امریکی خارجہ پالیسی اور پاکستان
امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران صدارتی امیدواروں کے درمیان ہونے والے روائتی ٹیلی وژن مباحثوں کے سلسلے میں آخری مباحثہ گزشتہ روز ہوا، جو خارجہ پالیسی سے متعلق تھا۔توقع کے مطابق اس مباحثہ میں پاکستان اور افغانستان کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ پاکستان امریکہ تعلقات کے سلسلے میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار بارک اوبا ما اور ری پبلکن پارٹی کے مٹ رومنی دونوں کے خیالات میں بڑی حد تک یکسانیت دیکھی گئی، دونوں نے جہاں خطے میں پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کیا وہاں اسے اپنے مسائل پر قابو پانے اور امن کے لئے اپنا کردا ر ادا کرنے کے لئے امداد جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔صدارتی امیدواروں نے پاکستان پر ڈرون حملے جاری رکھنے اور ان میں اضافے پر بھی یکساں خیالات کا اظہار کیا۔
اپنی خارجہ پالیسی کے متعلق امریکہ کے دونوں صدارتی امیدواروں کے خیالات میں زیادہ فرق نہیں ، ری پبلکن امیدوار نے کامیابی کی صورت میں اپنی ممکنہ خارجہ پالیسی کے سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تو موجودہ صدر نے جو کچھ اب تک کیا ہے اور جو ہو رہا ہے اس کی وضاحت کر دی۔ امریکی انتخابات میں مباحث کے دوران امیدواروں کا رویہ ایک باوقار قوم کے امیدواروں کا رویہ ہوتا ہے جس سے ہمارے سیاستدان اور سیاسی ورکر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ان کے امیدواروں میں ہر طرح کے قومی امور پر مکمل دسترس ، خیالات کا واضح اور واشگاف ، علمی اور منطقی انداز میں اظہار، دفاع اور امورخارجہ سے متعلق نازک امور پر قومی مفاد میںخاموشی اختیار کرنا اور دوسروں پر بھونڈے انداز میں الزامات عائد کرنے کے بجائے اپنے پروگرام اور اپنے کام کی بات کرنے کا انداز اگر ہمارے اہل سیاست سیکھ لیں تو قوم کے سارے مسئلے ہی حل ہوجائیں۔
امریکی صدارتی امیدواروں کا یہ آخری مباحثہ ہمیں پاکستان سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کے خدو خال سمجھنے میں بھی بہت مدد دے رہا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کے یہ اہم نکات سامنے آئے :
1۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ملک ہے۔
2۔پاکستان کے پاس ایک سو ایٹم بم ہیں جن کی تعداد میں وہ کسی وقت بھی دوگنا اضافہ کرسکتا ہے۔اس طرح کے ملک سے تعلقات ختم نہیں کئے جاسکتے۔
3۔پاکستان میں القاعدہ ، کے علاوہ حقانی گروپ کے لوگ موجود ہیں ، جو خود پاکستان، افغانستان اور امن عالم کے لئے خطرہ ہیں۔
4۔ پاکستان میں اس وقت آئی ،ایس ، آئی ،کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اس کے بعد فوج کی چلتی ہے اور پھر سول حکومت کی اہمیت ہے۔
5۔ پاکستان سٹیٹ کی حیثیت سے ناکام ہوا تو یہ افغانستان اور امریکہ دونوں کے لئے بہت خطرناک ہوگا۔خاص طور پر اس صورت میں جبکہ اس کے اندر دہشت گرد موجود ہیں اور جوہری اسلحہ بھی۔
6۔ پاکستان کے اندر موجود انتہاءپسند اور دہشت گرد خود پاکستان کے لئے خطرہ ہیں ان سے نجات کے لئے پاکستان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
7۔ہمیں پاکستان کو دی جانے والی امداد کو پاکستان کے اندر سول سوسائٹی کی تشکیل کے ساتھ منسلک کرنا ہوگا ۔
8۔امریکہ کی افغانستان میں کامیابی پر پاکستان کا رویہ بہت اثر انداز ہو گا۔
9۔ ہمیں پاکستان میں ایک زیادہ مستحکم حکومت کے قیام کے سلسلے میں پوری حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے۔
