صابرہ و شاکرہ ماں کی کہانی
26 ستمبر 2021 بروز اتوار رات 8 بج کر 58 منٹ پر میرے اوپر جو قیامت صغریٰ گزری اس گہرے صدمے سے تاحال نہیں نکل سکا ہوں، اتنی جرات و ہمت نہیں ہورہی کہ "ماں " جیسی مقدس و عظیم ہستی کیمتعلق لکھوں اور یہ بھی لکھ سکوں کہ وہ اس دار فانی سے کوچ فرما گئیں ہیں البتہ مختصر روداد لکھ دیتا ہوں ان کی خوبصورت زندگی کے واقعات پھر کسی کالم میں انشاء اللہ! والدین کے بغیر دنیا ویران اور گھر غیر آباد ہوجایا کرتے ہیں،یہ بات حقیقت اور روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس فانی دنیا سے سب نے ہی جانا ہے لیکن نجانے والدین کی جدائی کا غم ہی انسان کی کمر کیوں توڑتا ہے تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارا ان سے فطری تعلق ہوتا ہے وہ ہمارے لیے جسم و روح کی مانند ہوتے ہیں اور جب جسم سے بال نوچیں جائیں تو اتنی تکلیف نہ ہو جتنی والدین کے سایہ شفقت کے اٹھ جانے سے ہوتی ہے، میری والدہ مرحومہ 1970 کے عشرے میں سر زمین منچن آباد ضلع بہاولنگر پنجاب میں محمد شریف سکھیرا مرحوم کے گھر پیدا ہوئیں، ابھی بمشکل 15 سال عمر ہوگی کہ والدہ مرحومہ یعنی نانی جان کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا،تو تمام بھائیوں کی تربیت و تعلیم کی ذمہ داری والدہ کے سر پر آگئیں، ماموں لوگ بتاتے ہیں کہ آپ کی والدہ نے کبھی ہمیں ہماری ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی، اور اسی بناء پر وہ اپنی دینی و دنیاوی تعلیم حاصل نہ کر سکیں، خیر اپنے بھائیوں کے رشتے کیے اور اپنی شادی کے بعد منچن آباد میں قائم ایک قدیم دینی مدرسے میں خدمات سر انجام دینے کے لیے چلیں گئیں، وہاں جانے کے لیے ان کو سب کچھ چھوڑنا و بیچنا پڑا یعنی اپنے جانور و دیگر چیزیں رشتہ داروں کو حصے پر دیکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہاں منتقل ہوگئیں۔
یہ 2000 سنہ کی بات ہے یہی سال میری پیدائش کا بھی ہے، مجھ سے بڑے ایک بہن سمیت دو بھائی محمد جمیل غزالی سلمہ اور شکیل احمد صاحب سلمہ ہیں،والدہ مرحومہ نے وہاں بغیر غرض و لالچ کے اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر بیس سال یعنی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ صرف چند ہزار کی تنخواہ پر گزارا، ہمیشہ اس مدرسے سے مخلص رہیں، اور اپنی ڈیوٹی کی اتنی پابند تھیں کہ اپنے والد صاحب یعنی نانا جی کی وفات ہوئی تو جنازہ کے بعد دوبارہ اسی شام کو اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئیں، تمام عمر قناعت کے ساتھ گزاری، حتی کہ انہوں نے مدرسہ انتظامیہ سے کبھی گھر تک کا مطالبہ نہ کیا، لیکن مدرسے والوں سے ان کی محبت و عقیدت مثالی تھی، بس ان کی خواہش یہ تھی کہ میری اولاد دینی علوم پڑھ جائے تو ہم دو بھائیوں نے وہاں سے حفظ کیا اور فیصل آباد چلے گئے، جہاں سے گردان کے بعد میں نے درس نظامی کی تعلیم و تکمیل کے لیے جامعہ معہدالفقیرالاسلامی جھنگ کا رخ کیا اور برادر کبیر حافظ شکیل احمد صاحب مدظلہ نے فیصل آباد کے اساتذہ کرام کی خدمت کو اپنا ٹھکانہ بنایا، اور اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے صدقے قرآن مجید کی خدمت کے لیے قبول فرما لیا اور عرصہ پانچ سال سے ملائشیا میں تدریس قرآن فرما رہے ہیں، میں بھی اپنی تعلیم کے سلسلہ میں مادر علمی میں مصروف رہا، لیکن میرے والد صاحب کی طبیعت اچانک بگڑی اور مجھے عارضی چھٹی پر گھر جانا پڑا، والد صاحب کے پھیپھڑوں کا مسئلہ تھا، مکمل آپریشن ہوا جس کے باعث ان کے ساتھ ہسپتال میں ہی رہا، پھر وہ کچھ بہتر ہوئے تو میں اگلے سال کی کلاس کے لیے جھنگ چلا آیا، بشمکل چند روز ہی پڑھ پایا تھا کہ والدہ محترمہ کی طبیعت اچانک بگڑ گئی،
