یوکرین میں امریکہ ہمیں روس کے ساتھ جنگ میں دھکیل رہا ہے  

 یوکرین میں امریکہ ہمیں روس کے ساتھ جنگ میں دھکیل رہا ہے  
 یوکرین میں امریکہ ہمیں روس کے ساتھ جنگ میں دھکیل رہا ہے  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


  دنیا ہماری وجہ سے ایک اور عالمی جنگ کے خطرے سے دوچار کیوں ہو؟ ہم ایسے جھوٹ پھیلانے کی اجازت کیوں دیں جو اس خطرے کا جواز فراہم کریں؟ ہورالڈ پنٹر کے الفاظ میں، ہماری تلقین کا معیار اتنا اچھااور پرمغز ہے کہ دوسروں کے ذہن کو فوراً متاثر کر لیتا ہے۔ایساتاثر جاتا ہے گویا اس کے علاوہ کوئی اور سچائی ہوہی نہیں سکتی۔“
 امریکی مورخ، ولیم بلم(William Blum)”امریکی خارجہ پالیسی کے تازہ ترین ریکارڈ کا خلاصہ“ ہرسال شائع کرتے ہیں۔اس کے مطابق امریکہ نے 1945  ء سے پچاس سے زیادہ حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے بہت سی جمہوری طور پر منتخب شدہ تھیں۔ صرف یہی نہیں، امریکہ نے تیس ممالک کے انتخابی عمل میں مداخلت کی، اتنے ہی ممالک کی شہری آبادیوں پر بم برسائے، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیے اور غیر ملکی رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ کئی ایک واقعات میں برطانیہ اس کا معاون رہا ہے۔ جدید ترین ذرائع ابلاغ اور نام نہاد صحافتی آزادی کے باوجود مغرب میں انسانی اذیت، چہ جائیکہ مجرمانہ سرگرمی، کا اعتراف نہیں کیا جاتاکہ دھشت گردی۔۔۔”ہماری“ دھشت گردی۔۔۔ کا شکار ہونے والے زیادہ افراد مسلمان ہیں۔ جو جہادی سوچ گیارہ ستمبر کے واقعات کا باعث بنی، اس کے بیج اینگلو امریکن پالیسی (آپریشن سا  ئیکلون، افغانستان)کے تحت بوئے گئے تھے، اور جس کے بعد اگنے والی فصل کو روندڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اپریل میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے دیکھا کہ نیٹو کی 2011 ء کی کارروائی کے بعد ”لیبیا دھشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔“
”ہمارے“دشمن کا نام گزشتہ برسوں کے دوران کمیونزم سے تبدیل ہوکر اسلام ازم ہوگیالیکن عام طور پر یہ کوئی بھی معاشرہ ہوسکتا ہے جو مغربی طاقت سے آزاد ہو اور تزویراتی طور پر فائدہ مند یا وسائل سے مالا مال علاقہ رکھتا ہو، یا محض امریکی تسلط قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو، رکاوٹ بننے والی قوموں کے رہنماؤں کو طاقت اور تشدد کے استعمال سے اقتدار سے نکال باہر کیا جاتا رہا، جیسے ایران میں جمہوریت پسند محمد مصدق، گوئٹے مالا میں اربنز اور چلی میں سلواڈور ایلینڈے، یا انھیں جمہوریہ کانگو میں پیٹریس لومومبا کی طرح قتل کر دیا جاتا ہے، ان سب کو پہلے مغربی میڈیا توہین آمیز مہم کا نشانہ بناتا ہے، اب اسی پیرائے میں فیڈل کاسترو، ہیوگو شاویزاور اب ولادیمیر پوتن پر غور کریں۔ 


یوکرین میں واشنگٹن کا کردار صرف اس کے مضمرات کی وجہ سے ہمیں مختلف دکھائی دیتا ہے۔ صدر ریگن کے دور کے بعد پہلی بار امریکہ دنیا کو جنگ میں جھونکنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ جس دوران مشرقی یورپ اور بلقان نیٹو کی فوجی چوکیاں بن چکے، روس سے متصل آخری بفر ریاست، یوکرین کوامریکہ اور یورپی یونین کی فسطائی قوتیں توڑ کر الگ کرنے اور اپنے ساتھ ملانے کی کوشش میں ہیں۔ ہم مغرب میں اب ایک ایسے ملک میں نیو نازیوں کی حمایت کر رہے ہیں جہاں یوکرین کے نازیوں نے ہٹلر کی حمایت کی تھی۔
فروری میں کیف میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت تیار کی گئی۔ کریمیا جو کہ تاریخی طور پر روس کا گرم پانی کا بحری اڈہ ہے، پر واشنگٹن کا قبضہ کرنے کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ روسیوں نے اپنا دفاع کیا، جیسا کہ انھوں نے تقریباً ایک صدی سے مغرب کے ہر خطرے اور حملے کا مقابلہ کیا ہے۔ لیکن روس کا گھیراؤ کرنے کا نیٹو منصوبہ تیز ہوتا جارہا ہے۔ امریکی پشت پناہی سے یوکرین میں روسی نسل کے افراد پر حملے بھی اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔ اگر پیوتن کو ان کی مدد پر اکسایا گیاتوپھر ان کے ”فسادی کردار“ کو جواز بنا کر نیٹو کی مدد سے گوریلا جنگ شروع کردی جائے جو روس کے اندر تک پھیل سکتی ہے۔ 
اس کے بجائے پیوٹن نے واشنگٹن اور یورپی یونین کے ساتھ مفاہمت کرتے ہوئے یوکرین کی سرحد سے روسی فوجیوں کو واپس بلالیا۔ نیز ہفتے کے آخر میں ہونے والے روسی نسل کے افراد کو مشرقی یوکرین میں اشتعال انگیز ریفرنڈم سے بھی روک دیا۔ ایسا کرتے ہوئے پیوتن نے جنگ پر تلے ہوئے فریق کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ روسی بولنے والے باشندے یوکرین کی آبادی کا ایک تہائی ہیں۔ یہ طویل عرصے سے ایک جمہوری وفاق کی تلاش میں ہیں جو ملک کے نسلی تنوع کی عکاسی کرتا ہو۔نیز یہ کیف اور ماسکو، دونوں سے آزاد ہو۔ زیادہ تر نہ تو علیحدگی پسندہیں اور نہ ہی باغی، جیسا کہ مغربی میڈیا انھیں قرار دیتا ہے۔ یہ وہ شہری ہیں جو پرامن طریقے سے اپنے وطن میں رہنا چاہتے ہیں۔ 


