پھر وہی سڑکوں کی بندش، جگہ جگہ کنٹینرز کا راج اور روزمرہ معاملاتِ زندگی ناقابلِ بیان مشکلات کا شکار، یہ بات دنیا کے کسی پسماندہ اور دور افتادہ گاؤں یا قصبے کی نہیں بلکہ جدید تقاضوں اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیے جانے والے پاکستان کے شہر اسلام آباد کی ہو رہی ہے، جہاں کے باسی آئے روز ہونے والے احتجاج کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔یوں تو اسلام آباد اپنے دامن میں سمائے سرسبز پہاڑوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن ایک طویل عرصے سے نئی روایت چل پڑی ہے کہ چاہے کوئی سیاسی پارٹی ہو یا مذہبی جماعت، سب ہی اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسلام آباد کا رخ کر لیتے ہیں۔ایسی صورتحال میں حکومت اور احتجاج کرنے والی پارٹی تو ایک جانب مگر اس شہر کے رہنے والے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔نجی اور سرکاری دفاتر، تجارتی مراکز، ہوٹلز، ہوسٹلز اور حتیٰ کے بچوں کے سکول تک بند کر دئیے جاتے ہیں اور معاملہ یہاں تک محدود نہیں رہتا بلکہ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز بھی بند کر دی جاتی ہیں۔24 نومبر کو ایک مرتبہ پھر سے پاکستان تحریکِ انصاف نے وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کی کال دے رکھی تھی۔اسلام آباد کی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے اس احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد کے خارجی اور داخلی راستوں کو کنٹینرز لگا کر نہ صرف بند کر دیا بلکہ شہر تک رسائی بھی انتہائی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔یہ منظرصرف اسلام آباد کا ہی نہیں پنجاب بھر بالخصوص لاہور کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ اسلام آباد میں رہنے والوں نے تو سوشل میڈیا پر اپنا غصہ نکالا ہی مگر ملک کے دیگر شہروں سے بھی عوام اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔روزنامہ پاکستان نے چند ایسے افراد سے بات کی ہے جن کو اسی تاریخ میں لاہور آنا ہے یا لاہور سے باہر سفر کرنا ہے۔محمد مصطفے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال سے وہ اپنے ایک خواب کی تکمیل کے لیے محنت کر رہے ہیں مگر اب جب اس کے پورا ہونے کا وقت نزدیک آیا ہے تو ہونے والے احتجاج کے سبب یہ ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا۔محمد مصطفےٰ کا کہنا ہے کہ میں نے اس ڈیل کے لیے اتنی محنت کی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس میں بہت وقت اور لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کر چکا ہوں۔ اس ڈیل پر بس ایک ملاقات اور چند دستخط ہونا باقی ہیں جن کے لیے ہم نے 23 اور 24 نومبر کی تاریخ رکھی تھی مگر گوجرانوالہ سے لاہور سفر نہیں کر سکتا کیونکہ جی ٹی روڈ اور موٹروے کو بند کر دیا گیا۔محمد مصطفےٰ نے بتایا کہ اس ڈیل میں ان کے ساتھ شامل دیگر لوگ بھی اتنے ہی پریشان ہیں جتنے وہ خود ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔کاروباری معاملات تو ایک جانب مگر عموماً جس خطے میں ہم رہتے ہیں وہاں نومبر اور دسمبر میں کہا جاتا ہے کہ یہ شادیوں کا سیزن ہے۔ایسے میں لاہورمیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی شادیاں ان دنوں میں ہونا طے پائی تھیں کہ جن میں شہر کو بند کر دیا گیا۔ ان ہی لوگوں میں سے ایک مریم بھی ہیں جن کے بھائی کی شادی 23 اور 24 نومبر کو ہونی تھی۔مریم کہتی ہیں کہ ’ہمارے مہمانوں نے بیرونِ ملک سے پاکستان آنا تھا۔ ایک تو ان کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ ایئرپورٹ سے نکل کر گھر کیسے پہنچیں گے۔ پھر سب سے بڑھ کر ہمارے لیے پریشانی والی بات یہ ہے کہ میرے بھائی کا ولیمہ 24 نومبر کو ہونا تھا۔ ہال والوں نے ہمیں ایڈوانس واپس کر دیا کہ اس دن شادی کا انتظام نہیں کیا جا سکتا۔مریم بھی یہ سوال کر رہی ہے کہ ’ان کی اس پریشانی اور معاشی نقصان کا ازالہ کیسے اور کون کرے گا۔شادی ہالز اور اس کاروبار سے وابستہ دیگر افراد بھی ایسے احتجاج کی وجہ سے ہونے والے مالی نقصان اور دیگر معاملات کی وجہ سے پریشان ہیں۔اسی طرح دیگر کاروبار سے جڑے ہوئے بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے ان اوقات میں ایونٹ کروانے کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔ایک شخص فیصل کاکہنا ہے کہ ہم نے ایک نکاح اور ایک منگنی کا ایونٹ اسی تاریخ کو کرنا تھا۔ جس کے لیے ہم نے ایڈوانس لے کر اپنی تیاری مکمل کر لی ہوئی تھی مگر اب میں تیار چیزوں کا کیا کروں کیونکہ راستوں کی بندش کی وجہ سے ایونٹ کی لوکیشن پر پہنچنا اور ایونٹ کا ہونا نا ممکن ہو گیا۔ سب کہتے ہیں کہ حکومت اور ان کے مخالفین کے درمیان جنگ میں نقصان ہم جیسے چھوٹے کاروبار والوں کا ہی ہوتا ہے اور تو کسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔شادی ہالز اور اس کاروبار سے وابستہ دیگر افراد بھی اس احتجاج کی وجہ سے ہونے والے مالی نقصان اور دیگر معاملات کی وجہ سے پریشان ہیں۔واضح رہے تحریک انصاف کی طرف سے اتوار 24 نومبر کے لیے اعلان کردہ فیصلہ کن احتجاج جاری ہے اور صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے قافلوں کو روکنے اور کارکنان کی گرفتاریوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔اسلام آباد جانے والے تمام راستے بند کر کے پولیس نے جگہ جگہ اپنے عارضی چیک پوائنٹ بھی قائم کر رکھے ہیں۔رات گئے تک موصولہ اطلاعات کے مطابق لاہور، ملتان، فیصل آباد،گوجرانوالہ، پاکپتن، چونیاں اور ڈیرہ غازی خان سمیت صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں اور علاقوں سے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ ملتان میں پولیس نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں عامر ڈوگر، زین قریشی اور معین ریاض کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ اس احتجاج کا مقصد عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے تمام گرفتار شدہ رہنماؤں کی رہائی اور چوری شدہ انتخابی مینڈیٹ کی واپسی بتایا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں احتجاج کرنے پر دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت پابندی لگا رکھی ہے۔صوبائی دارالحکومت لاہور میں پولیس نے پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکنوں کو روکنے کے لیے کئی اہم سڑکوں پر ناکے لگا رکھے ہیں۔ لاہور میں اسلام آباد جانے والے تمام راستے کنٹینرز رکھ کر بند کر دئیے گئے۔ بسوں کے تمام اڈے بھی بند کرا دئیے گئے جبکہ لاہور شہر میں داخلے اور وہاں سے روانگی کے لیے استعمال ہونے والے تمام راستوں پر پولیس کے مسلح اہلکار بھی متعین تھے۔لاہور کی میٹرو ٹرین بھی دو روز سے بند ہے۔ شہر کے نیازی چوک، شاہدرہ چوک، بابو صابو انٹرچینج، امامیہ کالونی، ٹھوکر نیاز بیگ اور سگیاں پل سمیت تمام اہم مقامات سیل کر دئیے گئے۔ آزادی فلائی اوور بھی دونوں طرف کی ٹریفک کے لیے بند رہا۔ شہر میں پرانے راوی پل پر سے بھی ٹریفک کو گزرنے کی اجازت نہ دی گئی۔ پولیس ناکوں کے قریب قیدیوں کو لے جانے والی اور واٹر کینن گاڑیاں بھی موجود رہیں۔