گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 61

Oct 25, 2017 | 02:43 PM

جب ہم گاؤں سے واپس آنے لگے تو ہندو نمبردار نے مجھ سے پوچھا کہ اس 50 ایکڑ زمین کا کیا ہوگا جو حکومت نے مجھے دینے کا وعدہ کیا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ تمہیں ا نعام قبول کرلینا چاہیے لیکن حمایت اکنگریس پارٹی ہی کی کرنا۔ زمین حکومت کی ذاتی ملکیت نہیں ہے یہ تو عوام کی ملکیت ہے اور اگر یہ تمہاری خدمات کے صلے میں دی جارہی ہے تو بے شک اس پر تمہارا حق ہے۔ اگر تم اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق ووٹ دو گے تو کسی شخص کو تم سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ اس بات سے اسے بے حد خوشی ہوئی۔ گاؤں کے مسلمان بھی بہت خوش ہوئے اور مجھے یہ کہتے ہوئے مسرت ہوتی ہے کہ عبدالمجید صاحب نے انتخاب جیت لیا۔ البتہ یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ صوفی صاحب جماعتی سیاست میں ہمیشہ میرے خلاف صف آرا رہے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔ نیکی کر دریا میں ڈال۔
اسی سال کا ایک اور واقعہ بیان کرنے کے لائق ہے۔ ہماری انتخابی مہم کے دوران میں لارڈ ویول دورے پر کشمیر گئے اور راولپنڈی ہوتے ہوئے دہلی واپس چلے گئے۔ راولپنڈی میں انہوں نے معززین علاقہ کے لئے ایک زبردست دربار منعقد کیا۔ مَیں نے بھی دعوت نامہ قبول کیا اور دربار میں شرکت کی۔ لارڈ ویول نے اجتماع سے خطاب کیا اور تقریر کے دوران میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ عوام اپنے آزمودہ لیڈروں کی حمایت کریں گے۔ ان کے اس بیان کی توضیح یہ کی گئی کہ عوام کو سرخضر حیات ٹوانہ کو انتخاب میں نئے مسلم لیگی لیڈروں پر ترجیح دینی چاہیے۔ مَیں نے لارڈویول کو لکھا کہ ان کی تقریر کی توضیح اور طرح کی جارہی ہے۔ اس کے یہ معنی لئے جارہے ہیں کہ آپ نے عوام کو یونینسٹ پارٹی یعنی سرخضر کی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کا حکم دیا ہے۔ مَیں نے اس دربار میں شرکت ایک دوست اور رفیق کار کی پاس خاطر کے لئے کی تھی۔ مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ ان کی زبان سے ایسے فقرے ادا ہوں گے جن کی اس طرح توضیح کی جائے گی جیسے وہ کسی خاص سیاسی جماعت کے حمایتی ہیں۔ مَیں نے یہ بھی اپنے خط میں لکھا کہ مجھے کامل یقین ہے کہ آپ کا وہ مدعا ہرگز نہ تھا جسے لوگ آپ کی ذات سے منسوب کررہے ہیں۔

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 60  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لارڈ ویول نے فوراً جواب دیا اور مَیں نے انہیں شکریہ کا خط لکھا اور یہ بتایا کہ آپ کا خط پاکر مجھے کس قدر اطمینان نصیب ہوا ہے۔ نیز دریافت کیا کہ آپ کیا اس خط و کتابت کی اشاعت منظور کریں گے؟ لیکن اس بات پر وہ تیار نہ ہوئے اور خطوط شائع نہ ہوسکے۔ اس کے بعد بہت سے دوستوں نے مجھے پرزور دیا کہ پارٹی کے مفادات خطرہ میں ہیں۔ اس لئے ان خطوط کو شائع کردیجئے لیکن میں نے ان سے کہا کہ اس طرح تو میری عزت خطرہ میں پڑجائے گی۔ اگر مَیں نے ایسا کیا تو آئندہ کوئی شخص مجھ پر اعتماد نہیں کرے گا۔ ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ تشہیر کی خواہش کا شکار نہ ہو خواہ وہ اس کے لئے کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو۔ مَیں نے ہمیشہ اس اصول کو مدنظر رکھا اور دس لاکھ فائدے بھی نظر آئے تو بھی مَیں نے اپنے قول سے نہیں پھرا۔
