فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر544
دراصل یہ صبر اور برداشت کی آزمائش کا مرحلہ ہوتا تھا۔ خدا جانے اور کتنی نئی کتابیں آگئی ہوں گی جنہیں پڑھنے کو دل بھی مچلے گا مگر وہاں سے خالی ہاتھ لوٹنا ہوگا۔ دراصل یہ کتابوں کی ونڈو شاپنگ ہوا کرتی تھی پھر چائے خانوں میں بیٹھ کر کتابوں، فلموں، نمائشوں، موسیقی اور ادب کے بارے میں بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا۔ چائے کا ہاف سیٹ منگا کر کسی بھی ریستوران میں بلا شرکت غیرے قبضہ ہو جایا کرتا تھا۔ نہ ہوٹل کا مالک گھورتا اور بڑبڑاتا تھا نہ بیرا منہ بناتا تھا ایک کے بعد ایک کی آمدکا سلسلہ جاری رہتا تھا اور اسی مناسبت سے ہاف سیٹ چائے کے آرڈر بھی چلتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ریستورانوں کے مالک اور ویٹر بھی علم پرور اور ادب دوست تھے۔ ان کے لیے یہی امر باعث فکر تھا کہ ایسی بلند پایہ علمی و ادبی ہستیاں انکے ریستورانوں میں آتی ہیں۔ موقع پا کر وہ لوگ بھی ان کی باتوں سے استفادہ کرلیا کرتے تھے۔ اگر جیب میں پانچ روپے ہوتے تو سارا دن چائے خانوں میں گزارا جا سکتا تھا مختلف ریستورانوں میں مختلف نرخ تھے۔ کہیں چائے کی پیالی دو آنے میں، کہیں ایک آنے میں مل جاتی تھی۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر543 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہاف سیٹ چائے چار سے چھ آنے تک اچھے ریستورانوں میں فراہم کی جاتی تھی۔ شیزان جیسے بورژو اور اعلیٰ پائے کے انگریزی ریستورانوں میں جو کہ بہت مہنگا سمجھا جاتا تھا آٹھ آنے پر ہیڈ چائے ملا کرتی تھی۔ایک چائے منگوائیے اور چاہے جب تک بیٹھے باتیں کرتے رہیے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ویٹر کو اشارہ کیجئے وہ چائے دانی میں تازہ چائے اور دودھ دانی میں گرم دودھ لے کر آتا تھا۔ دراصل اس زمانے میں دیال سنگھ منیشن میں شیزان کا نام ہی مرعوب کرنے کے لیے کافی تھا۔ ہما شما کو تو اندر داخل ہونے کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔ حالانہ حساب لگایا جائے تو یہ ریستوران مہنگا نہیں تھا۔ اگر آپ دو گھنٹے وہاں بیٹھیں اور چار پانچ مرتبہ تازہ چائے طلب کریں تو حساب لگا لیجئے کہ چائے کی ایک پیالی کتنے میں پڑ جاتی ہوگی پھر انتہائی مہذب، شائستہ اور رکھ رکھاؤ رکھنے والے لوگوں کی وجہ سے مثالی ماحول۔ کیا مجال جو کوئی بلند آواز میں بات کرے۔ صرف بھنبھناہٹ سی سارے ہال میں سنائیدیتی تھی کبھی کبھی کسی قہقہے کی آواز بلند ہو جاتی تھی تو سب گردنیں موڑ کر دیکھنے لگتے کہ یہ کون بدتمیز ہے۔ یہاں کھانسی کے وقت منہ پر ہاتھ رکھ لینا اور جمائی کے بعد’’سوری‘‘ کہنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ریستوران مکمل ائیرکنڈیشنڈ تھا۔ خوشبو سے مہکتا رہتا تھا جسمیں چائے ، کافی سگریٹ، سگار اور پائپ کے تمباکو کی آمیزش سے ایک عجیب قسم کی خوشبو پیدا ہو جاتی تھی۔ غسل خانے اتنے صاف اور چمک دار کہ فرش پر بھی اپنا منہ دیکھ لیجئے۔ ایک جانب چھوٹی سی تپائی دھری ہوئی جس پرجوتا صاف کرنے کا برش بھی رکھا ہوتا تھا۔ عموماً ہر آنے والا پہلے غسل خانے میں جا کر منہ ہاتھ دھو کر فریش اپ ہوتا۔ ساتھ ہی اپنے جوتے کو بھی چمکاتا ۔جیب سے کسی امپورٹڈ، خوشبو کی چھوٹی شیشی نکال کر خوشبو لگاتا اور پھر اپنے من پسند اورہم خیال دوستوں کی میز پر جا کر بیٹھ جاتا تھا۔ شیزان کونٹی نینٹل تھا۔
