مسئلہ کشمیر اور اُس کی فعالیت (1)
ایک دکان کے کاؤنٹر پر لکھا تھا: ”یہاں مسئلہ کشمیر کے حل تک اُدھار بند ہے“۔ مَیں نے دکاندار سے پوچھا: ”اگر مسئلہ کشمیر حل ہو گیا تو کیا آپ اُدھار دینا شروع کر دو گے“؟اُس نے جواب دیا: ”دونوں نا ممکن ہیں“۔ مسئلہ کشمیر کا حل اس لئے نا ممکن سمجھا گیا، کیونکہ کشمیر کا مسئلہ، نہ مسئلہ تھا اور نہ ہی مسئلہ بن سکتا تھا،بلکہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے ذریعے اس معاملے کو مسئلہ بنایا گیا، تاکہ کشمیر کے مسئلہ کے ذریعے مستقبل میں کسی خاص مناسب مرحلے پر تقسیمِ ہند کو مسئلہ بنایا جا سکے اور تقسیم کے نظریے کی سچائی کو مشکوک کیا جا سکے۔ اس نتیجے کے حصول کے لئے تقسیم ہندسے پہلے دو انتظامات کئے گئے۔ اول، دونوں ممالک کے درمیان آبادی کے ممکنہ تبادلے کے بارے میں کوئی پیش بندی نہیں کی گئی۔ چونکہ اتنی بڑی ممکنہ ہجرت کے لئے کوئی ضابطہ یا انتظامی بندوبست نہیں کیا گیا تھا، اس لئے دونوں طرف سے لوٹ مار اور قتل عام نے شدید نفرت کے ایسے بیج بو دیئے جو آج تناور درخت کی صورت اختیار کر گئے ہیں منصوبے کے مطابق یہ آگ کبھی نہیں بجھ سکے گی۔
یہ بات تو جہ طلب ہے کہ یہ قتل عام تقسیم کے بعد وقوع پذیر ہوا۔ اس منصوبے کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ دو قومی فارمولے کی روشنی میں کشمیر کا مسئلہ طے نہیں کیا گیا، بلکہ اس غیر فیصلہ شدہ مسئلے کو مزید ہوا دینے کے لئے تقسیم کے آخری مراحل میں اچانک گور دا سپور کو بھارت کے حوالے کر دیا گیا، تاکہ بھارت کے لئے کشمیر میں داخل ہونے کا واحد راستہ مہیا کیا جا سکے۔ 72برسوں میں مسئلے کا لفظ کشمیر کے نام کا لازمی جزو بن چکا ہے،اِس لئے معنوی اعتبار سے ”مسئلے“ کے لفظ کی تفہیم ضروری ہے۔ مسئلہ کی تعریف یہ ہے: ”مسئلہ اُس امر کو کہتے ہیں جو فیصلہ طلب ہو اور اُسے فیصلے کے لئے پیش کیا جا سکے“۔
کشمیر کا فیصلہ تقسیم سے قبل بھی اُن طاقتوں نے نہ کیا جو مکمل تقسیم کی ذمہ دار تھیں اور آج بھی شعلہ زن کشمیر فیصلے کا منتظر ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پوری دنیا کے ضمیر کا مسئلہ بن چکا ہے۔کشمیر کے حوالے سے تین سوال پوری دنیا کے سامنے معلق ہیں، جن کا جواب دئیے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ جیورِس ڈکشن کا فیصلہ کئے بغیر کوئی ادارہ اندھا دھند فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ جب بھی کوئی مسئلہ حل طلب ہو تو فیصلہ کرنے والی اتھارٹی کے لئے واجب ہے کہ فیصلہ کرنے کی کارروائی کا آغاز کرنے سے پہلے وہ یہ فیصلہ کرے کہ کیا اُسے یہ فیصلہ کر نے کا اختیار حاصل بھی ہے یا نہیں، یعنی کیا یہ مسئلہ اُ س کے دائرہ اختیار میں ہے۔کشمیر کے معاملے میں فیصلہ کرنے سے قبل یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ بھارتی پارلیمنٹ کو کشمیر کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ بھارتی پارلیمنٹ جب یہ فیصلہ کر رہی تھی اُس وقت وہ صرف بھارت کی پارلیمنٹ تھی، دنیا بھر کی پارلیمنٹ نہیں تھی۔