8 اگست 2020 کو میں جھنگ سے واپس آیا اور والدہ محترمہ کی خدمت میں مصروف ہوگیا، پھر سال بھر بہاولپور، لاہور، بہاولنگر اور جگہ جگہ کے چکر لگائے لاہور میں دم والے معروف عالم دین حضرت مفتی ظہیر شاہ صاحب مدظلہم سے دم کروائے جس کے باعث وہ چلنے پھرنے لگ گئیں اور مکمل بہتر ہوگئیں،لیکن جیسے رب العالمین کی رضا تھی کہ جگر کا کینسر پھیلتا گیا اور بالآخر 26 اگست 2021 بروز اتوار کو وہ خالق حقیقی سے جاملیں۔
ان کی زندگی بھرکبھی تہجد کی نماز قضاء نہ ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی خواب میں زیارت ہوئی، اور نمازیں بیماری کے ایام کے میں بھی چارپائی پر لیٹ کر ادا کیں،لیکن کبھی ناغہ نہ کیا، روزے تمام عمر ہر صورت میں رکھے، اور ایم ایس ہسپتال منچن آباد ڈاکٹر سید حسنین شاہ صاحب کہتے ہیں میں نے آج تک کتنے مریض دیکھے لیکن آپ کی والدہ سے بڑھ کر صابرہ و شاکرہ کسی کو نہیں دیکھا وہ جگر کے کینسر جیسی موذی تکلیف میں مبتلا ہو کر بھی شکر ادا کرتی، اور کہتی تھیں کہ مجھے کچھ نہیں ہے میں تو نمازیں پڑھ سکتی ہوں۔ تمام عمر خدمت دین میں گزاری، دو بیٹے حافظ قرآن اور ایک بیٹی عالمہ بنائی، جنہوں نے نو سال پڑھایا اور کئی سو طالبات نے ان سے پڑھا ایک بیٹا حافظ شکیل احمد ملایشیا میں حفظ قرآن کروا رہا ہے جس کے پاس کافی بچے حافظ بن چکے ہیں اور سب سے بڑا بیٹا جمیل غزالی سلمہ مسجد الحرام میں خدام میں ہیں اور سب سے چھوٹا راقم(عمیرحنفی) خود ہے غرض ان کی تمام عمر نیکی، تقوی، قناعت اور خدا تعالیٰ کی عبادت و ریاضت میں گزری۔
پوری عمر میں کسی ذی روح کو مالی و جانی نقصان نہیں پہنچایا وہ ایک بے ضرر خاتون تھیں ان کے جنازہ میں کئی سو علماء نے شرکت کی بالخصوص خادم القرآن حضرت قاری محمد یاسین صاحب دامت فیوضہم کے صاحب زادے استاد محترم حضرت مولانا قاری جمیل الرحمن صاحب مدظلہم جامعہ دارالقرآن فیصل آباد سے تشریف لائے غرض تمام طبقات سے لوگ جنازے میں شریک ہوئے، امام صحافت استاذ محترم جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب، جناب ایثار رانا صاحب، مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہم،شاعر اسلام حضرت سید سلمان گیلانی صاحب، حضرت جی پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی مدظلہم کے صاحبزادہ حضرت مولانا پیر سیف اللہ احمد نقشبندی مجددی مدظلہم، مناظر اسلام مولانا الیاس گھمن مدظلہ، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کے صاحبزادہ مولانا احمد حنیف جالندھری صاحب، استاد الحدیث جامعہ امدادیہ حضرت مولانا مفتی محمد زاہد صاحب، شیخ الحدیث حضرت مولانا پیر حبیب اللہ نقشبندی مدظلہ، معروف مصنف علامہ عبدالستار عاصم صاحب، معروف عالم دین مولانا عبد الرؤف محمدی اور ترجمان وفاق المدارس حضرت مولانا عبد القدوس محمدی صاحب مدظلہما، مرکزی ناظم عمومی ایم ایس او پاکستان سردار مظہر صاحب، معروف سوشل ایکٹیوسٹ جناب عمار خان یاسر صاحب سمیت بیسیوں شخصیات نے والدہ مرحومہ کی تعزیت و دعائے مغفرت فرمائی۔ وہ یقیناً صابرہ و شاکرہ خاتون تھیں خدائے واحد ان کی مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ راحتیں نصیب فرمائے آمین