عام آدمی کی گفتگو!
عام آدمی سے مراد وہ پاکستانی ہے،جس کی کمر مہنگائی نے توڑ دی ہے،جس کی کھال ڈاکٹروں نے اُتار لی ہے،جس کے بچے سکول میں داخل نہیں ہو سکتے، جو سارے ملک کے لئے اناج اُگاتا ہے، مگر خود دانے دانے کو ترستا ہے۔مَیں نے دوسرے قلمکاروں سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ کسی مشہور و معروف شخصیت کے انٹرویو کی بجائے کیوں نہ کسی ایسی ہستی کا انٹرویو کیا جائے، جو بالکل واضح طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرے اور ظاہری نمود و نمائش اور دنیاوی لغزشوں سے پاک اپنے دلی جذبات ہم پر عیاں کرے۔اس مقصد کے لئے مَیں نے ایک پسماندہ علاقہ منتخب کیا ، پھر وہاں کے ایک عام پاکستانی کے دروازے پر جا دستک دی....دروازہ کھلا اور چہرے پر بے شمار پریشانیوں کو سجائے بوسیدہ سے لباس میں ملبوس ایک شخص باہر آیا۔اس کے چہرے پر استعجاب تھا، اس نے ملیشیاکی شلوار اور قیمض پہن رکھی تھی۔اس کا چہرہ کروڑوں پاکستانیوں کا چہرہ ہے۔ بال بکھرے ہوئے اور خشک آنکھوں کے گرد مفلسی اور بے اطمینانی کے سیاہ حلقے، آنکھوں میں محنت و مشقت کی زیادتی اور اجرت کی کمی کی زردی۔
اس نے مجھے حیرت اور کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھا۔ مَیں نے اسے سلام کیا اور کہا: ”مَیں آپ سے یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک کے کیا حالات ہیں۔قوم پر مشکل اور کڑا وقت آیا ہوا ہے۔مئی کے مہینے میں ہم لوگوں نے ملک کی باگ ڈور موجودہ حکومت کے نمائندوں کو سونپی تھی، اس امید کے ساتھ کہ حالات سنور جائیں گے، لیکن حالات بدسے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ مَیں اسی سلسلے میں آپ سے انٹرویو لینے آئی ہوں....وہ بڑے غور سے میری بات سن رہا تھا،جب مَیں نے کہا کہ انٹرویو لینے آئی ہوں تو اس کے ہونٹوں پر کھسیانی سی مسکراہٹ آ گئی، پھر اس کا سَر جھک گیا۔دوچار لمحوں بعد اس نے میری طرف دیکھا اور بولا: ”اب تو اپنی جان ہی رہ گئی ہے، آپ کے جس کام آ سکتی ہے لے لیں“.... اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا: ”اب میرے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں رہا“.... اس کی آواز دب گئی اور آنکھوں میں نمی آ گئی۔
یہی تھا وہ پاکستانی جس کی مجھے تلاش تھی۔ہڈیوں کا ڈھانچہ، خون سے خالی۔ اپنا سب کچھ قربان کر دینے والا، مگر اپنے پاس کچھ نہیں ، وہ اپنے آپ کو یہ یقین دلا کر مطمئن کر لیتا ہے کہ گھر میں روپیہ پیسہ آ جائے تو گھر سے ایمان اُٹھ جاتا ہے۔ خدا نے اسے اسی لئے بھوکا ننگا رکھا ہے، تاکہ اس کا ایمان محفوظ رہے....مَیں نے اسے کہا: مَیں تھوڑی دیر بیٹھنا چاہتی ہوں اور اس سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں ۔اس کے بیوی بچوں سے ملنا چاہتی ہوں۔ اس سے کچھ لینا نہیں چاہتی، صرف چند سوال کرنا چاہتی ہوں.... اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔اس نے اپنے دروازے کی طرف دیکھا۔پھر مجھے دیکھا۔وہ تذبذب میں مبتلا ہوگیا تھا۔مَیں نے پھر بڑے ادب سے عرض کیا: ”انکل جی صرف تھوڑی دیر کے لئے آپ کا وقت لوں گی۔ بہرحال اس نے اپنے دروازے سے بوری کا پردہ سرکایا اور مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا....اندر کا ماحول میرے لئے انوکھا نہیں تھا۔یہ میرا اپنا پاکستان تھا،جہاں 5افراد کا کنبہ اتنے سے ایک ہی کمرے میں رہتا ہے۔جتنا بڑا کسی بنگلے یا کوٹھی میں واش روم ہوتا ہے۔اس آدمی کا گھر میرے لئے کوئی نرالی جگہ نہیں تھی، کیونکہ یہی اصل پاکستان ہے....جہاں ایک نوجوان لڑکی، تین چھوٹے چھوٹے بچے، ان کی ماں اور ان سب کے منہ میں اناج کے دوچار دانے ڈالنے کی مسلسل کوشش کرنے والا زرد آدمی رہتا ہے، جو محض آدمی ہے،انسان نہیں رہا۔
مَیں نے جب اس کی نوجوان لڑکی کو دیکھا تو خیال آیا کہ اس نوجوان لڑکی کے باپ کے دل پر کیا قیامت گزرتی ہوگی، وہ جب بھی اپنی اس بیٹی کو گھر سے رخصت کرنے کے بارے میں سوچتا ہوگا۔اس نے جب مجھے کہا کہ یہ میری بیٹی ہے تو اس کا رنگ اور پھیکا پڑ گیا تھا۔مفلس باپ کی جوان بیٹی اس کے لئے قیامت سے کم نہیں ہوتی.... وہ بیٹیاں ایسے ہی باپوں کی ہوتی ہیں جو جوانی میں ہی بوڑھی ہوجاتی ہیں اور ساری عمر اپنے خاوند،خاوند کی ماں، خاوند کے باپ، خاوند کے بھائیوں اور سسرال کے بچے بچے کی خدمت کرتے کرتے اور ان کی ہر اچھی بُری بات سہتے سہتے اور بچے جنتے جنتے جوڑوں کے درد، دمے اور دائمی کھانسی کے روگ سے مر جاتی ہیں، مگر اُف نہیں کرتیں، کیونکہ وہ جانتی ہیں، اگر اُف کیا تو انہیں یہ زہر آلود بول سننا پڑے گا“....اپنے ساتھ کیا لے کر آئی تھی تو؟ ماں باپ نے دو کپڑوں میں رخصت کردیا تھا۔ اس گھر میں آکر تو تجھے پیٹ بھر کے کھانا نصیب ہوا ہے“.... مَیں نے اس سے پوچھا: ”آپ لکھ پڑھ سکتے ہیں؟ ”جی نہیں“.... اس نے جواب دیا کورا اَن پڑھ ہوں۔
وہ چارپائی پر بیٹھا تھا اور مجھے اس نے لکڑی کی سیٹ والی کرسی پر بٹھا دیا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کو آواز دی۔ شانو....شانو پُتر....چائے بناﺅ.... مَیں اس ایک پاکستانی کے روپ میں ان لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کو دیکھ رہی تھی، جنہیں 65برسوں میں بھیڑ بکریوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ڈری، سہمی ہوئی بھیڑ بکریاں۔جب چاہا اور جسے چاہا ذبح کردیا۔کھال اتارلی....مَیں نے اسے بتایا کہ مَیں بھی آپ ہی کی طرح ایک پاکستانی ہوں۔فرق صرف یہ ہے کہ میرے والد نے اپنی مفلسی اور بے بسی پر خوشحالی کا ملمع کیا ہوا ہے، وگرنہ بجلی ،گیس،پانی کے بل سکول و کالج کی بھاری بھاری فیسوں اور سفید پوشی کا بھرم مہینے کے پہلے ہفتے میں ہی کنگال کر جاتا ہے۔
