نصرت بھٹو، جدوجہدکی علامت!
پیپلزپارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو عملی طور پر دُنیا سے رخصت ہوئے ایک سال بیت گیا۔ منگل کو اُن کی پہلی برسی تھی اس موقع پر اُن کی روح کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی ہوئی۔ صدر آصف علی زرداری نے خوش دامن مرحومہ کے لئے ایوان صدر میں قرآن خوانی اور دُعائے مغفرت کی تقریب کا اہتمام کیا جبکہ مرکزی طور پر گڑھی خدا بخش میں اُن کی قبر پر فاتحہ خوانی ہوئی اور کثیر تعداد میں لوگوں نے مقبرہ میں جا کر ایصال ثواب کیا۔
بیگم نصرت بھٹو ایرانی نژاد اور ایک بڑے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور پھر بیاہی بھی ایسے ہی خاندان میں گئیں جو تعلیم یافتہ اور جاگیردار تھا وہ بھٹو کی دوسری بیوی تھیں، پہلی بیوی امیر بیگم کے بطن سے کوئی اولاد نہ ہوئی جبکہ نصرت بھٹو کے بطن سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ان چاروں میں سے صنم بھٹو حیات اور لندن میں مقیم ہیں۔ شاہ نواز پیرس میں پُراسرار طور پر جاں بحق ہوئے۔ مرتضیٰ بھٹو کو کلفٹن میں اُن کے گھر سے تھوڑی دُور گولیاں ماری گئیں اس وقت اُن کی بہن بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔
نصرت بھٹو ایک ایسی خاتون تھیں جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ بھرپور زندگی گزاری۔ دور اقتدار بھی دیکھا اور پھر وہ وقت بھی گزارا جب اُن کے شوہر سابق وزیراعظم کی حکومت کا تختہ اُلٹا گیا اور پھر ان کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ شاہ نواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی اموات بعد میں ہوئیں۔ بیگم نصرت بھٹو سے مرتضیٰ بھٹو کا قتل برداشت نہ ہو سکا اور وہ صدمے سے نڈھال ہو گئیں۔ اس سے پہلے اُن کے لئے مشکل ترین مرحلہ بہن بھائیوں میں اختلاف کا تھا۔ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی سیاسی راہیں جدا ہو گئی تھیں اور مرتضیٰ بھٹو نے اپنی جماعت بھی بنا لی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو نے ایک ماں کی حیثیت سے دونوں میں صلح کرانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی اور جب مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا تو وہ نڈھال ہو گئیں اور ہوش گم کر بیٹھیں۔ (یہ اطلاع بھی ہے کہ بہن بھائی مان گئے تھے اور ملاقات ہونے والی تھی کہ یہ قتل ہوا)۔ وہ پھیپھڑوں میں کینسر کی مریضہ تھیں یہ مرض بھی بڑھ گیا تھا چنانچہ اُن کی عمر کا آخری حصہ اسی بیماری سے لڑتے گزرا اور پھر کئی سال تک تکلیف برداشت کرنے کے بعد وہ23اکتوبر2011ءکو چل بسیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاءالحق نے اقتدار سنبھال لیا اور بھٹو کو قتل کے مقدمے میں گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا۔ اس وقت نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور بھٹو کی رہائی کے لئے جدوجہد شروع کی۔
بیگم نصرت بھٹو کو ابتدا ہی سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اس وقت مصطفی جتوئی اور مولانا کوثر نیازی نے پارٹی کی کمان اپنے ہاتھ میں لینا چاہی لیکن بھٹو لورز نے ایسا نہ ہونے دیا۔ ان دنوں شیخ رشید (مرحوم) نے شدید مزاحمت کی۔ نون ہاﺅس میں ہونے والے اجلاس میں شیخ رشید نے پہل کر دی اور بیگم بھٹو کا نام قائم مقام چیئرمین کے لئے تجویز کر دیا، حالانکہ پارٹی کے وائس چیئرمین اور سینئر رہنما ہونے کی حیثیت سے یہ رتبہ انہی کو ملنا چاہئے تھا، لیکن شیخ صاحب نے اپنے آپ کو نظر انداز کیا اور بیگم نصرت بھٹو کا نام پیش کر دیا جس پر ان حضرات کی چال ناکام ہو گئی۔ بعد ازاں بیگم نصرت نے کچہریوں کے چکر لگائے، مظاہروں کی قیادت کی، نظر بندی کا عذاب جھیلا، بھٹو کی رہائی کے لئے اُن سے جو بھی بن پڑا انہوں نے کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔
ملک بھر میں مظاہرے روکنے کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہوئے ،اس کے باوجود بیگم نصرت بھٹو کئی مظاہروں کی قیادت میں کامیاب رہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ تھا۔ پیپلزپارٹی نے میچ کے دوران سٹیڈیم میں مظاہرے کا پروگرام بنایا۔ جیالے اور جیالیوں سمیت بیگم نصرت بھٹو اندر پہنچ گئیں۔ یہاں پارٹی پرچم بھی لہرائے گئے اور نعرے بھی لگے۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا، جس سے بیگم بھٹو کا سر پھٹ گیا۔ رخسانہ بنگش اور دوسری خواتین اُن کو وہاں سے لے کر آئیں۔
بیگم نصرت بھٹو کارکنوں کا بہت خیال رکھتی تھیں اور اُن کی ضررویات بھی پوری کرتی رہتی تھیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کی سماعت براہ راست ہائی کورٹ میں شروع ہوئی تو بیگم بھٹو نے گلبرگIIIمیں دفتر کے لئے ایک کوٹھی کرائے پر لی۔ اس میں مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا گیا۔ بیگم بھٹو خود وہاں پہنچ کر دوسرے حضرات کی منتظر رہیں لیکن باہر ہر کونے پر پولیس ناکہ تھا جو بھی اجلاس کی خاطر آتا اسے گرفتار کر کے کسی نہ کسی تھانے میں بھیج دیا جاتا۔ یہاں کافی دیر تک یہ صورت حال رہی اور پھر پولیس نے کوٹھی پر چھاٹہ مار کے بیگم نصرت بھٹو کو بھی گرفتار لیا۔
بیگم نصرت بھٹو جدوجہد کی علامت بن گئی تھیں اور کارکن بھی اُن کے حکم پر سر پھڑوانے پر تیار رہتے تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اُن کے ساتھ رہیں وہ قائم مقام چیئرمین تھیں تو محترمہ شریک چیئرمین بنیں اور پھر وہ وقت بھی آیا جب پارٹی قیادت محترمہ کے ہاتھ میں دے دی گئی۔ بیگم بھٹو نے کسی خوف کے بغیر بھٹو کی رہائی کے لئے جدوجہد کی۔ مقدمہ کی پیروی کے لئے وہ خود بھی ہائی کورٹ چلی جاتی تھیں۔ پھر وہ وقت آ گیا جب ان کی آخری ملاقات کرائی گئی اور اس کے بعد ماں بیٹی کو نظر بند کر دیا گیا۔ ایک طویل عرصہ وہ المرتضی ٰ(لاڑکانہ) میں نظر بند رہیں۔ ان دونوںکو بھٹو کا آخری دیداربھی نہیں کرنے دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنی زندگی کا آخری دور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ گزارا اور دبئی میں مقیم اور زیر علاج رہیں۔ پھر وہ دور بھی طویل تھا جب اُن کی یاد داشت نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا اور اسی حالت میں وفات پا گئیں، ان کا جسد خاکی پاکستان لا کر گڑھی خدا بخش کے مقبرے میں دفن کیا گیا۔ ٭