شیشے میں بال نہ آ جائے!
وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی کے حوالے سے اپنی فکر مندی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ گرانی نے ان کی راتوں کی نیند اڑا دی ہے، انہوں نے اس حوالے سے کارروائی کا عندیہ دیا اور کہا کہ ہفتے بھر میں مہنگائی میں کمی شروع ہو جائے گی۔ ان کی نسبت ان کی کابینہ کے اہم رکن وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا خیال ہے کہ 31دسمبر سے قیمتیں کم ہونا شروع ہوں گی، یوں ایک ہی وقت میں دو مختلف باتیں ہوئیں اور توقعات کا اظہار کیا گیا، عوام تو وزیراعظم کی بات پر کان دھریں گے کہ انہوں نے ہفتے بھر میں قیمتیں کم ہونے کی نوید سنائی ہے۔ ہمیں تو شیخ رشید کی بات پر غور کا موقع ملا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ حکومت گندم اور چینی درآمد کر رہی ہے۔ اس کے باوجود قیمتیں کم نہیں ہو رہیں، عوام پریشان ہیں کہ ہر روز اشیاء خوردنی کے نرخ بڑھتے ہی جاتے ہیں۔
اس حوالے سے تاحال مشیر خزانہ محترم حفیظ شیخ کی طرف سے کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ شاید ان کے لئے مہنگائی پریشان کن نہیں ہے، ہمیں یاد آیا کہ صدر ایوب خان کے وزیر خزانہ بھی ماہرمعیشت ہی تھے۔ اس دور میں بھی چینی اور آٹے کی قلت ہوئی تو وزیر خزانہ شعیب سے سوال کیا گیا۔ انہوں نے فرمایا مجھے تو معلوم نہیں، میں پوچھ کر بتاتا ہوں کہ کیا صورت حال ہے، کیونکہ سودا تو میری اہلیہ خریدتی ہے، ایسے ہی صورت حال شاید اب بھی ہے کہ وفاقی مشیر خزانہ خاموش ہیں اور خود وزیراعظم کو وضاحت کرنا پڑتی ہے، جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کا حوصلہ اور صبر ٹوٹنے والا ہے کیونکہ اب اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ بنے گا کیا؟ کیونکہ ہمارے ملک کا یہ ریکارڈ ہے کہ اشیاء کے نرخ بڑھیں تو پھر کم نہیں ہوتے بلکہ ایسا لطیفہ بھی ہو جاتا ہے کہ چینی جواب 115روپے فی کلو تک بک رہی ہے، اس کے نرخ جب 84روپے فی کلو ہوں گے تو اسے سستا ہونا کہا جائے گا اور تعریف شروع ہو جائے گی، لیکن یہ نہیں سوچا جائے گا کہ چینی تو 52روپے فی کلو تھی۔جواب 115روپے فی کلو تک چلی گئی ہے۔ یہی صورت آٹے اور دوسری اشیاء خوردنی اور ضرورت کی ہے کہ بڑھے ریٹ واپس نہیں ہوتے اس کی مثال بکرے کے گوشت کی قیمت ہے جو بقر عید کے حوالے سے مہنگا ہوتا اور پھر سال بھر مہنگا ہی بکتا ہے کہ قیمت کم نہیں ہوتی۔
ابھی تو بات صرف چینی، آٹے اور آئل وغیرہ کی ہوتی ہے۔ لیکن ضروریات زندگی میں صرف یہی اشیاء تو شامل نہیں، نہ صرف خوراک ہی سب کچھ ہے، پہننے کو کپڑے اور پیروں کے لئے جوتوں کی بھی تو ضرورت ہوتی ہے اور یہ سب بھی مہنگے ہی ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ بچوں کے سکولوں کی فیسیں اور ان کی کتاب، کاپیاں بھی پریشان کر دیتی ہیں۔
ہمیں تو خود اپنا لڑکپن یاد آتا ہے جب ہم ہائی سکول کے طالب علم تھے۔ صبح سکول جاتے وقت سوا روپیہ جیب خرچ کے طور پر ملتا، جو شام تک ختم ہونے میں نہیں آتا تھا، سکول کے خلیفہ سے ابلے چنے کھاتے تو چار آنے میں پانچ دوست چسکا پورا کر لیتے تھے، جبکہ قلچہ ایک آنے کا ایک اور چار آنے کے پانچ ملتے تھے۔ ان دنوں چار روپے سیر دیسی گھی اور ایک روپے سیر بکرے کا گوشت تھا، یہ درست کہ تب تنخواہیں بھی سینکڑے میں ہوتی تھیں لیکن گزارہ بہت اچھا ہوتا تھا اب آمدنی زیادہ ہونے کے باوجود مشکل پیش آ رہی ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ عوام کے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے، کسی نے سوال پوچھا دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو بھوکے کا جواب تھا ”چار روٹیاں“ یوں اب بھی جواب ایسے ہی ملتے ہیں کہ روٹی دس روپے کی ہو چکی اور وزن کم ہو گیا۔ ابھی اس کے مزید مہنگا ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا وزیراعظم نے اس حوالے سے اپنی پریشانی کا جو اظہار کیا وہ اطمینان بخش تو ہے، لیکن ہمارا تجربہ تو یہی ہے کہ جو قیمت بڑھ جائے وہ کم نہیں ہوتی۔ یہ تو مصنوعی گرانی ہے جو بقول وزیراعظم ”مافیاز“ کا کارنامہ ہے۔ ہم منتظر ہیں کہ یہ مافیا کب قابو آتے ہیں، کیونکہ ابھی تک ان کے نشانے پر ”چور، اور ڈاکو“ ہیں، ان کے مطابق ایک ”ڈاکو“ لندن میں بیٹھا ہوا ہے، اور اس کی واپسی کے لئے ان کو لندن جا کر برطانوی وزیراعظم سے بات کرنا پڑی تو ضرور جائیں گے، ویسے ہمارے وزیراعظم جب جدوجہد کررہے تھے تو ثبوتوں کا ایک پورا صندوق لے کر لندن گئے تاکہ بانی کو ڈیپورٹ کرا سکیں۔ یہ تو نہیں ہوا تھا، اب بات نوازشریف کی ہے تو وہ بھی لندن میں ہیں، وزیر اطلاعات ان کی واپسی کے لئے 15جنوری کی ڈیڈ لائن بھی دے چکے اور کہتے ہیں کہ 15جنوری تک نوازشریف پاکستان میں ہوں گے اور یہاں کی جیل میں سزا کاٹیں گے۔ہمارا تو اول روز سے خیال ہے کہ محاذ آرائی ملک کے لئے اچھی نہیں اب یہی دیکھیں کہ جب زور شور والی ”دشمنی“ جاری اور بیان بازی ہو تو زبان بھی پھسل جاتی اور اکثر ایسی بات کہہ دی جاتی ہے جو عام حالات میں ممکن نہیں ہوتی۔ اس تازہ انٹرویو میں بھی وزیراعظم نے کچھ ایسی باتیں کہہ دیں ہیں جن سے نقصان کا احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ تعلق اور ایسے رشتے نازک بھی بہت ہوتے ہیں،جن پر آشیانہ بنایا ہوا ہو اور جب آپ خود اپنی گفتگو میں محتاط نہیں ہوں گے تو دوسرے کو کیا پریشانی ہے کہ وہ ایسی باتیں برداشت ہی کرنے چلے جائیں۔ باتوں ہی سے شیشے میں بال آ جاتا ہے اور ہمیں اندیشہ ہے کہ شیشے میں بال تو آتے آئے گا، کہیں شیشے میں دراڑ ہی نہ پڑ جائے، اس لئے احتیاط کی بھی ضرورت ہے، ہم تو آج بھی یہی عرض کریں گے کہ احتساب کا عمل اپنی جگہ جاری رہنے دیں، لیکن تعلقات کار تو درست کر لیں کہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