ہمیں انتخابات میں کامیابی ہوئی۔ برصغیر کے طول و عرض میں، ہر جگہ آزادی کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دئیے اور برصغیر کی تقسیم اس کا فطری نتیجہ بن گئی۔
1946ء کے انتخابات کے بعد مسلمان ارکان، لاہور میں اپنا لیڈر مجھے منتخب کرنا چاہتے تھے، لیکن بعض مسلم لیگیوں نے گھبراہٹ کے مارے قائداعظم کو تار پر تار بھیجنے شروع کردئیے۔ اس وقت قائداعظم آسام میں تھے۔ کسی نے مجھے بتایا کہ قائداعظم ممدوٹ کو لیڈر منتخب کرانے کے خواہشمند ہیں لیکن قائداعظم ضابطہ پسند آدمی تھے۔ اس معاملے میں انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار مجھ پر کبھی نہیں کیا تھا تاہم مَیں نے ان سے ٹیلیفون پر بات کی اور انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ یہ موقع ممدوٹ کو ملے، چنانچہ ممدوٹ کے نام کی تحریک خود میں نے کی۔ آزادی کے دوسرے ہی برس پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بھی مجھ سے یہی درخواست کی کہ ممدوٹ کے حق میں آپ دست کش ہوجائیں۔ چنانچہ میں، جس نے جماعتی نظم و ضبط کی شروع ہی سے تربیت پائی تھی، ایک بار پھر الگ ہوگیا۔ تیسری بار مسلم لیگ ہائی کمان نے مجھے قیادت سے محروم کردیا۔
یہ آزادی کا تیسرا سال تھا اور پنجاب اسمبلی کے ارکان اپنے پارٹی لیڈر کے انتخاب میں مرکزی ہائی کمان کی مداخلت کے خلاف سرکشی پر آمدہ تھے۔ خواجہ ناظم الدین اس وقت گورنر جنرل تھے۔ جس دن مجھے لیڈر منتخب کیا جانے والا تھا، اس سے ایک رات پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان لاہور آئے۔ مسٹر دولتانہ کی کوٹھی پر ایک عشائیہ کا اہتمام تھا۔ یہیں ہمیں اطلاع ملی کہ مرکزی حکومت کے احکام کے تحت قانون ساز اسمبلی کو توڑ دیا گیا ہے اور پرانے آئین کی دفعہ 92 کے تحت جو اس وقت نافذ تھا گورنر تمام انتظامی اختیارات خود سنبھال لیں گے۔ مَیں نے نواب زادہ لیاقت علی خان سے پوچھا کہ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ مسٹر دولتانہ اور نواب ممدوٹ، دونوں نے فرداً فرداً اس مضمون کی تحریر مجھے لکھ کر دی ہے کہ صوبہ میں کوئی مستحکم وزارت قائم نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا میں نے قانون ساز اسمبلی کو معطل کردیا ہے لیکن انہوں نے مجھ سے کبھی کچھ نہیں پوچھا جسے پارٹی کے اکثر ارکان کی حمایت حاصل تھی اور نہ انہوں نے پارٹی یا اس کے ارکان سے کوئی مشورہ کیا۔ صرف دو امیدواروں کا مشورہ، جو اپنی کامیابی کی طرف سے مایوس تھے، ایک معقول عذر تسلیم کرلیا گیا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے رنج ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت نے صوبائی مقننہ کو معطل کرنے کے اختیارات بہت کثرت سے اور انتہائی من مانے طریقے سے استعمال کئے۔ پاکستان کا کوئی صوبہ ایسا نہیں جس کی منتخب وزارت کو مرکزی حکومت نے اس کی میعاد کے دوران میں کم سے کم ایک بار نہ توڑا ہو۔ بیشتر صوبوں کی اسمبلیوں کو کئی کئی بار معطل کیا گیا اور ان معطلیوں کے اسباب محض اس قدر تھے کہ ’’ایک مستحکم وزارت نہیں بن سکتی تھی‘‘ درحقیقت ’’مستحکم‘‘ سے مراد ایک ایسی وزارت تھی جو مرکزی حکومت کے طرز عمل کی قدم بہ قدم پیروی کرے۔
