زرداری کے مخالفین کہاں جائیں گے ’’جی ڈی اے‘‘ میں یا تحریک انصاف میں؟
2018ء کے عام انتخابات کے انعقاد میں ابھی کم ازکم آٹھ ماہ باقی ہیں۔ تاہم یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ حالات کا جبر کوئی ایسا منظر تخلیق کر پائے گا یا نہیں؟ جس کی خواہش فوری انتخابات کا مطالبہ کرنے والے یا وہ عناصر کررہے ہیں۔ جو سرے سے انتخاب کے انعقاد کو پہلے احتساب سے مشروط کرنے کا مشن لے کر میدان میں کھڑے ہونے کی کوشش کررہے ہیں جناب سراج الحق کے بعد حروں کے روحانی پیشوا پیرپگارو کہتے ہیں کہ اگر 2018ء میں انتخاب ہوئے تو سندھ میں گلی گلی خون بہے گا معلوم نہیں جناب سراج الحق نے انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ اپنی جماعت کی مجلس شوریٰ سے منظوری کے بعد لگایا ہے یا اپنی ذاتی حیثیت میں؟یا محض جوشِ خطابت میں جلسے میں اظہارِ خیال فرمادیا ہے۔
جماعت اسلامی کی طرف سے اس مطالبہ کی کوئی وضاحت سامنے آئے تب ہی اس پر بات ہوسکے گی کیونکہ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق (مرحوم) نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا۔ تو جماعت اسلامی ان جماعتوں میں شامل تھی جنہوں نے (مرحوم) خان عبدالولی خان کے پہلے احتساب پھر انتخاب کے نعرہ کی شدید مخالفت کی تھی۔ واضح رہے کہ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے 90روز میں انتخاب کرانے کا اعلان کیا تو پی این اے میں شامل خان عبدالولی خان کی واحد پارٹی تھی، جس نے جنرل ضیاء الحق سے پہلے احتساب پھر انتخاب کا مطالبہ کیا تھا بدقسمتی سے ملک میں جب بھی سیاست دانوں نے اپنے مخالفوں کو سیاسی میدان میں شکست دینے کے بجائے ان کو انتخابی منظر سے آؤٹ کرنے کے لئے پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگایا۔ تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ پھر احتساب ہوا ہے اور نہ ہی انتخاب، احتساب کے نام پرخصوصی عدالتوں یا عام عدالتوں میں کچھ ہوا بھی تو وقت گزرنے کے بعد اعلیٰ عدالتوں نے انہیں کالعدم قرار دے دیا احتساب کے نام پر ہونے والی کارروائیوں کو قانون کی کسوٹی پر پورانہ اترنے کی وجہ سے انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا گیا ۔ البتہ انتخاب سے پہلے احتساب کے نعرہ سے ہماری قومی سلامتی کی دشمن قوتوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔سندھ میں نسل اور زبان کی بنا پر سیاست اسی نعرے کی دین ہے اس کا ادراک ہمارے ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی قوتوں کو ہونا چاہئے۔ کرپشن نے ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ کرپشن ختم کرنا ہے، تو انتخابی سیاست پر یقین رکھنے والی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اپنی اپنی جماعتوں کے اندر خود احتسابی نظام کو موثر کرنا پڑے گا۔ تاکہ کرپٹ اور بدعنوان شخص انتخابی میدان میں کودنے سے پہلے ہی پارٹی کے اندر موجود احتسابی نظام کے ذریعہ آؤٹ ہوجائے، یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاسی جماعتیں انتخاب لڑنے کے لئے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا معیارِ دیانت و امانت کے بجائے اس کی مالی حیثیت کو بنائیں اور توقع صاف ستھری سیاست کی کریں۔ آئین پاکستان نے انتخاب اور احتساب کا طریقہ کار طے کردیا ہے درست طریقہ ایک ہی ہوگا، وقت پر صاف شفاف انداز میں آزادانہ غیر جانبدارانہ طریقے کار کے مطابق انتخابی عمل مکمل اور آئین اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے احتسابی عمل کو کسی بیرونی مداخلت کے بغیر چلتے رہنے دیا جائے۔ جو گروہ بھی آئینی تقاضوں کو پامال کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا۔ وہ پاکستان کی قومی سلامتی خودمختاری اور قومی یکجہتی کی دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو تقویت دینے کا باعث بنے گا۔ ہماری قومی سلامتی اور قومی یکجہتی کو ہماری اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں نے جس قسم کے داخلی اور خارجی خطرات لاحق کررکھے ہیں ان سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی قوتیں اور تمام آئینی ادارے آئین کی بالادستی کو ہر قیمت پر مقدم رکھنے اور ہر سطح پر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے ’’میثاق‘‘ پر قائم رہنے کا عمل کریں۔ ہماری قومی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے بانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ اور ان کی قیادت میں کام کرنے والے دیگر بانیان پاکستان کے انداز حکمرانی کی تقلید کرنے کے بجائے ان کو اپنا رول ماڈل بنایا، جو دولت کے پیچھے اور ڈنڈے کے آگے سر تسلیم خم کرنے کو ہی سیاست میں کامیابی کا ہنر سمجھتے ہیں۔ ہمیں اس وقت جس طرح کے داخلی اور خارجی خطرات لاحق ہیں ان سے نکلنے کے لئے ہر سطح پر آئین پاکستان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہی ناگزیر ہے اور تمام آئینی ریاستی اداروں کا ایک پیج پر ثابت قدمی کے ساتھ کھڑا ہونا ہی ضروری ہے، بلکہ ایک جاں دو غالب کے مصداق نظر آنا بھی ناگزیر ہے۔
اب یہ روش ہماری سیاسی اور مذہبی قوتوں کو ترک کرنا ہوگی۔ جو انہوں نے دشنام طرازی کی بنائی ہوئی ہے، پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے۔ ریاست پاکستان کا مذہب اسلام ہے۔ عقیدہ ختم نبوت پر ہر مسلمان شہری کا ایمان رکھنا ضروری ہے۔ البتہ آئین پاکستان غیر مسلم پاکستانی شہریوں کو اس عقیدہ پر ایمان رکھنے سے مستثنیٰ کرتا ہے اور یہی تعلیمات اللہ کے رسول ؐکی بھی ہیں تمام علماء اور اکابرین کا اس پر اجماع ہے کہ جس طرح توہین رسالتؐ کا مرتکب مسلمان شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اسی طرح رسالت مآبؐ کے مقدس نام کو اپنے ذاتی یا سیاسی مخالفوں کے خلاف استعمال کرنے کو بھی نہایت قبیح فعل کا مرتکب قرار دیا ہے، غلطی تسلیم کرکے اس کی اصلاح کرلی جائے، تو کسی کو اسلام یہ حق نہیں دیتا ہے کہ وہ اس کی نیت کا فیصلہ کرے۔ اس لئے نیتوں کے معاملہ کو اللہ کی ذات پر چھوڑ دینا چاہئے۔ وہ روز قیامت اس کا فیصلہ کرے گا، ہماری دینی اور سیاسی جماعتوں کو چوکنا ضرور رہنا چاہئے، مگر عقیدہ ختم نبوت پر سیاست کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اسے دین سے بے زار قوتیں اپنے مفاد میں استعمال کریں گی، ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے، دینی جماعتوں کو انتخابی سیاست کے لئے اپنے منشور میں ان ایشوز کو ایڈریس کرنا چاہئے جس کی روشنی میں عام آدمی یہ توقع کرسکے کہ اس منشورسے ان کی معاشی حالت بہتر ہوگی، غریب اور وسائل سے محروم بچیوں کو تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔کتنی بدقسمتی ہے اس وقت دینی جماعتوں سے متعلق افراد کے تعلیمی ادارے بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے ایسا نہ تھا، دینی سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگوں کے تعلیمی ادارے معیار میں دوسرے نجی اداروں کے مقابلے میں بہتر ہواکرتے تھے مگر فیس کے معاملے میں غریب پرور تھے۔ ایسے تعلیمی ادارے بتدریج کم سے کم ہوتے جارہے ہیں رفاعی اداروں کا یہاں ذکر نہیں ہورہا ہے، وہ تو چلتے ہی عطیات سے چلتے ہیں، اب تو بدقسمتی یہ ہورہی ہے کہ سماجی اور رفاعی اداروں کے زیراہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں میں بھی فیس رزق حلال پر گذر اوقات کرنے والے سفید پوش لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہے اس کی طرف بھی انتخابی سیاست کرنے والی سیاسی و دینی جماعتوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اب ذرا ذکر کرتے ہیں، سندھ میں جناب عمران خان کی آمد کا۔ گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حیدر آباد اور عمر کوٹ میں جلسوں کے ذریعہ شوآف پاور کیا تھا جس میں بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو ہدف تنقید بنایا اور پشاور میں ان کے والد محترم جناب آصف زرداری اپنی توپوں کا رخ بھی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف رکھے ہوئے ہیں، 22اکتوبرکو جناب عمران خان سندھ کے چارروزہ دورہ پر آئے، انہوں نے حضرت لعل شہباز قلندر کی نگری سیہون میں جلسہ عام سے خطاب کیا، میاں نواز شریف کی وکٹ گرانے کے بعد آصف علی زرداری کو سان پر رکھتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری اور کرپشن ایک ہی چیز ہے، وہ تواتر کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ آصف علی زرداری میں تم کو نہیں چھوڑوں گا، سیہون کے جلسہ کی اہمیت یہ ہے کہ یہ جلسہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کے حلقہ انتخاب میں ہوا ہے اور تحریک انصاف میں نئے شامل ہونے والے سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کا آبائی قصبہ دادو ہے، کراچی میں تحریک انصاف کے چیئرمین تاجروں صنعت کاروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے موثر طبقات سے مل رہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ ان کی جماعت میں وہ لوگ شامل ہوجائیں جو انتخاب میں مالی وسائل فراہم کرسکیں یا وہ الیکشن لڑنے کے لئے الیکٹ ایبل افراد کو پارٹی میں شامل کراسکیں۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم مسلم لیگ (ف) اور حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارو کی سربراہی میں قائم ہونے والے اتحاد ’’جی ڈی اے‘‘ کو خیر باد کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں آنے والے دن یہ فیصلہ کردیں گے کہ پی پی پی پارلیمنٹرین کے صدر جناب آصف علی زرداری کے ذاتی اور سیاسی مخالف ’’جی ڈی اے‘‘ کی شکل میں بننے والے پلیٹ فارم پر موثر کردارادا کرسکتے ہیں یا جناب عمران خان کی تحریک انصاف کا رخ کریں گے؟ بعض سیاسی اور صحافتی تجزیہ نگار پیر پگارو کی طرف سے 2018ء کے انتخاب سے پہلے آصف علی زرداری کے نواز شریف سے زیادہ کڑے احتساب کے نعرہ کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں جہاں تک معاملہ ہے سندھ اسمبلی کے رکن اور سابق وزیر اطلاعات اور سابق وزیر بلدیات جناب شرجیل میمن کی نیب عدالت سے عبوری ضمانت منسوخ ہونے کے بعد نیب میں زیر سماعت چھ ارب روپے کی کرپشن میں عدالتی تحویل میں جانے کا اس سے جناب آصف علی زرداری کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان کے حقیقی دست راست اور ذاتی معتمد دوست ڈاکٹر عاصم حسین متعدد ماہ جیل میں رہ کر باہر آگئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑا تو شرجیل انعام میمن کی جیل یاترا سے کیا فرق پڑے گا ان کی شہرت تو ویسے بھی زرداری کے دوست کی نہیں سیاسی کارندہ کی ہے۔ایم،کیو،ایم میں توڑ پھوڑ اور دوسرے عوامل کے حوالے سے آئندہ بات ہوگی۔