چائے خانوں کی اس زمانے میں لاہور میں بہتات تھی۔ اس کے باوجود تھورے تھوٹے وقفے کے بعد نئے ریستوران کھلتے رہتے تھے۔ اہل ذوق اس کا جائزہ لینے کے لیے پہلے یا دوسرے روز ہی واہں جانا واجب سمجھتے تھے مگر اپنے پرانے ٹھکانے کوئی نہیں چھوڑتا تھا۔ مال روڈ پر کافی ہاؤس، پاک ٹی ہاؤس، کیفے اور ینٹ چائنیز لنچ ہوم کے عادی لوگوں کا بھلا نئے ریستورانوں میں کس طرح دل لگ سکتا تھا۔ ان ریستورانوں میں غیر محسوس اور غیر شعوری طور پرمختلف شفٹوں میں لوگ آیا کرتے تھے۔ صبح دس گیارہ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک مختلف لوگوں کی آمد کے اوقات تھے جو اپنے اپنے گروپ میں بیٹھ کر گپ شپ اور تبادلہ خیال میں مصروف ہو جاتے تھے۔ اس زمانے میں ہوٹل بازی تفریح کے ساتھ ساتھ تحصیل علم کا ذریعہ بھی تھا کہ بڑے بڑے دانش ور، اساتذہ، شاعر، ادیب ، نقاد، سیاست داں، موسیقار، گلوکار اور صحافی یہاں اکٹھے ہو کر مختلف موضوعات کے بارے میں جب باتیں کرتے تو جیسے دبستاں کھل جاتا۔
چھوڑئیے کہاں تک پرانے وقتوں کے نوحے روئے جائیں۔ اب تو اس کے لیے بھی وقت اور فرصت نہیں ہے۔
**
کسی زمانے میں الزبتھ ٹیلر کے۔۔۔نت نئے اسکینڈلز اور شادیوں کے بارے میں خبریں آتی تھیں جو ان کی فلموں سے زیادہ توجہ اور دلچسپی کا سبب بن جاتی تھیں۔ یوں بھی ان کی فلموں کی رفتار اتنی نہ تھی جتنی کہ ان کے اسکینڈلز اور شادیوں کی۔ اب وہ ۶۸ سال کی ہوچکی ہیں۔ سدا بیمار رہیں لیکن کیا مجال جو ان کے مشاغل میں کوئی فرق آیا ہو۔ طویل بیماریوں اور زمانے کی رفتار نے بالآخر انہیں بوڑھا کر دیا۔ اس کا اندازہ یوں ہوا کہ اب ان کے اسکینڈلز کا کوئی ذکر سننے میں نہیں آتا۔ شادی کے بارے میں بھی بالآخر انہوں نے خود ہی ’’ہینڈز اپ‘‘ کر دیئے ہیں۔ پچھلے دنوں ان کا یہ بیان پڑھ کر بہت حیرت اور مایوسی ہوئی کہ اب وہ مزید شادی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔ ایک زمانے میں انہوں نے شادیوں اور طلاقوں کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ انہوں نے آٹھ باقاعدہ شادیاں کیں جن سے ایک پرانے اداکار رچرڈ برٹن سے دوبارہ کی۔ اب وہ فلاحی کاموں کے حوالے سے خبروں میں آتی ہیں۔ ان کو اللہ نے سبھی کچھ دیا۔ شہرت، دولت مقبولیت، حسن و جمال، دنیاوی نعمتوں کی ان کے پاس کبھی کمی نہیں رہی یہاں تک کہ شوہروں تک کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ شادیوں کے معاملے میں انہوں نے ہاتھ کھینچ کر رکھا ورنہ ان کے رومانوں کو شمار کیا جائے اور اگر اپنے ہرمحبوب سے وہ شادی کر سکتیں تو خدا جانے یہ تعداد کہاں تک جا پہنچتی۔
الزبتھ ٹیلر نے ’’ایڈز‘‘ کے خلاف جنگ کو اپنی زندگی کانصب العین قرار دے دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس جان لیوا بیماری نے دنیا بھر میں بنی نوع انسان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ ان کے چند قریب ترین دوست اور رفقائے کار اس موذی مرض میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ویسے بھی اہل مغرب کی اور خصوصاً وہاں کے پیسے والے اور نامور لوگوں کی یہ خوبی قابل رشک ہے کہ وہ فلاحی کاموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں بلکہ اپنی جیب سے بھی بہت کچھ دیتے ہیں۔ اس معیار پر پرکھا جائے تو ہمارے اور ان کے امیروں اور فن کاروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ لوگ اپنے مال و دولت سے ضرورت مندوں اور مستحقین کی مدد بھی کرتے ہیں۔ بیماریوں کی تحقیقات کے لیے فلاحی ادارے قائم کرتے ہیں، درسگاہیں اور میوزیم قائم کرتے ہیں مانا کہ ہمارے فن کاروں کے مقابلے میں ان کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہوتی ہے لیکن ہمارے فن کار اپنی حیثیت اور آمدنی کے مطابق تو بھلائی کے کاموں کے لیے تھوڑی بہت رقم نکال سکتے ہیں مگر افسوس کہ یہ بھی شاذو نادر ہی سننے میں آتا ہے۔ فلاحی اور امدادی کاموں میں شرکت کے لیے بھی یہ معاوضے وصول کر لیتے ہیں۔ کوئی بہت زیادہ غنی ہوا تو وہ معاوضہ نہیں لیتا مگر آمد و رفت کا فرسٹ کلاس کا ائیر ٹکٹ اور فائیو اسٹار ہوٹل مین قیام و طعام کا مطالبہ ضرور کرتا ہے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ شاید الزبتھ ٹیلر کے بہت سے گناہ تو ان کے فلاحی اور انسانی ہمدردی کے کاموں کے صلے میں معاف ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں ہے۔ نہ جانے اسے کس بندے کی کون سی نیکی پسند آجائے اور وہ اس کی بخشش کر دے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے مولویوں اور اسلام کی تبلیغ کرنے والے اداروں نے حقوق اللہ پر بہت زور دیا ہے بلکہ جنت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بہت سے من گھڑت شارٹ کٹ بھی بتاتے رہتے ہیں مثلاً فلاں دن عبادت کرنے سے ستر ہزار نفلوں کا ثواب مل جاتا ہے یا فلاں آیت یا درود شریف پڑھنے سے نہ صرف تمام مشکلات آسان ہو جاتی ہیں بلکہ جنت کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ کم علم اور ضعیف الاعتقاد لوگوں کی اکثریت مولوی صاحب کی اس قسم کی تاویلیں سن کرجنت کے لیے بکنگ کرا لیتی ہیں اور حقیقی اسلام کی روح سے نابلند ہی رہتی ہے۔ ایک اور بہت بڑی کمی اور قباحت یہ ہے کہ ہمارے علماء سارا زور کلام حقوق اللہ پر ہی صرف کر دیتے ہیں۔ حقوق العباد اور بنیادی تہذیب و شائستگی کے آداب پر توجہ نہیں دیتے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ حقوق العباد کو اسلام میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہاں تک کہ فرمایا گیاہے کہ میرے گناہ تو میں معاف کر سکتا ہوں لیکن مخلوق کے ساتھ کیے جانے والے ظلم و نا انصافی کومعافی اور درگزر وہی شخص کر سکتا ہے جو اس کا نشانہ بنے۔ یہی وجہ ے کہ ہماری اکثریت بنیادی اخلاقی قدروں اور انسانی ہمدردی کے جذبوں سے تہی دامن ہے۔ نماز، روزہ ، حج، عمرہ، مزارات کی زیارت اور کسی حد تک زکوۃ کے بعد ایک عام مسلمان خود کو جنت کا حق دار سمجھنے لگتا ہے۔
اس کے برعکس مغرب میں معیار مختلف ہے۔ مذہبی عبادات پر عمل کرنے والوں کی تعداد وہاں اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن جہاں تک اخلاق و شائستگی اور بنیادی انسانی ہمدردی کا تعلق ہے وہ لوگ ہم مسلمانوں سے کہیں بہتر ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔ مصیبت زدوں سے ہمدردی کا اظہار اور ان کی امداد کرتے ہیں۔ روز مرہ زندگی میں عموماً سچ بولتے ہیں۔ صاف گو ہیں، دھوکا اور فری سے اجتناب کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے غریبوں، ناداروں، مصیبت زدگان اور بھوکوں کے لیے یورپ کے ملکوں میں باقاعدگی سے چندہ جمع کیاجاتا ہے۔ دکانوں میں دنیا کے مختلف ممالک کے ضرورت مندوں کی امداد کے صلے میں چندے کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان میں سکے ڈالتے رہتے ہیں۔ اس طرح انہیں انسانوں سے ہمدردی اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ا س برعکس ہمارا آپ کا تجربہ اور مشاہدہ اس سے مختلف ہے۔ ہم مسلمان ہونے کے باوجود بنیادی اسلامی قدروں سے نا واقف اور ان کی طرف سے قطعی بری الذمہ ہیں۔ ہماری ذاتی کردار پر مذہبی عبادات کاکوئی اثر نظر نہیں آتا بلکہ اکثرا س کے برعکس ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ ہماری تبلیغی جماعتوں سے وابستہ اصحاب حقیقتاً تبلیغ کے لیے اپنا قیمتی وقت وقف کرتے ہیں لیکن ان کی تبلیغ محض عبادات اور رسومات کی حد تک ہوتی ہے۔ بنیادی انسانی کردار کی بہتری کے لئے وہ اپنی جدوجہد سے تبلیغ نہیں کرتے اور پھر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ مسلمانوں میں اسلام کی تبلیغ کرنے پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے۔ اگر یہی وقت غیر مسلموں میں تبلیغ کرنے پر صرف کیا جائے تو یہ ایک موثر نتیجہ خیز اور بامقصد کام ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمارا کردار ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنے کردار سے لوگوں کو متاثر کیا تھا لیکن آج کے معاشرے میں کردار پر خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر تبلیغ کرنے والا بذات خود ایک مثالی کردار کا مالک نہ ہوگا تو اس کی تبلیغ رائیگاں ہی جائے گی یا کم از کم اس کا اثر بہت کم ہوگا۔