لیکن 1946ء میں انگریز ابھی ہندوستان میں ہی تھے اور گو یونینسٹوں کے ٹکٹ پر صرف سات یا آٹھ مسلمان ارکان ہندو اور سکھ یونینسٹ ممبروں کی امداد سے کامیاب ہوئے تھے، اس کے باوجود گورنر سرایوان جنکنز نے سرخضر حیات ٹوانہ کو ایک بار پھر وزارت بنانے کی دعوت دی۔ 1946ء کے اس دور میں فرقہ وارانہ فساد اور خلفشار، صحیح معنوں میں شروع ہوچکا تھا۔ لاہور میں فرقہ وارانہ جلوس نکلنے لگے تھے جن میں اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے تھے، ہندو اور سکھ اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ جاتے، تمام رات گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے تھے اور خانہ ساز بارودی بوتلیں پھینکتے۔ یہ شدید بے چینی کا زمانہ تھا۔ ایک دن میرا شوفر سائیکل پر سوار مال روڈ پر سے گزررہا تھا کہ پولیس نے اسے روک لیا اور تلاشی لی۔ اس کی جیب میں ایک قلم تراش تھا جسے پولیس نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ شہر سے اس مضمون کی اطلاعات آرہی تھیں کہ مسلمانوں کے گھروں سے روٹی کاٹنے کی چھریاں بھی تلاشی لے کر چھین لی گئیں۔ اس کے برعکس سکھوں کو اجازت تھی کہ وہ دو دو کرپانیں لگا کر جہاں چاہیں شوق سے جائیں۔
میں اس غیر منصفانہ صورت حال کے بارے میں بات چیت کرنے کے لئے پنجاب کے گورنر سرایون جلینکنز کے پاس گیا کیونکہ اس طرح تو ایک فرقہ کے لوگوں کو نہتا بنایا جارہا تھا اور یہ ڈر تھا کہ اس کے نتائج مسلمانوں کے حق میں انتہائی خوشگوار ہوں گے۔ بہرحال وہ اپنے ذہن میں یہ طے کئے بیٹھے تھے کہ سکھ ایک اقلیت ہیں اور اس لئے پرامن لوگ ہیں اس کے برعکس مسلمانوں کا رویہ جارحانہ ہے۔ اس گمراہ کن خیال کی تائید میں انہوں نے مجھے یہ حکایت سنائی کہ جنوبی افریقہ کی جنگ کے دوران میں برطانوی سپاہی بھیڑوں کو کسی امتیاز کے بغیر ذبح کرتے جارہے تھے چنانچہ کمانڈر انچیف لارڈ رابرٹس کو اس مضمون کا حکم جاری کرنا پڑا کہ اگر کوئی انگریز سپاہی کسی بھیڑ کو ہلاک کرتا ہوا پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ایک دن جب سررابرٹس گھوڑے پر سوار، سڑک کے کنارے کنارے جارہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک انگریز سپاہی ایک بھیڑ ذبح کررہا ہے جب اس شخص نے اچانک سررابرٹس کو اپنے سر پر دیکھا تو خنجر کی نوک ایک بھیڑ کے بدن میں چبھو کو بولا ’’تو نے مجھے کیوں کاٹا؟‘‘ یہ تھا لاہور کی صورتحال کے بارے میں سرایون جلینکنز کا متعصبانہ تاثر۔ مَیں نے اس کے بعد پھر اس مسئلہ پر ان سے کوئی بات نہیں کی۔(جاری ہے )

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 62 پڑھانے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں