نیشنل پولیس بیورو کے 2ارب کے فنڈز آئی ایس آئی کومنتقل کردیئے گئے
اسلام آباد(ویب ڈیسک) پبلک اکاﺅنٹس ذیلی کمیٹی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیشنل پولیس بیورو کے 2 ارب روپے سے زائدکے فنڈز اصل مقصدپر خرچ ہونے کے بجائے آئی ایس آئی کو ٹرانسفر کردیے گئے8 سال پرانا معاملہ کمیٹی نے ایک بار پھر موخر کردیا۔
کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر خودکش حملے، 61اہلکار شہید ، 120زخمی
روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق داخلہ حکام نے بتایاکہ پراجیکٹ مکمل ہو گئے ہیں جبکہ پنجاب اور سندھ رینجر ز کے پینشن اور جی پی فنڈز سے 40 لاکھ روپے سے زائد دھوکہ دہی سے نکلوالیے گئے،رینجرز حکام معاملہ نمٹانے کی استدعا کرتے رہے کمیٹی نے ریکوری یا سیکرٹری داخلہ کو مطمئن کرنے کی ہدایت کردی۔ پبلک اکاﺅنٹس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس پیر کوکنونئیر کمیٹی رانا افضال کی زیر صدارت ہوا جس میں وزارت داخلہ کے مالی سال 1999تا2009ءتک کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں پاکستان رینجرز کے1999-2000 کے آڈٹ اعتراضات کے دوران آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ پنجاب رینجرز کے پینشن اکاﺅنٹس سے 30 لاکھ روپے سے زائد نکلوا لئے گئے ہیں جس پر ممبر کمیٹی محمود خان اچکزئی نے کہاکہ 17سال گزر گئے ہیں اور ریکوری نہیں ہوسکی ہے۔
2نومبر انقلاب کا دن ہے ،طاہر القادری کو منت سماجت کر کے منایا : شیخ رشید
پنجاب رینجرز کے حکا م نے بتایاکہ یہ معاملہ ہم خود سامنے لائے ہیں اور اس بارے انکوائری کی ہےاور اس میں 25 اہلکار ملوث تھے جن کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے اس میں سے کچھ ریکوری ہوگئی ہے 6 لاکھ جن کے ذمہ تھے وہ فوت ہوگئے ہیں جبکہ 15 لاکھ روپے تین افراد کے ذمہ ہیں جو اشتہار ی قرار دے دیے گئے ہیں جن سے اب ریکوری ممکن نہیں ہے اس لیے ان کو معاف کردیا جائے اور معاملہ نمٹا دیا جائے۔محمو د خان اچکزئی نے کہاکہ 17 سال پرانے معاملے ہیں اور اس میں سے عبارت تک کو تبدیل کرنے کی زحمت نہیں کی گئی ہے پھر تو یہ اعتراضات کی ساری کتاب کو معاف کرنا پڑے گا۔ کمیٹی نے کہاکہ آپ سیکرٹری داخلہ کو مطمئن کرلیں یاپھر ریکوری کریں۔ا جلاس میں بتایاگیا کہ ستلج رینجرزکے جی پی فنڈ ز سے 16لاکھ روپے سے زائد رقم دھوکہ دہی سے نکلوا لی گئی۔ رینجز حکام نے بتایاکہ 9 لاکھ روپے کی ریکوری ہوگئی ہے اس معاملے کو بھی اول الذکر کےساتھ منسلک کر دیا گیا۔ اس موقع پر کوسٹ گارڈز کے کرنل عامر نے کہاکہ ویلفئیرفنڈز آڈٹ ایبل نہیںہوتا جس پرکنونئیر کمیٹی نے کہاکہ یہ آڈٹ ایبل ہوتا ہے۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ ویلفئیر فنڈآڈٹ ایبل ہوتا ہے۔
ا جلا س میں14آڈٹ اعتراضات رولز نہ ہونے کے باعث موخر کردیے گئے۔ کمیٹی نے رولز بنانے کیلئے تین ماہ کی مہلت دے دی۔ آڈٹ حکام نے بتایاکہ ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹرز جنرل غلام اصغر ملک اور اے رحمان ملک کے ذمہ ٹیلی فون بلز کی مد میں 20 لاکھ واجب الادا ہیں جس پر داخلہ حکام نے بتایاکہ رحمان ملک نے رقم ادا کردی ہے جبکہ غلام اصغر کے ذمہ نو لاکھ واجب الاد ا ہیں جس پر کنونئیرکمیٹی نے سنجیدہ ہوکر پوچھاکہ غلام اصغرکدھر ہیں تووزارت داخلہ کےا فسرنے انتہائی معصومیت سے کہا کہ گھر ہونگے جس پر پوری کمیٹی کھلکھلا کرہنس پڑی۔ ممبر کمیٹی نے کہاکہ آپ سمجھدار ہیں اپنے افسر کے شہید ہونےکاانتظار کرتے ہیں،ہمارا معاملہ ہوتا تو 1892 کا اعتراض بھی نکال لاتے۔ اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایاکہ وزارت کے سیکرٹ سروس فنڈز میں سے آئی جی پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے کو فنڈز دے دیے گئے۔ا جلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیاکہ نیشنل پولیس بیورو کے 2ارب 13کروڑ36لاکھ روپے مالی سال 2005تا2007کے دوران ایک دوسری گورنمنٹ ایجنسی کو دے دیے گئے یہ فنڈز خود کار نظام برائے شناخت نشانات انگلیاں ، پولیس ریکارڈ اور آفس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم ، نیشنل انٹیگریٹڈ ٹرنک ریڈیوسسٹم کی تنصیب سےنکالے گئے تھے اور اس کام پر خرچ ہونے کے بجائے دوسری ایجنسی کو دے دیے گئے جس پر ممبر کمیٹی محمود اچکزئی نے کہاکہ یہ دوسری ایجنسی کون سی ہے بتایا جائے کچھ دیر خاموشی کے بعد خود ہی گویا ہوئے کہ یہ آئی ایس آئی کو دے دیے گئے جس پر آڈٹ حکام نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بتایا کہ جی یہ فنڈز آئی ایس آئی کو ٹرانسفر کردیے گئے۔
روزنامہ پاکستان کی تازہ ترین اور دلچسپ خبریں اپنے موبائل اور کمپیوٹر پر براہ راست حاصل کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
میاں منان نے کہاکہ 2012میں پی اے سی نے اس اعتراض بارے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کی تھی اس کاکیا ہوا جس پر کوئی جواب نہ دیا گیا۔ وزارت داخلہ کے حکام نے بتایاکہ ان پراجیکٹس پر پی سی 4 جمع کرا دیا گیا ہے اور یہ پراجیکٹس مکمل ہوگئے ہیں جس پر کمیٹی نے مزید بحث کیلئے معاملہ موخر کردیا۔اجلاس میں کمیٹی نے سٹیمپ ڈیوٹی اور رجسٹریشن فیس کی مد میںعدم وصولیوں کی وجہ سے ہونےوالے لاکھوں روپے کے نقصان پر داخلہ کے حکا م سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