جموں وکشمیر کی ریاست اُس خاص مرحلے میں بھارت کا حصہ نہیں تھی۔ یہ متنازعہ ریاست آئینی سطح پر مخصوص جداگانہ خدوخال رکھتی تھی۔ بھارت کے آئین کے باب 6 میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ بھارت کے آئین کا اطلاق جموں و کشمیر پر نہیں ہوگا۔ یہ ریاست، بھارت کی دیگر ریاستوں اور صوبوں سے بھی قابلِ امتیاز تھی۔ مہاراجہ کشمیر سے معاہدے اور انڈیا کے آئین کی رُو سے بھارت کی حکومت کے کسی ادارے یا عہدیدار کو اختیار نہیں تھا کہ ریاست کشمیر کی مرضی کے بغیر کشمیر کے بارے میں کوئی قانون سازی کر سکے یا کسی قانون میں یکطرفہ تبدیلی کر سکے۔ کسی بھی تنازعے کے ایک فریق کو یکطرفہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہوتا بھی نہیں۔ یہ غیر قانونی تھا تو پھر مودی نے یہ غیر قانونی چھلانگ کیوں لگا دی؟ مودی نے راشٹریہ سیوک سنگھ کے ہندو نیشنل ازم کے خواب کا پیچھا کرتے ہوئے اپنی حالیہ انتخابی مہم میں کئی وعدے کئے تھے۔ قانون اور آئین کو پسِ پُشت ڈال کر کشمیر پر ہاتھ ڈال دیا،اس طرح دو قومی نظریہ کی سچائی پر مہر ثبت کردی۔
اس سلسلے میں محض یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ کشمیر کے معاملے میں داخلیت اگر خارجیت کو خارج کرتی ہے تو کشمیر کی داخلیت بھی کسی خارجیت کو روک سکتی ہے۔ ادغام کی ہر کارروائی جو کسی انسانی گروہ کو قومی وجود سے محروم کرتی ہے، قابل مزاحمت ہوتی ہے۔ جب کشمیر بطور کشمیر، اپنی ثقافتی شناخت کھو دے، اپنے علاقائی یا جغرافیائی اظہار سے محروم کر دیا جائے، بلکہ اپنے تاریخی حوالوں کو ہندوراج کی گرد میں ڈھونڈ بھی نہ سکے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا کہ کشمیریت، بھارتیت میں پہچانی نہیں جا سکے گی۔ اسے ادغام کہتے ہیں اور ادغام، اندرونی معاملہ نہیں ہوتا، اسے غاصبانہ قبضہ ہی کہیں گے۔ اگر کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے تو پہلی بار بھارت ہی کو اقوام متحدہ کا دروازہ کیوں کھٹکھٹا نا پڑا، بھارت کیوں اپنے اندرونی معاملے پر پاکستان سے معاہدے کرتا پھرتا تھا؟ شملہ معاہدہ اور لاہور معاہدے کو کس ردی کی ٹوکری میں پھینکیں؟ پاک بھارت کے درمیان چار جنگوں کاکیا جواز تھا؟ پاکستان اور بھارت 1947ء سے 2019ء تک حالت جنگ میں کیوں رہ رہے ہیں۔
اگر کشمیر کا مسئلہ اندرونی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ مودی ازم کی 15اگست کی غیر قانونی جست کی وجہ سے بین الاقوامی نگرانی میں مسئلہ ہو گیا ہے تو بین الاقوامی ریفرینڈم بھی ضرور ہوگا۔اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے۔ مہاراشٹر، گجرات، ناگالینڈ، منی پور، آسام، آندھراپردیش، تلنگانہ، سِکم، میزورام، آروناچل پردیش، گوا، کرناٹک سب بھارتی امپیریل ازم کے شکار ہیں۔ اگر کشمیر سے آزادی کی ہوا چل پڑی تو بھارت کے کئی علاقوں میں زیر سطح آب طوفان پل رہے ہیں۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کشمیر کامعاملہ اگر فیصلہ طلب مسئلہ ہے تو اس کے فریق کون ہیں؟ کیا کشمیر انڈیا کا یک فریقی مسئلہ ہے یا پاکستان اور بھارت کے درمیان دو قومی نظریئے کی تکمیل کا تنازعہ ہے یا پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کے درمیان سہ فریقی شاخسانہ ہے؟
