روس۔یوکرین جنگ: تازہ صورتِ حال   (2)

Nov 25, 2024

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

گزشتہ کالم کے آخر میں لکھا گیا تھا کہ یوکرین نے وہ میزائل، روس پر فائر کر دیئے ہیں جن کو فائر کرنے سے اب تک امریکہ نے منع کر رکھا تھا۔ میں جب وہ کالم ختم کررہا تھا تو بین الاقوامی میڈیا اور بالخصوص رشین ٹیلی ویژن (RT) یہ خبر دے رہا تھا کہ امریکہ سے اجازت ملنے کے بعد یوکرین نے وہ میزائل روس کے مغربی علاقے پر فائر کر دیئے ہیں۔ اس سے اگلے روز یہ خبر عالمی میڈیا پر نشر کی گئی کہ یوکرین نے برطانیہ کی طرف سے موصول شدہ کروز میزائل بھی روس کے خلاف فائر کر دیئے ہیں جن کا نام سٹارم شیڈو (Storm Shadow) بتایا جاتاہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میزائل اگر یوکرین نے روس کے خلاف فائر نہیں کرنے تھے تو ان کو امریکہ اور برطانیہ نے یوکرین کو بھجوائے ہی کیوں تھے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ ساری خبریں جن کا ”ترجمہ“ آپ میرے ان کالموں میں پڑھ رہے ہیں، ان کی پوشیدگی یا اظہار کی وجہ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ ایک تو اس جنگ کی نوعیت بڑے سٹرٹیجک اثرات کی حامل ہے اور دوسرے ان میزائلوں کی رینج اور تباہ کاری اس پیمانے کی ہے کہ اس کا تصور بھی عام پاکستانیوں کو نہیں ہو سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے گزشتہ سات عشروں میں جو چار جنگیں، انڈیا سے لڑی ہیں، ان میں کوئی بھی کروز میزائل فائر نہیں کیا گیا تھا۔ ٹینکوں اور توپوں کے گولے فائر ہوتے رہے۔ لیکن کروز میزائل نہ تو،1998ء تک، ہمارے پاس تھے اور نہ انڈیا کے پاس تھے۔ یہ میزائل اس وقت ہمارے (اور انڈیا کے) پاس آئے تھے جب دونوں ممالک نے جوہری دھماکے کرلئے تھے۔ جوہری بم کو دشمن پر پھینکنے کے لئے آسان ترین اور جدید ترین ذریعہ یہی میزائل تھے جو زمین یا فضاء سے دشمن پر پھینکے جا سکتے تھے۔ بعد میں یہ سمندری جنگی جہازوں سے بھی پھینکے جانے کے لئے ڈویلپ کئے گئے۔ اب جو بھی جنگ ہمارے اور انڈیا کے درمیان ہوگی اس میں اگر غیر جوہری ہتھیاراستعمال کئے گئے تو یہ وہی میزائل ہوں گے جو ہم ماضیء قریب میں مینوفیکچر کرتے رہے ہیں۔ (اور انڈیا بھی ایسا ہی کرتا رہا ہے)

بات روس اور یوکرین کی ہو رہی تھی۔ صدر بائیڈن جاتے جاتے اب یوکرین کو اجازت دے رہے ہیں کہ وہ ان ”خطرناک“ ہتھیاروں کو بھی روس کے خلاف استعمال میں لے آئے جن کی ”اجازت“ پہلے نہیں دی گئی تھی…… یہ اجازت والا معاملہ بھی عجیب و غریب ہے۔ جب کوئی ویپن،کسی ملک کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو اس کے استعمال کا اختیار پہلے اس کو دیا جائے یا نہ دیا جائے،جب وقت (میرا مطلب ہے برا وقت) آتا ہے تو اجازت کی نفی یا اثبات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

ناٹو ممالک نے جو جدید ہتھیار یوکرین کو فراہم کر دیئے ہیں، ان کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے ہزاروں لاکھوں فوجی (اور شہری) اس سہ سالہ جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور ابھی نجانے اس کا خاتمہ کہاں جا کر ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ جنگ بتدریج ”تیسری عالمی جنگ“ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اول اول تو یہ روائتی ہتھیاروں کی جنگ ہو گی لیکن بعد میں اس کا تسلسل جوہری بموں کی طرف چلا جائے گا…… اور یہی وہ قیامت ہے جس کا خطرہ سب ملکوں کی افواج کو ہے لیکن سب ملک اس کے تباہ کن نتائج کا ادراک نہیں کر رہے۔

اس جنگ کی خونریزی میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی دو روز پہلے یہ خبر آ چکی ہے کہ روس نے، نیپرو (Dnipro) نامی شہر پر ایک نئی قسم کا میزائل فائر کیا ہے جس کو Oreshnikکا نام جاتا ہے۔ اس میزائل کی نئی اور خاص بات یہ ہے کہ اس پر کئی جوہری بم لاد کر ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جائے اور فائر کئے جا سکتے ہیں۔ یوکرین اس میزائل کو بین البراعظمی بلاسٹک میزائل (ICBM) قرار دے رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میزائل کی رینج ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ میزائل روس (ایشیا) سے امریکہ پر فائر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن امریکی انٹیلی جنس کے ذرائع اس میزائل کو ICMB نہیں بلکہ ایک عام بیٹل فیلڈمیزائل اور ICBM کے درمیان کے لیول کا میزائل قرار دے رہے ہیں جس کو ”میڈیم رینج بلاسٹک میزائل“ کہا جاتا ہے۔ اس میزائل کی رینج 2000ہزار میل سے 4000ہزار میل تک ہوتی ہے۔

لیکن اس بات سے قطع نظر کہ یہ میزائل ICBM تھا یا IRBMتھا اصل بات جو باعثِ پریشانی ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اس جنگ کا دائرہ پھیل رہا ہے۔ صدر ٹرمپ 20جنوری 2025ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور ان کا ارادہ ہے کہ روس۔ یوکرین جنگ بند کروانے کے لئے اقدامات کریں، جو ہتھیار یوکرین کو دیئے جا چکے ہیں یا دیئے جا رہے ہیں، ان کو روکا جائے، وہ اقتصادی اور لاجسٹک مدد جو یوکرین کو امریکہ کی طرف سے فراہم کی جا رہی ہے، اس کو روکا جائے اور جو خطرناک اور سٹرٹیجک نوعیت کے حامل ہتھیار، امریکہ نے اپنے ناٹو اتحادیوں کو دے رکھے ہیں، ان کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی جائے۔

تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا 20جنوری 2025ء تک یوکرین، روس پر وہ میزائل مزید فائر کرے گا جو اسے ناٹو ممالک کی طرف سے بطور ”حفظِ ماتقدم“ دیئے جا چکے ہیں؟

نیپرو (Dnipro) وہ شہر ہے جو یوکرین میں ہے اور جہاں 1990ء سے پہلے کہ جب یوکرین، سوویٹ یونین میں شامل تھا، روس کے بیشتر میزائل تیار کئے جاتے تھے۔ یعنی میزائل سازی کا جو انفراسٹرکچر نیپرو میں واقع ہے کیا اس پر روس کی طرف سے IRBMقسم کے مزید میزائل فائر کئے جائیں گے؟ یہ سوال ایک بہت اہم سوال ہے۔ یوکرینی صدر زیلنسکی فی الحال یہی واویلا مچا رہا ہے کہ روس، یوکرین پر جو تابڑ توڑ حملے کئے جا  رہا ہے ان کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بہت جلد اس کی افواج کی مزاحمت دم توڑجائے گی۔اور روس تو یہی چاہتا ہے کہ یوکرین کی تابِ مقابلہ ختم کر دی جائے۔

اس جنگ میں اب تک یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ان تین برسوں میں طرفین کے دس لاکھ فوجی اور سویلین مارے جا چکے ہیں لیکن یہ مقابلہ دو برابر کے حریفوں کے درمیان نہیں بلکہ ایسے حریفوں کے درمیان ہے کہ جن میں سے ایک کے پاؤں ڈگمگارہے ہیں اور دوسرا ثابت قدمی کا مظاہرہ کررہا ہے۔

یوکرین نے ناٹو کی مدد سے اپنی جنگی انڈسٹری کو بہت ترقی دے لی تھی لیکن یہ خیال نہیں کیا تھا کہ جنگ صرف ہتھیاروں کی مدد سے نہیں جیتی جاتی بلکہ ان ہتھیاروں کے استعمال کے لئے جس نفری کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اہم ترین رول ادا کرتی ہے اور فی الحال یوکرین کے پاس وہ نفری کہ جو اب تک جنگ کا چارہ بنی ہوئی تھی اس کی تعداد خطرناک (Critical) حد تک کم ہو چکی ہے…… اگر کل کلاں، صدر ٹرمپ آکر یہ جنگ ختم بھی کرا دیتے ہیں تو یوکرین کو آنے والے کئی برسوں تک ان تین برسوں کی تباہی کے گرداب سے نکلنے کے لئے شاید تین عشرے درکار ہوں گے۔(ختم شد)

مزیدخبریں