پابھینس چوری جیسے مقدمات

کستان کی ستر سالہ تاریخ میں سیاسی بنیادوں پر کسی مخالف کو پھنسانے کے لئے جھوٹے مقدمات بنانے کی روایت موجود ہے۔ ویسے تو فہرست بہت طویل ہے لیکن چوہدری ظہور الہی پر بنائے جانے والے مقدمے کو سیاسی انتقامی کارروائی کے لئے ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہے،چوہدری ظہور الہی پر بھینس چوری کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔
پچاس باون سال پہلے ایوب خانی مارشل لاء کے دور کی بات ہے ، ون یونٹ کا دور تھا اور نواب کالاباغ امیر محمد خان مغربی پاکستان کے گورنر تھے، یعنی کراچی سے چترال تک ملک کا پتہ پتہ بوٹا بوٹا ان کے جلالی حکم کے تابع تھا۔
نواب آف کالا باغ کی چوہدری ظہور الہی سے کھلی سیاسی لڑائی تھی ، نواب صاحب چونکہ ایک با اختیار گورنر تھے کہ جو چاہتے کزرتے تھے اس لئے انہوں نے سوچا کہ چوہدری صاحب کو نیچا دکھانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں ایک ایسے مقدمے میں پھنسا دیا جائے جس میں ان کی تذلیل ہو، چنانچہ ڈپٹی کمشنر کو حکم دیا گیا جس پر وہ فوری حرکت میں آئے اور چوہدری ظہور الہی جیسے معزز سیاستدان پر بھینس چوری کا مقدمہ بنا دیا گیا۔
یہ الگ بات ہے کہ جس پر مقدمہ بنا وہ تو ذرا سا بھی ذلیل نہیں ہوا لیکن بنانے والے ہمیشہ اپنا منہ چھپاتے ہی پھرے کیونکہ مقدمہ سیاسی مخالفت کی وجہ سے بنایا گیا تھا اور ملک کا شائد ہی کوئی شخص ایسا ہو گا جسے معاملہ کی اصلیت نہ معلوم ہو۔
بھینس چوری کا مقدمہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جو اس سے پہلے اور بعد کے تمام ادوار کی بھیانک لیکن درست تصویر کشی کرتا ہے۔ فوجی جرنیلوں کے لگائے ہوئے مارشل لاؤں میں سیاست دانوں کو رگڑا دینے کے لئے مقدمات ہوں جس میں ایوب خان کا بنایا ہوا ایبڈو کا نا اہلی کا قانون ہویا پرویز مشرف کی بنائی ہوئی نیب کے ذریعہ سرور روڈ تھانے میں تشدد کرکے پیٹریاٹ بنانے کی کاروائی، بار بار بھینس چوری میں پھنسانے جیسی ذہنیت ہی نمایاں رہی۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری آمریت کے دور کا دلائی کیمپ ہو جہاں سیاسی مخالفین کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا جاتا تھا یا انیس سو نوے کے جمہوری ادوار کی سیاسی لڑائیاں جن میں مخالفین کی تذلیل اور سیاسی طور پر بلڈوز کرنے کے لئے ہر حربہ جائز سمجھا جاتا تھا، گویا پاکستان کی پوری تاریخ میں’’ بھینس چوری‘‘ جیسے مقدمات ہی بنتے رہے ہیں۔
یہ ذہنیت آج بھی اسی شدو مد سے نہ صرف جاری ہے بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ملک میں جس پارٹی کی حکومت ہو اس کے ایسے لیڈر کو بھی ’’بھینس چوری‘‘ جیسے مقدمہ میں تذلیل کرکے نکالے جانے کے لئے پھنسا دیا جائے جسے عوام نے بھاری اکثریت سے منتخب کر رکھا ہو۔
اگرچہ ہم پچھلے سترہ اٹھارہ سال سے دیکھ رہے تھے کہ نیب جیسے ادارے احتساب کے نام پر صرف سیاسی مخالفین کا بازو مروڑنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں، ایسا تو چاروں مارشل لاؤں میں بھی نہ ہوا تھا ، پہلے منتخب وزیر اعظم کو ہٹانے کے لئے اس کی پارٹی کی حکومت بھی ختم کی جاتی تھی لیکن اس دفعہ حکومت قائم رکھتے ہوئے وہی سب کچھ کیا جا رہا ہے جو پہلے آمریت کے ا دوار میں کیا جاتا رہا تھا۔
مقبول سیاسی لیڈروں کی تذلیل کوئی نئی بات نہیں ۔ ایوب خان کے فوجی آمریت کے دور میں اگر چوہدری ظہور الہی کے خلاف بھینس چوری کا جھوٹامقدمہ بنایا گیا تھا تو ان کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری آمریت کے دور میں بھی بے شمار جھوٹے مقدمات بنائے گئے تھے۔ایسا ہی ایک جھوٹا مقدمہ میں نے بہت قریب سے دیکھا، ہوا یوں کہ چوہدری ظہور الہی نے چارسدہ کے ولی باغ میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بہت جوشیلی تقریر کی جس پر ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر ان کے خلاف لاہور کے تھانہ پرانی انارکلی میں ایک جھوٹا پرچہ درج کر لیا گیا۔
