انصاف پسندی
انسانی قدریں کتنی تیزی کے ساتھ پامال ہورہی ہیں اور اخلاقی تقاضے تو شائد ہم بڑی تیزی کے ساتھ بھولتے جارہے ہیں،ہم یہ بھی بھول رہے ہیں کہ ہمارا کلچر،تمدن اور روایات ہم سے کس سلوک کی متقاضی ہیں، ایک زمانہ تھا جب ایک داماد پورے گاﺅں کا داماد ہوتا تھا، اس روایت کی جھلک آج بھی ہمارے دیہات میں دیکھی جا سکتی ہے،جہاں داماد کی بہت عزت ہے، اس کی بھول چوک، خطا اور لغزش کو محض اس لئے نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ یہ گاﺅں کا داماد ہے۔جن کو بیٹیاں پیاری ہوتی ہیں انہیں داماد بھی اتنے ہی پیارے ہوتے ہیں، کیونکہ بیٹی تو جگر کا ٹکڑا ہوتی ہے اور اس جگر کے ٹکڑے کو جب داماد کے حوالے کیا جاتا ہے تو داماد کی اس لئے بھی زیادہ عزت اور قدر کی جاتی ہے کہ ماں باپ کے جگر کا ٹکڑا داماد نے سنبھال کررکھنا ہے، اس لئے داماد بیٹی سے بھی پیارا ہوتا ہے۔زرداری صاحب بھی بھٹو صاحب کے داماد ہیں اور آج وہ تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں، بیٹے شہید ہوگئے، بیٹی شہیدہوگئی مگر داماد پر سندھی خاندان نے آنچ نہ آنے دی اور آج وہ تخت پر بیٹھے ہیں،داماد چودھری برادران کا ہو یا کسی اور سیاست دان یا کسی غریب کا داماد ہو، اس کی عزت تو اسی طرح ہی کی جاتی ہے اپنے اسلامی اور اخلاقی طور پر، تو پھر شہباز شریف کے داماد کا چرچا کیوں عام ہوا، غلطیاں تو تخت پر بیٹھے ہوئے دامادوں سے بھی سرزد ہو جاتی ہیں، حالانکہ خادم اعلیٰ کے داماد سے تو غلطی نہیں ہوئی تھی۔اس کے گارڈ سے ہوئی اور مجرم شہبازشریف نے داماد کو بنا دیا،سزا بھی دی ،تھانے میں بٹھا دیا، تھانے کی رات داماد نے زمین پر بیٹھ کر گزاری، تھانے اور جیل کی رات شاہانہ بستر پر نہیں گزری تھی وہ اکتوبر کے آخر کی نیم
سردی اور ٹھنڈے فرش پر گزری تھی۔یہ دو راتیں عبادت میں گزریں، قرآن پاک کی تلاوت اور پانچ وقت نماز ادا کرتے ہوئے گزر گئیں مگر داماد کی کچھ اس طرح کی تربیت تھی کہ اس کے ماتھے پر شکن نہ آئی،یہ بھولا داماد، شریف النفس ضرور سوچ رہا ہوگا کہ خطا کسی سے ہوئی اور سزا میں کاٹ رہا ہوں اور یہ بھی سوچ رہا ہوگا کہ میں خادم اعلیٰ کا داماد ہوں تو مجھے سزا کیوں ملی، مگر شائد میں غلط کہہ رہی ہوں، اس کے دل میں تو یہ ہوگا کہ میرے سسر نے گڈگورننس کی مثال قائم کی میں شائد اس کا حقدار تھا کہ مجھے جیل بھیج دیا جاتا اور وہ یہ بھی کہہ رہا ہوگا کہ خدا کرے ہر کوئی اپنے گھر سے ہی مجرم کو سزا دے اور یہ ملک جرائم سے پاک ہو جائے گا اور وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ خدا کرے کہ کسی غریب اور امیر میں جرم کی سزا برابر ہو ۔یہ تو ہیں میرے اور خادم اعلیٰ کے داماد کی سوچ کی باتیں، مگر داماد تو داماد ہوتا ہے، جمعہ کا دن تھا کورٹ سے جب ضمانت کرالی گئی عدالتی اور تھانے کا عملہ اور چند قریبی لوگ جیل سے گھر لے جانے کے لئے جیل پہنچے، دیکھا گیا کہ وہاں پر خادم اعلیٰ کے داماد موجود نہیں ہیں،جیل میں افراتفری پھیل گئی، تھوڑی دیر تلاش کرنے کے بعد پتہ چلا کہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کررہے ہیں، نماز پڑھنے کے بعد دیکھا تو مسکراتے ہوئے اور لبحاتے ہوئے آ رہے ہیں۔ وہ دل
میں سوچ رہے تھے کہ شائد مجھے کسی اور جیل میں شفٹ کررہے ہیں، مگر داماد جی کی سوچ کے برعکس ہوا، انہیں تو وہ ضمانت پر گھر لے جانے کے لئے آئے تھے۔میرا لکھنے کا یہ مقصد ہے کہ داماد مجرم بھی ہو تو عزت کے قابل ہوتا ہے اور جس نے عزت دار گھرانے میں جنم لیا ہو اور عزت والوں کا داماد ہو اس کا احترام برابر ہے تو پھر خادم اعلیٰ کے داماد کا سکینڈل کیوں بن گیا، بلکہ بن گیا تو اچھا ہوا ایک مخلص اور فیصلہ کرنے انسان کو داماد کو بھی جیل دکھا دی، سیاست اپنی جگہ مگر ہماری اعلیٰ قدریں اور ہماری ثقافت کی بے مثال روائتیں اپنی جگہ، اس سارے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ میاں شہباز شریف کتنی خاموشی اور صبر کے ساتھ اپنے جگر کے ٹکڑے کے سر کے تاج پر ہوتی ہوئی سختیاں برداشت کررہے تھے،اچھا بُرا وقت سیاست میں آتا جاتا ہی رہتا ہے۔مگر رحمن ملک کی پھرتیاں دیکھیں کہ داماد کی سزا کوبھی سیاسی رنگ دے دیا، سیاسی حریف ہونا الگ بات ہے مگر اخلاق کے بھی کوئی تقاضے ہوتے ہیں، وہ تو داماد کو بھی ناکوں چنے چبوانے پر تُل گئے ہیں، حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے پھر ایک ایسے شخص کو تختہ مشق ستم بنایا جارہا ہے جو اپنے اوپر لگائے گئے الزام کی صحت سے انکار کررہا ہے، پاکستان میںبسنے والے سب ایک ہیں اور سب کے لئے سزا بھی ایک ہے، شہبازشریف نے اپنے رویے سے ثابت کردیا کہ وہ انصاف پسند ہیں اور ان کے فیصلے غریب امیر کے لئے ایک سے ہوتے ہیں۔کہیں وہ غریب کی بچی کو تعلیم میں آگے لارہے ہیں اور کہیں وہ غریبوں کے دامادوں کو نوکریاں دلا رہے ہیں، اس سے ثابت ہوگیا کہ گڈ گورننس نے ہی خادم اعلیٰ کا وقار بلند کیا اور مخالفین نے بھی اس فیصلے کی وجہ سے انہیں سراہا ہے اور سب نے دعا بھی یہ کی ہے کہ ہماری اسلامی اور خاندانی روایات کو برقرار نہیں رکھا۔انہوں نے داماد کو ناکردہ گناہ کی سزا دلوا دی ہے۔ ٭