عراق اور افغانستان کے کھنڈرات کی طرح یوکرین کو بھی سی آئی اے کے تھیم پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اسے ذاتی طور پر کیف میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن چلاتے ہیں۔سی آئی اے اور ایف بی آئی کے درجنوں خصوصی یونٹس رکھنے والا ایک سکیورٹی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے۔ فروری کے شب خون کی مخالفت کرنے والوں پر حملے کیے گئے۔ ویڈیوز دیکھیں، اس ماہ اوڈیسا میں ہونے والے قتل عام پرعینی شاہدین کی رپورٹیں پڑھیں۔ فسطائی غنڈوں نے ٹریڈ یونین ہیڈ کوارٹر کو جلا دیا، اندر پھنسے 41 افراد جل گئے۔ ساتھ کھڑی پولیس محض تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ ایک ڈاکٹر نے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ”لیکن مجھے یوکرین نواز نازی بنیاد پرستوں نے روک دیا۔ ان میں سے ایک نے مجھے بدتمیزی سے دھکا دیتے ہوئے کہاکہ جلد ہی میرا اور اوڈیسا کے دوسرے یہودیوں کا بھی ایسا ہی انجام ہوگا۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں میرے قصبے میں فاشسٹ قبضے کے دوران بھی ایسے مناظر دیکھنے میں نہیں آئے تھے۔ میں حیران ہوں کہ ساری دنیا خاموش کیوں ہے۔“


روسی بولنے والے یوکرین کے باشندے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جب پیوٹن نے سرحد سے روسی فوجیوں کے انخلاکا اعلان کیا تو کیف حکومت کے سیکرٹری دفاع، آندری پاروبی، جو کہ فاشسٹ سووبودا پارٹی کے بانی رکن ہیں، نے فخر یہ انداز میں کہا کہ ”باغیوں“پر حملے جاری رہیں گے۔ ولیم ہیگ کے بقول اورجارج اورویل کے بیان کردہ انداز میں مغرب میں پروپیگنڈے نے اسے ماسکو میں ”تصادم اور اشتعال پھیلانے کی کوشش“میں تبدیل کر دیا ہے۔ اوڈیسا کے قتل عام کے بعد تحمل کا مظاہرہ کرنے پر اوباما کی جانب سے بغاوت کرنے والی جنتا کو مبارک باد دی گئی تھی۔ اوباما کا کہنا ہے کہ جنتا منتخب حکومت ہے۔ جیسا کہ ہنری کسنجر نے ایک بار کہا تھا:  ”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سچ کیا ہے، اصل بات یہ ہے کہ کسے سچ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔“ 
امریکی میڈیا میں اوڈیسا میں ڈھائے جانے والے مظالم کو ”مبہم سانحہ“ کے طور پر پیش کیا گیا جس میں قوم پرست، نیو نازیوں نے علیحدگی پسندوں پر حملے کیے تھے۔ روپرٹ مرڈوک کے وال سٹریٹ جرنل نے متاثرین کی ہی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ حکومت کے مطابق یوکرین میں فسادات کی آگ باغیوں کی چنگاری کی  وجہ سے بھڑک اٹھی ہے۔ جرمنی میں ہونے والا پروپیگنڈا سرد جنگ کی یاد دلاتا ہے۔ جرمن قارئین کو باور کرایا جارہا ہے کہ روس نے غیر اعلانیہ جنگ شروع کررکھی ہے۔جرمنوں کے لیے یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ پوتن وہ واحد رہنما ہیں جنھوں نے اکیسویں صدی کے یورپ میں فاشزم کے عروج کی مذمت کی تھی۔ 


ایک مقبول سچائی یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد دنیا بدل چکی ہے۔ لیکن کیا بدلا ہے؟ عظیم سیٹی بلور ڈینیئل ایلسبرگ کے مطابق، واشنگٹن میں ایک خاموش تبدیلی وارد ہوئی ہے۔ اب وہاں شدت پسند عسکریت پسندی کا راج ہے۔ پینٹاگون اس وقت 124 ممالک میں خصوصی آپریشنز(خفیہ جنگیں)چلا رہا ہے۔ اپنے ملک میں ایک دائمی جنگی ریاست بنے رہنے کا تاریخی نتیجہ اس غربت اور آزادی کے نقصان کی صورت نکلا ہے۔ اب اس میں ایٹمی جنگ کا خطرہ شامل کریں۔سوال یہ ہے کہ: ہم اسے کیوں برداشت کرتے ہیں؟

مزید :

رائے -کالم -