10۔پاکستان کی صحیح سمت میں جانے کے لئے مدد کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ہی افغانستان کو 2014ءکے آخر تک ذمہ داری سنبھالنے کے لئے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
11۔ افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن کا کہنا ہے کہ وہاں امریکن ان گروہوں کے ہاتھو ں مر رہے ہیںجن کی پاکستان مدد کررہاہے۔
12۔ پاکستان نے اس ڈاکٹر کو گرفتار کر رکھا ہے جس نے اسامہ بن لادن کے پکڑنے میں ہماری مدد کی تھی۔
13۔پاکستان کو ہماری طرف سے اربوں ڈالر کی مدد دئیے جانے کے باوجود پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے۔
14۔پاکستان کی امریکہ کے لئے بہت اہمیت ہے اور یہ امریکہ کا اتحادی ہے ، اگرچہ اس کی طرف سے ایک اتحادی کا کردار ادا نہیں کیا جارہا۔
امریکی صدارت کے دونوں امیدواروں کے ان خیالات سے ہمیں دہشت گردی کے خلاف اپنی موجودہ پوزیشن کا علم ہوتا ہے جوکہ امریکی حکومت اور ماہرین کی نظر میں ہے۔اس سے امریکیوں کے ہمارے ساتھ گلے شکوے اور ان کی طرف سے ہمیں اہمیت دئیے جانے کی وجوہ بھی معلوم ہوتی ہیں۔لیکن اندر سے ہماری پوزیشن کیا ہے اور اتحادی افواج کے چلے جانے کے بعد ہم افغانستان اور خطے میں اپنے مفادات کا کس طرح تحفظ کرسکیں گے، یہ سب ہماری ایجنسیوں اور عسکری اور خارجہ امور سے متعلق قیادت کو بہتر علم ہے۔وہی اس سلسلے میں بہتر پالیسی بنا اور اس پر عمل کراسکتے ہیں۔ان کے ساتھ مل کر ہمارے ان سیاستدانوں کو بھی کام کرنا چاہئیے جو طالبان اور دوسرے عسکریت پسند گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ ہم اپنے قومی مفادات کو محفوظ کر سکیں۔عالمی طاقتیں ہمارے خطے کو یقینا اپنی سٹریٹجک ضرورتوں کے مطابق دیکھیں گی لیکن ہمیں ہر حال میں اپنے قومی مفادات کو ذہن میں رکھ کر متحرک ہونا ہے۔
دہشت گردی ہمارے سمیت پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔اس کے خلاف ہم امریکہ اوریورپ کے اتحادی ہیں ۔اگر امریکی الزام درست مان لیا جائے تو پاکستان سے سرحد پار کرکے افغانستان جانے والوں کو روکنے سے ہم اسی طرح مجبور ہیں جس طرح افغانستان اپنی سرزمین سے پاکستان میں آکر کارروائی کرنے والوں کو روکنے میں ناکام ہے۔پاکستانی حکومت کسی بھی طرح کے عسکریت پسندوں کو پاکستان میں جگہ دینے یا سرحد پار کاروائیاں کرنے میں مدد کے لئے تیار نہیں ۔ اس وقت دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار خود پاکستان ہے۔ انتہاپسندوں اوراپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنے کی تمنا رکھنے والوں کے خلاف بھی پوری قوم یک سو ہوچکی ہے۔ سول سوسائٹی کو مضبوط کرکے ملک سے عسکریت اور انتہاء پسندی کا خاتمہ کرنے ، اور فروغ تعلیم کے لئے امریکی حکومت کا تعاون پاکستان میں مستقل امن وامان قائم کرنے اور معاشرتی و سماجی ترقی کے لئے اہم ہے ۔
سیاستی حکومتوں کے بجائے فوجی حکومتوں سے معاملات طے کر لیناامریکہ کے لئے ہمیشہ آسان رہا ہے ، لیکن آمر حکومتیں کبھی ملکی مفادات کے تحفظ میں اس طرح کامیابی حاصل نہیں کرسکتیں جس طرح کہ عوام کی منتخب جمہوری حکومتیں۔ حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے آئین اور قانون کی بالا دستی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا : اگر آئین کی تکریم قائم ہوجائے توپھر سارے مسائل خود بخود حل ہونے لگتے ہیں، اور قومیں زیادہ جرات کے ساتھ خود کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔کیا ہمارے ملک کے تمام ادارے اس بے حد اہم نسخے سے قوم کی بیماریوں کا علاج کرنے کا کبھی سوچیں گے؟