اسے قائل کرکے مَیں سوچنے لگی کہ کسی لیڈر یا وزیرکا انٹرویو لینا کتنا آسان ہوتا ہے۔ٹیلی فون پر یا زبانی ملاقات کا وقت طے کرو اور کاغذ پنسل لے کر اس کے گھر جا بیٹھو۔اپنی تشہیر کی خاطر لیڈر یا وزیر سو طرح کی خاطر تواضع بھی کرتے ہیں ، پھر اپنا ایسا بیان لکھواتے ہیں،جس کا سچ سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا،اگر کہو تو وہ فوٹوگرافر کا بھی خود ہی بندوبست کرلیتے ہیں، مگرمَیں نے انٹرویو کے لئے ایک عام پاکستانی کو منتخب کیا، تاکہ اپنے قارئین کو بتا سکوں کہ ہمارے ملک میں کیسے کیسے پریشان حال لوگ بستے ہیں۔خدارا ان لوگوں کو بھی جینے کا حق دے دو۔ان کے لئے محض وعدے ہی نہ رکھو ،انہیں طفل تسلیوں سے ہی نہ بہلاﺅ، بلکہ عملی طور پر بھی ایسے اقدامات کرو کہ کل کو خدا کے حضور آپ کو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔خیر میری باتوں سے اسے کچھ یقین ہوگیا کہ ہم سب پاکستانیوں کا، یعنی حکمران طبقہ چھوڑ کر باقی سب کا حال ایک جیسا ہی ہے تو اس نے سکون کی گہری آہ لی اور مجھ سے ہی سوال کردیا کہ بیٹا اب کیا ہوگا؟ ملک کا کیا بنے گا؟.... مَیں نے اسے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق جواب دیا تو اس کے چہرے پر رونق کی کرن سی چمکی۔ اس نے دوسرا سوال پوچھا: ”کیا واقعی پاکستان آزاد ہے؟
یہ سوال میرے لئے بڑا ہی تکلیف دہ تھا۔مَیں نے پاکستان کو کبھی بھی غلام نہیں سمجھا تھا۔مَیں تعلیم یافتہ ہوں۔تعلیم میں یہی خوبی ہے کہ انسان عملی دلائل سے غلامی کو آزادی ،بے غیرتی کو غیرت، بے حیائی کو تہذیب اور گمراہی کو راہ راست ثابت کرلیتا ہے۔ یہ علم کا ہی کرشمہ ہے کہ ہم نے ملک میں جنسی بے راہ روی اور فحاشی کو دورِ جدید کی نفسیاتی ضرورت ثابت کرکے جائز قرار دے دیا ہے، لیکن بے علم انسان لغت کے بکھیڑوں، علم کے حسین فریب اور منطق کے گورکھ دھندوں سے آزاد ہو کر سیدھی سی بات کرتا ہے،جسے ہم پڑھے لکھے کہا کرتے ہیں کہ گنوار آدمی بات نہیں کرتا، لٹھ مارتاہے۔ اب اس آدمی نے لٹھ ماری تو میری کوئی دلیل اسے قائل نہ کر سکی۔وہ اسی پر ڈٹا رہا کہ پاکستان غلام ہے، اب شائد آزاد ہو جائے۔ وہ اچانک بھڑک اٹھا، کہنے لگا۔ ”مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب مَیں نے نعرہ لگایا تھا: ”بٹ کے رہے گا ہندوستان ،لے کے رہیں گے پاکستان“۔ میری عمر کے نوجوانوں نے ہندوﺅں اور انگریزوں کے ظلم و ستم سہے۔ہم سب غریبوں کی اولاد تھے،ہم میں سے بہت سے اپنے بوڑھے باپوں کے سہارے تھے، مگر ہم سب نے والدین کو بے سہارا کرکے انگریز جیسی جابر اور ظالم طاقت اور ہندو جیسی عیار اور فریبی قوم کو شکست دی اور پاکستان بنا لیا۔
