اسلام آباد کی بندش سنگین جرم ہے
’’احتجاج کرنا جمہوری حق ہے‘‘ اِس میں کوئی شک نہیں،لیکن اِس کے ساتھ ہمیشہ ’’پُرامن‘‘ کا اضافہ ضروری ہے۔ پُرامن احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے۔ اگر یہ پُرامن نہ ہو تو یہ حق نہیں رہتا، جرم بن جاتا ہے۔ امریکہ میں یہ حق استعمال کرنے کے لئے پہلے تو اجازت لینا پڑتی ہے اور شہری کو حکومت کسی ایسی جگہ احتجاج کی اجازت نہیں دیتی، جہاں معمولاتِ زندگی میں خلل واقع ہو۔ اجازت لینے والوں کو یہ ضمانت دینا ہوتی ہے کہ عوام کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو گی۔احتجاج کرنے والے اجازت یافتہ حدود میں ہی رہیں گے باہر نہیں نکلیں گے۔ اُن حدود میں قانونی حدود بھی شامل ہیں اور مادی حدود بھی۔وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ اور یو این او کے سامنے مظاہرہ جیسی خبریں جو آپ پڑھتے رہتے ہیں ان کے مظاہرین وائٹ ہاؤس سے بہت دور وائٹ ہاؤس کے سامنے ایک پارک میں کتبے تھام کر چکر لگاتے اور نعرے بلند کرتے ہیں۔اُن کی آواز تو و ائٹ ہاؤس تک کیا پہنچتی ہو گی وائٹ ہاؤس کی کسی بالکنی سے اُن کی شکلیں بھی دھندلی دھندلی ہی نظر آتی ہوں گی۔اسی پارک میں ایک خاتون طویل ترین دھرنے کے بعد ملکِ عدم کو سدھار گئی،لیکن وائٹ ہاؤس کے کسی مکین نے اُس کا نوٹس تک نہیں لیا۔و ہ امن امن جپتی رہی اور وائٹ ہاؤس سے عراق، افغانستان میں فوجوں کو جنگ کے احکامات جاری ہوتے رہے۔
مَیں ذاتی طور پر ان دونوں مقامات کے احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ احتجاج کرنے والا کوئی شخص کسی سے بات کرنے یا کسی کو پوسٹر پکڑانے کے لئے بھی ’’پولیس لائن‘‘ سے دوسری طرف چلا جائے تو فوراً کوئی پولیس والا آ کر اُسے واپس جانے کا کہتا ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ پولیس کے اس حکم سے سرتابی کر سکے،کیونکہ اس پر پولیس اُسے گرفتار کر سکتی ہے اور گرفتاری کے وقت ذرا سے ہاتھ پاؤں مارنا اور یہ کہنا کہ مجھے کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے ایک اور سنگین جرم ہے،یعنی ’’گرفتاری میں مزاحمت‘‘ کا جرم، جس کے لئے عدالت میں صرف پولیس والے کا بیان کافی ہے کہ جب مَیں نے اُسے گرفتار کرنا چاہا، تو اس نے مزاحمت کی۔ اب کوئی اور ایسی ویڈیو پیش کر دے، جس کے مطابق آپ نے نہایت شرافت سے اپنے دونوں ہاتھ آگے کر کے ہتھکڑی پہننے کے لئے پیش کر دیئے ہوں تو یہ الگ بات ہے،لیکن اب پولیس نے ایسی ویڈیو بنانے کو بھی جرم قرار دے دیا ہے۔ ایسی ویڈیو بناتے ہوئے آپ پکڑے گئے تو آپ کا کیمرہ یا موبائل فون بھی ضبط ہو جائے گا اور آپ کو چند روز کی قید بھی بھگتنا پڑ سکتی ہے۔گویا پُرامن احتجاج میں بھی احتجاج کو اس کی حدود میں رکھنا قانون کا تقاضا ہے۔
آپ اپنے احتجاج کو کتنا ہی پُرامن قرار دیتے ہیں، اگر آپ پولیس لائن کراس کر کے دوسری طرف چلے جاتے ہیں، جہاں سے پولیس نے ٹریفک گزرنے کا بندوبست کر رکھا ہے تو آپ ٹریفک میں خلل ڈالنے کے مجرم ٹھہرتے ہیں۔ آپ پولیس کے کہنے پر اپنی حدود میں نہیں واپس آئے تو آپ کو زبردستی اُٹھا کر اپنی حدود میں بھی لایا جا سکتا ہے اور گرفتار کر کے تھانے بھی لے جایا جا سکتا ہے۔
