ہم کیسی قوم ہیں؟

Nov 25, 2024

محسن گواریہ

مملکت ِ خداداد المناک،خطرناک اور خوفناک حالات کا شکار ہے،اُمت مسلمہ جسے ایک جسم قرار دیا گیا اپنے اپنے مفادات کے زیر اثر جغرافیائی سرحدوں میں مقید ہے، اگر چہ رب رحمن نے اُمت مسلمہ کو ہر قسم کے فیوض و برکات سے نوازا،مگر امت پہلے وطن کی محبت میں گرفتار ہو کر ملکوں میں تقسیم ہوئی پھر فرقوں گروہوں میں بٹ کر خس وخاشاک کی طرح بکھر گئی، علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ”ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب“آج اسی جدائی نے اُمت مسلمہ کو بیرونی دشمنوں سے بے نیاز کر کے آپس میں دست و گریباں کر رکھا ہے،عرب ممالک اپنے مفادات کے تابع ہو کر ایک دوسرے کے دشمن بنے بیٹھے ہیں تو ایران کی اپنی رو ہے،پاکستان کی کوئی سمت ہی نہیں، جہاں قرض اور امداد کی کوئی سبیل دِکھتی ہے اسی کا ہو رہتا ہے،یہی وجہ ہے کہ چھوٹے سے اسرائیل نے مسلمان ممالک کے جھرمٹ میں فلسطینیوں  پر زندگی تنگ کر رکھی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں،امریکہ و یورپ یہودی قوم کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں تو مسلمان ممالک امریکہ کی کٹھ پتلی، ایسے میں اسلامی دنیا کی پہلی اور واحد ایٹمی قوت اپنی بقا و سلامتی کی جنگ لڑ رہی ہے اور ستم یہ کہ کوئی حکمت عملی ہی نہیں ہے،”چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی“کے مصداق الل ٹپ بھاگ دوڑ ہے،منزل کا ہونا تو دور یہاں کسی کو راستوں کی بھی خبر نہیں،ہر کوئی مملکت خدا داد کی رگوں سے لہو چوسنے نہیں،بلکہ پینے میں مصروف ہے اور ہر کسی کی منزل کوئی خوشحال یورپی ملک،امریکہ یاکینیڈا ہے۔

اس افراتفری،انتشار کے بطن سے سیاسی بحران نے جنم لیا،سیاسی بحران نے معاشی بحران کی آبیاری کی اور معاشی بحران نے بد انتظامی کے الاؤ کو ہوا دی،نتیجے میں فرقہ واریت کا عفریت پھن پھیلا کر وارد ہو گیا،یہ حکومتی کمزوری اور آئین کی بالا دستی،قانون کی حکمرانی کا نتیجہ ہے کہ چند روز قبل فرقہ واریت کے نام پر کے پی کے کے علاقہ پارہ چنار میں لا تعداد انسانوں کو خون میں نہلا دیا گیا، مگر پارہ چنار کے محل وقوع اور حدود اربعہ کو نگاہ میں رکھیں تو یہ ضلع تین اطراف سے افغانستان میں گھرا ہوا ہے ہر دور میں دہشت گردوں کو افغانستان کا  اثرورسوخ اور مقامی حمایت حاصل رہی،افغان مہاجرین کے بعد القاعدہ نے یہاں پنجے گاڑے،طالبان کو بھی پذیرائی ملی،اب شیعہ اور سنی مکتبہ فکر کی متشدد جماعتوں کو بھی یہیں پنپنے کا موقع ملا،تین اطراف سے افغانستان کے حصار میں ہونے کی وجہ سے ان جماعتوں کو بیرونی امدادو حمائت بھی آسانی سے میسر رہی،پارہ چنار آبادی کے لحاظ سے بھی تقسیم ہے،کسی گاؤں میں سنی اکثریت میں ہیں تو کہیں شیعہ کو تسلط حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر ان میں کشمکش اور کشا کش شروع ہو جاتی ہے،لوگ اپنے اپنے فرقوں کی حمائت میں جمع ہوکر اسلحہ بند ہو جاتے ہیں،ہر تنازع فرقہ وارانہ تنازع بن جاتا ہے،اسلحہ کی بھی یہاں بھر مار ہے، اس ضلع کی صرف ایک سائیڈ پاکستان سے ملتی ہے یہاں لوگ قافلوں کی شکل میں سکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں سفر کرتے ہیں۔