بات صرف مقدمہ تک ہی نہیں بلکہ چوہدری ظہور الہی کی تذلیل کرنے کے لئے آئی جی پنجاب صاحبزادہ رؤف علی خان کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ جب پنجاب میں داخل ہوں تو انہیں گرفتار کرکے پولیس کی معیت میں جوتوں کا ہار پہنا کر گجرات شہر سے گذارتے ہوئے لاہور لے جائیں تاکہ چوہدری صاحب کی خوب تذلیل ہو سکے۔ آئی جی پنجاب نے ایس ایس پی راولپنڈی سردار محمد چوہدری کو حکم دیا کہ ضلع کی حدود میں داخل ہوتے ہی چوہدری ظہور الہی کو گرفتار کرکے تذلیل کرنے والے حکم کی تعمیل کی جائے۔
اس حکم کے نتیجہ میں جب چوہدری ظہور الہی ضلع راولپنڈی میں داخل ہوئے تو انسپکٹر ملک وارث نے انہیں گرفتار کرکے ایس ایس پی راولپنڈی کے سامنے پیش کر دیا۔ سردار محمد چوہدری ایک پروفیشنل پولیس افسر تھے چنانچہ انہوں نے چوہدری ظہور الہی سے وعدہ لیا کہ وہ صبح خود لاہور کے تھانہ پرانی انارکلی پہنچ کر گرفتاری دے دیں گے، انہیں رات گھر بسر کرنے کے لئے جانے دیا اور اس طرح ایک معزز لیڈر کو ناجائز تذلیل سے بچا لیا ۔
چوہدری ظہور الہی ایک وضع دار شخص تھے چنانچہ اگلی صبح انہوں نے خود تھانہ پرانی انارکلی جا کر گرفتاری دے دی ۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک منتقم مزاج انسان تھے لہذا ان کا غصہ دیدنی تھا کہ چوہدری ظہور الہی تذلیل سے کیسے بچ گئے۔کچھ ہی دنوں بعد چوہدری ظہور الہی نے کراچی کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں دوبارہ ایک جوشیلی تقریر کی جس کے بعد انہیں گرفتار کرکے لمبے عرصہ کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد ہی رہا ہو سکے کیونکہ یکے بعد دیگرے ایک کے بعد دوسرا مقدمہ بنا کر انہیں جیل سے نکلنے نہیں دیا گیا، گویا ’’بھینس چوری‘‘ جیسے بھانت بھانت کے مقدمات اس وقت تک بنائے جاتے رہے جب تک ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم نہیں ہو گئی۔یہ واقعات درج کرنے کا مقصد یہ واضح کرناہے کہ عوام میں مقبول لیڈروں کی کبھی ریاست اور کبھی ریاست کے اندر موجود ریاست نہ صرف تذلیل کرتی رہی ہے بلکہ انہیں ناجائز مقدمات میں پھنسا کر گھر بھیجتی یا پابند سلاسل کرتی رہی ہے۔بد قسمتی سے یہ صورتِ حال آج تک اسی طرح قائم ہے ۔شاید یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ملک میں عوام کے مینڈیٹ کی توہین اور انصاف کا خون ہوتا رہے گا۔
امریکہ میں سٹیفن کوہن نامی سیاسیات کے دو ماہرین دانشوروںStephen F. Cohen) اور Stephen P. Cohen ( نے پاکستان کے سیاسی حالات پر متعدد کتابیں تحریر کر رکھی ہیں ۔ میرے نزدیک پاکستان کی سیاسی تاریخ، موجودہ حالات اور سیاسی مستقبل کو سمجھنے کے لئے ان کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔Stephen F. Cohen نے بیس پچیس سال قبل اور Stephen P. Cohen نے گذشتہ چندبرسوں کے دوران شائع ہونے والی ان کتابوں میں 1950 ء کی دہائی سے لے کر 2010 ء کی دہائی تک پاکستان میں ہونے والے سیاسی واقعات کا بہت تفصیل سے تجزیہ کیا ہے ۔
ان تجزیوں کے احاطہ کرنے کے لئے کئی کالم درکار ہوں گے لیکن یہاں Stephen P. Cohen کی 2013ء میں شائع ہونے والی کتاب The Future of Pakistan کا حوالہ برمحل ہو گا جس میں وہ لکھتا ہے کہ ’’پاکستان کی تمام خرابیوں کی جڑ سیاسی انتقام (political victimization) کی لعنت ہے جس کی وجہ سے جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے ہمیشہ ہچکولے کھاتی رہی۔ سیاسی انتقام اس وقت ممکن ہوتا ہے جب عدالتیں انصاف دینے کی بجائے ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر فیصلے دینے لگیں اور احتساب کے نام پر ریاستی آمریت قائم کر دی جائے۔ پاکستان اس وقت تک صحیح راستے پر نہیں چل سکتا جب تک یہاں نظریہ ضرورت کی بدروح بھٹکتی رہے گی‘‘۔
پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ ملک کو آگے لے کر جانا ہے یا ماضی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دینا ہے۔ اگر ملک کو آگے لے کر جانا ہے تو جسٹس منیر کو ریٹائر کرکے نظریہ ضرورت دفن کرنا ہو گا تاکہ ’’ قومی مفاد‘‘ کی بجائے انصاف پر مبنی فیصلے ہو سکیں۔
اسی طرح اگر ملک کو آگے لے کر چلنا ہے تو نواب آف کالا باغ کی طرح اوپر سے آئے ہوئے احکامات پر ’’بھینس چوری‘‘ جیسے مقدمات کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہو گا اور ملک کی مقبول قیادت کی تذلیل کا سلسلہ بھی۔
ریورس گئیر لگا کر گاڑی آگے نہیں بلکہ پیچھے کی طرف جاتی ہے، یہ مملکتِ خداداد پاکستان ہے جس نے انشا اللہ آگے ہی جانا ہے ۔