مگر افسوس ہم نے پاکستان میں وہ وقت دیکھا کہ ہم اپنوں کے غلام ہوگئے اور کچھ نہ کر سکے۔قرآن کی سرزمین میں اپنوں نے قرآن جلا ڈالا،ہم پھر بھی کچھ نہ کر سکے، کیونکہ ہم مر گئے ہیں۔مسلمان نعروں پر زندہ رہتا ہے، لیکن ہمارے سربراہوں نے ہمارا نعرہ شہید کردیا۔انگریز نے اَن گنت مسلمانوں کو شہید کردیا تھا، لیکن نعرہ زندہ رہا تھا۔اب وہ نعرہ مر گیا۔مَیں مرگیاں ہوں، عام پاکستانی مر گیا ہے.... مَیں نے اپنے نعرے کو زندہ رکھنے کی بہت کوشش کی تھی۔ ایک روز میرے بچے بھوک سے بلبلانے لگے۔اسی رات بارش برسنے لگی۔میری جُھگی ڈوب گئی۔مَیں بھوکے بچوں اور ان کی ماں کو ساتھ لئے سڑک پر نکل گیا۔درختوں تلے سَر چھپایا، پھر ایک کوٹھی میں جا گھسا تو کوٹھی والوں نے دھتکار دیا۔
یہ اس وقت کی بات ہے، جب پاکستان بنے بہت سال گزر چکے تھے۔میرے ہاں دوبچے پیدا ہوئے۔پہلی یہ بچی تھی، دوسرا بچہ چھوٹا تھا، اسے بارش سے بہت بچایا، مگر وہ بھیگتا رہا اور دو روز بیمار رہ کر مرگیا۔مَیں اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے کر نہ جا سکا، کیونکہ دوائی کے لئے پیسے نہیں تھے۔میرا جسم اور میرا ایمان بھوک اور بارش سے شکست کھانے والا نہیں تھا، مگر مجھے بچوں نے شکست دے دی اور میرے سینے سے نیا نعرہ نکلا: ”روٹی، روٹی“ ....پھر بادشاہ بدلتے رہے ،جو بھی نیا بادشاہ آیا ،اس نے یہی ایک بات کہی کہ مَیں غریبوں کو روٹی اور کپڑا دوں گا،کسی نے بھی یہ نہ کہاکہ مَیں تمہیں خود داری اور وقار دوں گا مجھے اس قدر مجبور و بے بس کردیا گیا کہ مَیں ایک ہی بات سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ بچوں کو روٹی کھلاﺅ، خواہ کسی بھی طریقے سے“۔
مَیں یہ ساری باتیں جانتی ہوں....مَیں نے اسے ٹوک دیا اور کہا: ” مَیں بھی اسی معاشرے کی ایک فرد ہوں، اس وقت اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ میرے لئے اور کسی بھی پاکستانی کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔آپ کیآپ بیتی کوئی انوکھی یا نرالی نہیں،یہ ہر پاکستانی کی بپتا ہے۔مجھے یہ بتایئے کہ پاکستان کے موجودہ حالات سے آپ مطمئن ہیں؟ ساتھ ہی مَیں نے کہا، دیکھو ناں بزرگو! انقلاب چند دنوں میں مکمل نہیں ہو جایا کرتا“....موجودہ حکومت کے سامنے کیسی کیسی مشکلات اور کیسے کیسے مسائل ہیں جو حل ہوتے کچھ وقت لگے گا غریبوں کو روٹی کپڑا ملے گا....”آپ نے بھی روٹی کی ہی بات کی“.... اس نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا: ”مَیں تو اس روز سمجھوں گا کہ انقلاب مکمل ہوگیا ہے ،جس روز مجھے میرا ایمان واپس مل جائے گا۔یہی تو مَیں آپ کو بتا رہا تھا کہ جب میرا نعرہ شہید ہوگیا اور اس کی جگہ مجھے روٹی کا نعرہ دیا گیا تو مَیں بے ایمان ہو گیا۔ میری بے ایمانیوں کی کہانی صرف میری نہیں۔ نجانے مجھ جیسے کتنے اپنے بچوں کی خاطر اپنا ایمان اور اپنی غیرت بیچ بیٹھے ہیں“۔
مَیں خاموشی سے اسے تکتی رہی اور وہ مسلسل بولتا رہا.... غریب آدمی ہزاروں اورلاکھوں روپوں کی بے ایمانی نہیں کر سکتا۔سمگلنگ اور چور بازاری نہیں کرسکتا، بینکوں کی تجوریاں نہیں توڑ سکتا ، وہ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہے کہ مسجد سے ایک جوڑا جوتے اٹھا لائے گا۔کسی کا کچھ گر پڑے تو وہ اٹھا کر جیب میں ڈال لے گا، بوقتِ ضرورت جھوٹ بول دے گا....کچھ ایسے ہی گناہ تھے جو مَیں بھی کرتا رہا۔اگر آپ چاہیں تو آج ہر شخص ان چھوٹے چھوٹے گناہوں میں مبتلا دیکھ سکتی ہیں، لیکن ہمارا جو سب سے بڑا المیہ ہے،وہ یہ ہے کہ ہم ان گناہوں کو گناہ سمجھتے ہی نہیں۔ہم حکمرانوں پر طرح طرح کے الزامات داغتے ہیں۔حکمرانوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔مانا ٹھیک کہتے ہیں، ہمارے حکمران بھی تو ضمیر فروش ہیں، مگر کیا کبھی ہم نے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھا ہے کہ ہم کون سے پارسا ہیں۔
مَیں پانچ ماہ بے روزگار پھرتا رہا۔گھر میں فاقے ہوئے، بیوی سے لڑائی جھگڑا ہوا، آخر ایک روز ایک دفتر میں مجھے چپڑاسی رکھ لیا گیا، اب وہیں کام کرتا ہوں۔مَیں دفتر میں چپڑاسی ہوں، کسی ایک صاحب کا چپڑاسی نہیں ہوں، یعنی کسی گھر میں کسی بڑے آفیسر کا چپڑاسی نہیں ہوں، وگرنہ اس کی بیگم اور بیٹیوں کو ان کے ”خاص“ دوستوں سے ملوانے یا ان کے پیغامات پہنچا کر آمدنی زیادہ کرلیتا۔مَیں کلرکوں کے دفتر کا چپڑاسی ہوں، رشوت چلتی ہے،جس میں سے مجھے بھی تھوڑا سا حصہ مل جاتا ہے۔کلرک بڑے بے ایمان ہیں، بعض اوقات مجھے پتہ نہیں چلتا تو وہ ساری رشوت ہضم کرلیتے ہیں، جس اسامی کو میری معرفت گانگٹھتے ہیں، اس سے کچھ مل جاتا ہے، لیکن مَیں اس جان لیوا مہنگائی میں روز جیتا ہوں ،روز مرتا ہوں، اپنے کنبے کو پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھلا سکتا۔ان میں کوئی بیمار ہو جائے تو علاج نہیں کروا سکتا۔بیٹی جوان ہوگئی ہے۔کوئی ایسا آدمی دیکھ رہا ہوں جو اسے بغیر جہیز کے بیاہ لے جائے، لیکن شائد ایسا ممکن نہیں۔کاش ایسا ہو جائے،اے کاش....!
اس نے آہ بھر کے کہا....”لیکن یہ نہ سمجھ لینا کہ مَیں دیانت دار ہوگیا ہوں۔جی نہیں۔مَیں ریل گاڑی سے کبھی سفر کروں تو بے ٹکٹ سفر کرتا ہوں، جس کرسی پر آپ بیٹھی ہو، یہ دفتر سے چُرا لایا تھا، ایسے چھوٹے چھوٹے بے شمار گناہ ہیں، جو کرتا رہتاہوں، مگر دیکھ رہا ہوں کہ ایمانداری بھی میرے بچوں کو روٹی نہیں دے سکی۔بے ایمانی بھی نہیں دے سکتی.... کیا مَیں ڈاکے ڈالوں؟ چوریاں کروں؟.... مَیں تو اس روز کہوں گا، انقلاب آ گیا ہے جس روز مَیں اس قابل ہو جاﺅں گا کہ ریل گاڑی میں ٹکٹ لے کر سفر کروں“....جب مَیں اس کے گھر سے نکل رہی تھی تو اس نے کہا.... بیٹی! یہ کہانی مجھ اکیلے کی نہیں، اس بستی کے کسی آدمی کو سامنے بٹھا لو....وہ تمہیں ایسی ہی کہانی سنائے گا“۔ ٭