پارہ چنار کو1839ء میں انگریز سرکار نے ضلع کا درجہ دیا، تب بھی افغانستان پر حملوں کے لئے اس ضلع کو خاص اہمیت حاصل تھی،بعدازاں اسے قبائلی علاقہ قرار دیدیا گیا، کالعدم تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے بانی نے جب ایران سے ہجرت کی تو اِسی ضلع کو اپنا مسکن بنایا،یہیں پارٹی کی بنیاد رکھی،جس کے جواب میں کالعدم سپاہ صحابہ وجود میں آئی اگر چہ اس کے قیام کے پیچھے جھنگ کے حالات بھی وجہ تھے،اب بھی کالعدم سپاہ صحابہ اور جیش محمد کو اس علاقہ میں پذیرائی حاصل ہے،اصل مسئلہ یہاں اراضی اور پہاڑوں کی ملکیت کا تنازع ہے،واضح رہے کہ یہاں کی زمین بہت زرخیز اور پانی کی بہتات ہے،شیعہ سنی آبادی میں یکسانیت کی وجہ ہے کہ ہر تنازع اور تصادم میں شیعہ،سنی فرقہ پرست جماعتیں کود پڑتی ہیں،جس کے نتیجے میں مقامی اور ذاتی تنازعات بھی مسلک و فرقہ کا تنازع بن جاتے ہیں۔

حالیہ دہشت گردی کا واقعہ بھی زمین کے چند کنا ل کے ٹوٹے پر عرصہ دراز سے جاری تنازع کا نتیجہ ہے اس تنازع میں اب تک سینکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں،مگر تنازع جوں کا توں ہے،یہ بات بھی زیر نظر رہے کہ اب تک اس علاقہ میں لینڈ ریکارڈ جمع نہیں کیا جا سکا،جس کا جی چاہتا ہے یا زور چلتا کسی بھی قطعہ اراضی یا پہاڑی پر قبضہ کر کے ملکیت کا دعویٰ ٹھوک دیتا ہے،جس فرقہ کے لوگ ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے ہم مسلک لوگ ان کی حمایت میں نکل آتے ہیں اور ان کے فرقہ کی جماعت ان کی پشت پناہ بن جاتی ہے،اراضی کا ریکارڈ نہ ہونے سے اشتمال بھی نہیں ہو سکا،ضلعی انتظامیہ نام کی کوئی اتھارٹی ضلع میں نہیں جو ہے وہ بھی ڈر اور خوف سے سہم کر وقت گزارتی ہے،جیسا آغاز میں عرض کیا کہ سیاسی بحران نے معاشی اور معاشی بحران نے انتظامی بحران کی راہ ہموار کی،اس سے زیادہ بد انتظامی کیا ہو گی کہ ایک حساس ضلع میں انتظامیہ کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔

فرقہ واریت کا ناسور بھی حکمرانوں کی عاقبت نا اندیشی کے باعث معاشرے میں جڑیں مضبوط کر رہا ہے، صرف سیاسی مفادات کی خاطر ہر دور میں فرقہ پرستوں کی پشت پناہی کی گئی،نتیجے میں فرقہ پرست گروہ مضبوط و مستحکم ہوتے گئے،یہ سہرا بھی سابق فوجی آمر ضیاء الحق کے سر جاتا ہے جو اپنی کرسی کی حفاظت کے لئے فرقہ پرستوں اور لسانی گروہوں کے سر پرست بنے رہے، ماضی میں فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی تو آج راکھ کے سیاسی ڈھیر کو الاؤ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

 تحریک انصاف نے 24 نومبر کو ملک بھر میں احتجاج کی کال دی تو حکومت نے ملک بھر کو سیل کر دیا، اسلام آباد جانے والے راستے بند کر دئیے،سرگرم کارکنوں  کی گرفتاریاں کی گئیں،موٹروے،رِنگ روڈز، تمام دریاؤں کے پلوں پر نفری تعینات کر دی گئی، جرنیلی سڑک کو قبائلی علاقہ بنا دیا گیا،یہ دوسری عاقبت نااندیشی تھی،ایک طرف حکومت نے پی ٹی آئی کو فری ہینڈ دینے کا اعلان کیا تو دوسری جانب جن مقدمات میں عمران خان کو سزا ہوئی تھی ان سب میں ضمانت منظور کرنے کے بعد ہائیکورٹ نے رہائی کا حکم صادر کیا، مگر روبکار جاری ہونے کے باوجود حکومت نے رہا نہ کیا اور دوسرے مقدمات میں گرفتای ڈال دی گئی،اس طرزِ عمل کے بعد تحریک انصاف سے کہا جاتا ہے ملکی مفاد میں وہ حکومت کا ساتھ دے،پارلیمنٹ میں آئے، مذاکرات کی میز پر بیٹھے،کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر زبان بندی کر کے اسے مذاکرات کی دعوت دی جائے اور کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے؟

ملکی سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا چنداں مشکل نہیں کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور مستقبل قریب میں کچھ ان ہونی نظر آ رہی ہے،خدا خیر کرے کوئی اچھا نتیجہ ہی نکلے۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں