دبئی کی رئیل سٹیٹ میں ساڑھے 8 کھرب روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانی کون ہیں

اسلام آباد (ویب ڈیسک)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کی ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ پاناما کیس تحقیقات کی طرز پر اینٹی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے قوانین کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں ساڑھے 8کھرب روپے کی سرمایہ کاری کرنیوالے پاکستانی کون ہیں۔ذیلی کمیٹی نے ایف آئی اے ،نیب ،سٹیٹ بنک ، ایف بی آرسمیت تمام متعلقہ ایجنسیوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اس سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنے ان قوانین کی خامیوں کی نشاندہی کریں جو منی لانڈرنگ میں سہولت دیتے ہیں۔
ذیلی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے آئندہ اجلاس میں وزارت خار جہ اور قانون کے حکام کو طلب کرے گی تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کیسے متحدہ عرب امارات پر دباﺅ ڈال کر دبئی میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری سے متعلق معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔کمیٹی نے ایف بی آر حکام کو ہدایت کی کہ دبئی میں پاکستانیوں کی رئیل سٹیٹ میں سرمایہ کاری کی معلومات کے حصول کا عمل تیز کریں۔کمیٹی نے ایف آئی اے سے دبئی میں سرمایہ کاری کرنیوالے تین پاکستانیوں کی انکوائریوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔
ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینئر کمیٹی ڈاکٹر شذرہ رائےمنصب کھرل کی زیر صدارت ہوا، ذیلی کمیٹی یواے ای میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی طورپر قائم کی گئی ہے ،کمیٹی کے دیگر ارکان میں اسد عمر اور اسفن یار بھنڈارا شامل ہیں ،ڈاکٹر شذرہ نے کہا کہ 2006سے دبئی میں پاکستانی ریئل سٹیٹ میں سرمایہ کاری کررہے ہیں اورحکومتی تحفظات کے باوجود یہ سرمایہ کاری تاحال جاری ہے، کمیٹی یہ معلوم کرے گی کہ 11برس میں کتنے ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری کی گئی ، اسد عمرنے کہا کہ دبئی لینڈ اتھارٹی سے اس بارے معلومات لینا ممکن ہے۔
چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کے مختلف ممالک کے ساتھ ٹیکس معلومات کے تبادلے کےدہرے معاہدے ہیں ٹیکس سے متعلق معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن دیگر خفیہ معلومات کا تبادلہ نہیں ہو سکتا ، یو اے ای حکام کو رئیل سٹیٹ کے کاروبار کی معلومات کی تفصیلات کے تبادلے کے لیے متعدد خطوط لکھے ہیں ، آخری خط 11اکتوبرکو لکھا جس کا وزارت خارجہ کے ذریعے جواب آگیا ہے ، دبئی حکام نے پاکستانیوں کی سرمایہ کاری سے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کیں ،ہم نے اماراتی سفیر کو اجلاس کیلئے کہا لیکن انہوں نے ہماری درخواستوں پر کوئی توجہ نہیں دی ،ممبر کمیٹی اسد عمرنے پوچھا کہ پاناما کیس میں دبئی حکام سے جواب لینے کیلئے کون سے قوانین استعمال کئے گئے،اس پر حکام نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات سے پاکستانیوں کی سرمایہ کاری سے متعلق معلومات حاصل کرنے کیلئے صرف انسداد بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے قوانین ہی استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
سٹیٹ بنک حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستانی بیرون ملک سرمایہ کاری کے لیے پاکستان سے سٹیٹ بنک کے ذریعے50کروڑ ڈالر لے جاسکتے ہیں اور 50کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے لیے ای سی سی سے منظوری ضروری ہے ، قانونی طور پر سرمایہ کاری کے علاوہ کوئی بھی پاکستانی بیرون ملک رقم لے جاسکتا ہے اس کی کوئی حد نہیں ، اسد عمر نے کہا کہ یہ قانون میں بہت بڑا سقم ہے جس کو درست کرنے کی ضرورت ہے ، کمیٹی اس حوالے سے بھی کام کرے گی۔کمیٹی کو ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ایف آئی اے کراچی 2015میں یواے ای میں رئیل سٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنیوالے تین پاکستانیوں کی انکوائر ی کر رہی ہے ،جس کی رپورٹ آئندہ اجلاس میں پیش کر دی جائیگی ۔
اسد عمر نے کہا کہ میڈیا میں آیا ہے کہ ایف آئی اے کے پاس دبئی میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کی مکمل تفصیلات ہیں لہذا متعلقہ صحافیوں کو بلا کر ان سے معلومات حاصل کی جائیں جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پہلے ایف آئی اے سے معلومات حاصل کی جائیں گی پھر ضرورت ہوئی تو میڈیا کے لوگوں کو بھی بلایا جائےگا۔