جواہرلعل نہرو جب کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے پاس گیا تو ریفرینڈم ہی کو مسئلہ کشمیر کا حل مانا گیا۔ اگر دنیا کا ضمیر دُہرے معیار قائم نہ کرے تو ریفرینڈم واحد حل ہو گا، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کشمیر کے مسئلے میں تو کشمیری جائز قانونی اور لازمی فریق رہیں گے۔ پاکستان کشمیریوں کے حق رائے دہی کاشروع ہی سے حامی رہا ہے۔ بھارت لیت و لعل سے کام اِس لئے لے رہا ہے، تاکہ تا خیری حربوں کے ذریعے جموں و کشمیر میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر سکے، لیکن آبادی کی تبدیلی میں آرٹیکل 370اور آرٹیکل 35A بہت بڑی رکاوٹ رہے ہیں، جن کی وجہ سے بھارتی شہری کشمیر میں ملازمت کرنے، جائیداد خریدنے یا سرمایہ کاری کرنے سے قانونی طور پر روک دیئے گئے تھے۔ اِسی وجہ سے 5اگست 2019ء کو بھارتی شہریوں، کمپنیوں یا سرمایہ کاری کرنے والوں کے لئے کشمیر کے دروازے کھول دیئے گئے۔ انتخابی مہم میں بی جے پی نے بھارتی عوام سے یہی وعدہ کیا تھا اور قانونی گلوٹین کے ذریعے کشمیریوں کو دیئے گئے ایک آئینی تحفظ کا خاتمہ کر دیا۔
مسئلہ کشمیر کا فیصلہ کرنے سے پہلے ایک اہم امراس مسئلے کے ساتھ وابستہ فریقین کا تعین ہے،اس لئے یہاں دیکھنا یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا مصیبت زدہ، شکایت کنندہ حقیقی فریق کون ہے جس کا حق تسلیم نہیں کیا گیا۔ کشمیر صرف ایک زمین کا ٹکڑا ہی نہیں، کشمیر کے باشندگان اور کشمیرکی سر زمین کو جدا کرنا ظلم ہوگا۔ فرزندان کشمیر کو پس منظر میں دھکیلا نہیں جا سکتا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ دنیا میں ہر انسان در اصل انسان کے مرتبے پر تب فائز ہو سکتا ہے، جب وہ خود مختار رائے کا مالک ہو اور اُسے اپنی رائے کے اظہار کی آزادی حاصل ہو۔ اُسے جتنی آزادی حاصل ہو گی، اُتنا ہی وہ اشرف المخلوق ہوگا۔ انسان کی آزادی رائے پر قدغن لگانے والا انسان دشمن ہو تا ہے۔ پاکستان اور دنیا کا ہر با شعور انسان کشمیریوں کو یہی حقِ خودارادیت دلانے کا حامی ہے۔
کشمیریوں کی رائے کو نفی کر کے مسئلہ کشمیر کا کوئی جعلی حل دھاندلی، اودھم مچانے کے مترادف ہے۔ دنیا کا انصاف فراہم کرنے والا ہر ادارہ مصیبت زدہ اور استحقاق کے طالب کو حق سماعت دیتا ہے، مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بھارت کی پارلیمنٹ اور حکومت نے کشمیریوں کو حقِ شنوائی دیئے بغیر کشمیریوں کو تحفظ دینے والے قانون کو یکطرفہ خارج کر دیا۔ 5اگست کا عمل در اصل ایک قوم کی رائے کا قتل ہے، حالانکہ قانون یہ تھا کہ کشمیر کی ریاست کی تصدیق اور منظوری کے بغیر بھارت کی حکومت کشمیر کی ریاست کے بارے میں نہ تو قانون بنا سکتی ہے، نہ قانون کو منسوخ کر سکتی ہے اور نہ ہی کسی قانون میں ترمیم کر سکتی ہے۔ (جاری ہے)