دفاع کو نظر انداز کرتا ہے، ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اربان نے البتہ اسرائیلی وزیراعظم کو نہ صرف دورہ ہنگری کی دعوت دینے کا اعلان کیا بلکہ گرفتاری سے متعلق عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کا یقین بھی دلایا۔

دوسری طرف بہت سے ممالک نے اِس فیصلے کو مثبت قرار دیا ہے اور آئی سی سی کے فیصلے کی پاسداری کا اعلان کیا ہے۔آئرلینڈ کے وزیراعظم سمون ہیرس نے واضح کیا کہ نیتن یاہو آئرلینڈ آئے تو جرائم کی عالمی عدالت کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کے تناظر میں اُن کی گرفتاری کو ترجیح دی جائے گی۔ اِسی طرح کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے پیغام میں بین الاقوامی قانون کی پاسداری کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے لئے کھڑے ہیں، بین الاقوامی عدالتوں کے تمام قواعد و ضوابط اور فیصلوں کی پاسداری کریں گے۔ آسٹریلیا نے اِس معاملے میں ذرا محتاط رویہ اپنایا،عالمی فوجداری عدالت کے کردار کی حمایت تو کی لیکن وارنٹ گرفتاری کا براہِ راست حوالہ دینے سے اجتناب کیا۔ چینی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ چین کو اُمید ہے کہ آئی سی سی اِس حقیقت پسندانہ اور منصفانہ موقف کو برقرار رکھے گا اور قانون کے مطابق اپنے اختیارات کا استعمال کرے گا۔ عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کے بعد پہلے ایرانی ردعمل میں ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل جنرل حسین سلامی نے عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطین اور لبنانی مزاحمتی تحریک کی بڑی فتح ہے،ایک ریاست مکمل عالمی سیاسی تنہائی کا شکار ہے اور دیگر ممالک میں سفر کے قابل نہیں رہی۔ ترک وزیر خارجہ ہاکان فدان نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا ہے کہ یہ فیصلہ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کرنے والے اسرائیلی حکام کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی سمت ایک انتہائی اہم قدم ہے۔ کولمبیا کے صدر نے اِس فیصلے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ  اس پر عملدرآمد میں مدد کرے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے بھی وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کا عندیہ دیا۔ 

واضح رہے کہ عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے جمعرات کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یوواف گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے اور معاہدہ روم کے تحت آئی سی سی میں شامل تمام 124 ملک انہیں گرفتار کرنے کے پابند ہیں۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نسل کشی کے مرتکب قرار پانے کے بعد اسرائیلی رہنماؤں کی حیثیت مفرور مجرموں کی ہو گئی ہے،ان دونوں افراد کو انسانیت کے خلاف جرائم کے ساتھ ساتھ جنگی جرائم کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔وزیراعظم نیتن یاہو نے عالمی فوجداری عدالت کے اس فیصلے کو یہود مخالف قرار دیا ہے۔ آئی سی سی عالمی عدالت ہے، اس کے پاس نسل کشی، انسانیت کے خلاف ممالک کے جرائم اور جنگی جرائم پر مقدمات چلانے کا اختیار ہے۔اس کا قیام نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ میں 2002ء میں ہوا اور اس کا مقصد ”روانڈا“ میں نسل کشی اور یوگوسلاویہ کی جنگوں میں ہونے والے قتل ِ عام کو روکنا تھا۔ عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں کہا کہ غزہ میں اکتوبر 2023ء سے مئی 2024ء تک انسانیت سوز مظالم اور جنگی جرائم کے مناسب شواہد موجود ہیں،اِن دونوں افراد نے جان بوجھ کر غزہ میں شہری آبادی کو خوراک، پانی،ادویات اور طبی اشیا ء کے ساتھ ساتھ ایندھن اور بجلی سے بھی محروم رکھا۔ واضح رہے کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں ہی آئی سی سی کے رُکن نہیں ہیں لیکن عدالت نے اسرائیلی حکام پر اپنے دائرہ اختیار کی بنیاد اِس بات پر رکھی ہے کہ فلسطینی علاقوں کو 2015ء میں آئی سی سی کی ایک رکن ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ عالمی عدالت نے فیصلہ تو دیا ہے لیکن اس کے پاس گرفتاری نافذ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، کوئی پولیس فورس نہیں ہے۔

اِس فیصلے کی تائید ہو رہی ہے، بہت سے ممالک اس کی پاسداری کا اعلان بھی کر چکے ہیں، یہ اخلاقی فتح تو بہر حال ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کو گرفتار کر بھی لیا جائے۔عدالت کے قوانین کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس سلسلے میں قرارداد منظور کر کے ایک سال کے لئے تحقیقات یا استغاثہ کو روک سکتی ہے یا اس کو موخر کر سکتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وارنٹ جاری ہونے کے بعد اس میں ملوث ملک یا گرفتاری کے وارنٹ میں نامزد شخص عدالت کے دائرہ اختیار یا مقدمے کے قابل قبول ہونے کو چیلنج کر سکتا ہے۔ اِس فیصلے کے بعد بھی نیتن یاہو پر سفر کرنے کی پابندی نہیں ہے لیکن اگر وہ کسی آئی سی سی کی رکن ریاست کا رُخ کرتے ہیں تو گرفتاری کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ ویسے تو اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہوا میں اُڑا چکا ہے، عالمی عدالت انصاف کے عبوری فیصلے پر بھی اُس نے کان نہیں دھرے، ہر طرف اس کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں لیکن اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ امریکی انتخابات میں مسلمانوں کا ڈونلڈ ٹرمپ کا ساتھ دینے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ جو بائیڈن کی اسرائیل دوست پالیسی سے خلاف تھے، یہ اور بات کہ ٹرمپ کی کابینہ میں بھی ایسے ہی لوگ شامل کئے جا رہے ہیں جو اسرائیل کے حامی ہیں اور مسلمان اس سے ناخوش ہیں جو ممالک اب بھی اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں ان کو  اپنے موقف پر غور کرنا چاہئے،نسل کشی کہیں بھی ہو اسے کسی صورت حق ِ دفاع کا نام نہیں دیا جا سکتا، اس کے نام پر ظلم و بربریت کا بازار گرم نہیں کیا جا سکتا۔اسرائیلی کارروائیوں کا آغاز ہوئے ایک سال سے زائد ہو چکا ہے، اب لبنان پر بھی حملے ہو رہے ہیں، مشرق وسطیٰ میں جنگ پھیلنے کا خطرہ موجود ہے، اسرائیل کے قدم روکنے کے لئے عالمی سطح پر سب کو مل کراقدامات کرنا ہوں گے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پوری دنیا کو اس کے نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔

مزیدخبریں