جب ’’وال سٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ مہم جاری تھی تو ایک جگہ ایک خاتون کو گرفتار کرنے پر پولیس کو بھاری ہرجانہ بھرنا پڑا تھا،لیکن نیو یارک میں ایک خاتون کو گرفتار کیا گیا،اُس نے فوٹو گرافروں کے سامنے چھاتیاں برہنہ کر کے دکھا دیں جن پر کھرونچوں کے نشانات تھے اُس کا موقف تھا کہ پولیس نے اُس کے خلاف ’’غیر ضروری طاقت‘‘ کا استعمال کیا۔ عدالت نے اُس کی نہ سُنی اور اُسے ٹریفک میں خلل ڈالنے کے جرم میں قید کی سزا سُنا دی۔ اُس وقت ’’وال سٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ مہم عروج پر تھی اور ہزاروں لوگ ایک پارک میں دھرنا دیئے بیٹھے تھے،لیکن کوئی اُس عورت کو پولیس کے ہاتھوں سے چھڑانے کو نہیں آیا، نہ اس پر کوئی احتجاج ہوا۔بالآخر اس پارک میں بھی دھرنے کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا اور عدلیہ کے حکم پر پارک کو خالی کرا لیا گیا۔
جب عمران خان نے اسلام آباد کوبند کرنے کا اعلان کیا تو عوام اور تاجروں کا ردعمل سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس غیر قانونی کام کو روکنے کے لئے مزاحمت کریں گے، تو عمران خان نے کہا کہ وہ عوام اور کاروبار کو بند نہیں کریں گے۔لیکن دفاتر کو جانے والے ملازمین کو روکیں گے۔ اس بیان سے گویا انہوں نے خود ’’کار سرکار‘‘ میں مداخلت کا اقرار کر لیا۔ نیو یارک یا امریکہ میں پولیس کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کیوں جرم ہے،اِس لئے کہ بین الاقوامی طور پر کسی بھی طرح سرکاری کام میں مداخلت جرم ہے اور عمران خان مداخلت ہی کاجرم کررہے ہیں جو
Obstruction of Governmental
adminustrationکہلاتا ہے اور اگر حنیف عباسی کے الزامات درست ہیں، کیونکہ عمران خان ان الزامات کے خلاف عدالت میں نہیں گئے۔ تو یہ Appearance in public under the influence of norcotic or drug کے زمرے میں آتا ہے اور یہ دونوں سنگین جرائم ہیں۔
اب عمران خان اور اُن کی جماعت کے ان دعوؤں کا بھی جائزہ لے لینا چاہئے، جن کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔جمہوریت تو اداروں پر اعتماد کا نام ہے اور جمہوریت حکومتوں کے قیام اور حکومتوں کی رخصتی کے اصولوں اور ضابطوں کو تسلیم کرنا ہے، کسی کی رہائش پر چڑھائی کر کے کسی دارالحکومت کو بند کر کے کسی وزیراعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا کسی بھی طرح جمہوری طرز عمل نہیں ہے، بلکہ جمہوریت دشمنی ہے۔ اب صرف زبانی یہ کہتے جانا کہ ہم جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے،لیکن عمل جمہوریت کے خلاف کرنا صریح جھوٹ اور بددیانتی ہے۔ عمران خان اور ان کے پیچھے جو بھی لوگ ہیں اُنہیں پاکستان اور جمہوریت سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ایک آمر اور اپنے دور میں مُلک دشمن پالیسیوں کے لئے بدنام عدالت سے جھوٹ بول کر بیرون مُلک فرار ہونے والے اور اپنی کتاب میں اپنے مُلک کے لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کرنے والے پرویز مشرف نے تو عمران خان کو کھل کر ہلا شیری دے دی ہے اور اسلام آباد کو بند کرنے ہی کی حمایت نہیں کی بلکہ اسے آخر تک لے جانے، یعنی نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے، لیکن اسلام آباد بند کر دیاجاتا ہے۔ عمران خان کو اسلام آباد بند کرنے کی کوشش کے دوران پولیس اور انتظامیہ کے ایکشن کے نتیجے میں چند لاشیں میسر آ جاتی ہیں،جن کے لئے وہ بہتیری کوششیں کر رہے ہیں ان واقعات اور بھارت کے ساتھ جاری معاملات کو جواز بنا کر کوئی طالع آزما جمہوریت کا بستر گول کر دیتا ہے تو اُس جمہوریت کے دعویدار اور جمہوریت کو نقصان نہ پہنچانے کے عزائم کہاں جائیں گے؟اور کیا کر لیں گے، زیادہ سے زیادہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے لئے ’’بحال�ئ جمہوریت کی تحریک‘‘ شروع کر دیں گے،لیکن اس کی کامیابی تک جو نقصان ہوچکا ہو گا، اُس کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی؟
کسی کالم نگار نے اِن ہی دِنوں لکھا تھا کہ عمران خان کو کرپشن سے کوئی پریشانی ہے نہ وہ کرپشن کے خلاف موثر قانون سازی چاہتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ خیال سو فیصد درست ہے۔وگرنہ عمران خان کرپشن کے خاتمے کے لئے کسی قانون سازی کی کوشش تو ضرور کرتے، کوئی ایسا قانون جو ماضی کی کرپشن کی تحقیق و تفتیش کرتا اور مستقبل کی کرپشن کا سدِباب کرتا،لیکن وہ کرپشن کے خاتمے سے زیادہ وزیراعظم کے استعفے کی رٹ لگا رہے ہیں،حالانکہ انہوں نے سوئس بینک میں پڑی ہوئی اس دولت پر جس نے ایک وزیراعظم کے اقتدار کی بھینٹ لے لی تھی، کوئی شور نہیں مچایا اور اب تو وہ اُنہیں یاد بھی نہیں ہے۔
اُنہیں این آر او پربھی اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی، جس کے ذریعے کرپشن سے لے کر قتل تک کے جرائم کو تحفظ دے دیا گیا تھا، بلکہ نوبت بایں جارسید کہ جن کے خلاف وہ کرپشن کے ثبوت لے کر پھرا کرتے تھے ،اب اُنہیں اپنے ساتھ ملانے کے لئے منتیں ترلے کرتے پھرتے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان ’’سی پیک‘‘ کے مخالفین کے مقاصد پورے کر رہے ہیں۔ اس خیال کو اِس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ اُن کے زیر انتظام صوبے کے وزیراعلیٰ آئے روز سی پیک کو متنازعہ بنانے کے لئے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیتے ہیں۔ سی پیک کی مخالفت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ چینی سفیر نے عمران خان کو دعوت دے کر بلایا اور انہیں حکومت کو غیر مستحکم کرنے سے سی پیک کو پہنچنے والے نقصان سے خبردار کیا، لیکن عمران خان نے محض یہ کہہ کر کہ وہ سی پیک کے مخالف نہیں، اس سنجیدہ معاملے کو نظر انداز کر دیا۔’’ہم جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ‘‘کے کھوکھلے بیان کی طرح ’’ہم سی پیک کے مخالف نہیں‘‘ ایک اور کھوکھلا اور غیر حقیقی دعویٰ ہے،ان کا عمل جس کی تائید نہیں کرتا۔
عمران خان کے گزشتہ دھرنے سے چینی صدر کا دورۂ پاکستان تاخیر کا شکار ہو گیا تھا،لیکن عمران خان نے کنٹینر پر چڑھ کر با ر بار یہی کہا کہ چینی صدر کے دورے کا کوئی پروگرام تھا ہی نہیں۔ وہ حکومت اور وزیراعظم کو مُنہ بھر بھر جھوٹا کہتے رہے، لیکن بالآخر ثابت یہ ہوا کہ عمران خان یا تو بہت بے خبر شخص ہیں، یا پھر جھوٹ نہ بولنے کے وعدے کے باوجود جھوٹ بولنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ماسوائے اُن لوگوں کے ،جو نواز شریف سے ذاتی پرخاش رکھتے ہیں اور رات دن یہ خواب دیکھتے ہیں کہ اُن کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے، خواہ پھر کچھ بھی ہو، بہت بڑی اکثریت پوری دل سوزی اور جذب�ۂ حب الوطنی کے تحت یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کی سیاست بالعموم اور اسلام آباد کو بند کرنے کی کارروائی بالخصوص جمہوریت اور سی پیک دونوں کیلئے تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ جمہوریت ڈی ریل ہو گئی تو سی پیک لامحالہ خطرات سے دوچار ہو جائے گی اورنہیں تو کم از کم تاخیر کا ضرور شکار ہو جائے گی، جس دلیل سے جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اُسی دلیل کے تحت موجودہ جمہوری نظام کا تسلسل بھی ضروری ہے۔