مرثیہ سب سے قدیم اور خالص ادبی صنف ہے،مرزا امام بیگ 

  مرثیہ سب سے قدیم اور خالص ادبی صنف ہے،مرزا امام بیگ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حیدرآباد (پ ر)مرثیہ کائنات کی سب سے قدیم ترین اور خالص ادبی صنف ہے جسے مذہبی و مسلکی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر زوال پذیر ہونے سے بچانے کے لئے کوششیں لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لئے یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مرثیہ کائنات میں سب سے قبل سندھی زبان میں ہی لکھا گیا۔ان خیالات کا اظہار سابق ڈائریکٹر کالیجز حیدرآباد ڈاکٹر مرزا امام علی بیگ افسر، زوار عبدالستار درس، فہیم ببر، محمد وارث عباسی و دیگر نےآج عباسی لائبریری قاسم آباد میں عزادار رابطہ کمیٹی حیدرآباد کی جانب سے سندھی مرثیہ کی تاریخ کے عنوان سے منعقدہ ادبی و فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مرثیہ سانحہ کربلا کے بعد تو نہیں لکھا گیا، ہاں یہ ضرور ہے کہ سانحہ کربلا کے وقوع پذیر ہونے کے بعد مرثیہ کربلا سے منسوب ہوگیا لیکن تاریخی حقائق تو یہی ہیں کہ کائنات میں صنفِ شاعری کی ابتدا ہی مرثیہ سے ہوئی ہے۔ مرثیہ ایسی شاعری کو کہا جاتا ہے جس میں شاعر اپنے روحانی درد، کرب و اضطراب کا دردناک انداز میں اظہار کرتا ہے۔ اس وقت سندھی ادب کی یہ قدیم ترین اور خالص ادبی صنف تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے اسلئے یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی اس قدیم ترین ادبی صنف کو زوال پذیر ہونے سے بچانے کے لئے بھرپور و سنجیدہ کوششیں لیں۔ اس موقعہ پر ڈاکٹر مرزا امام علی بیگ افسرنے حیدرآباد شہر میں جلد مرزا مراد علی بیگ سائل اور سندھی مرثیہ کے عنوان سے سیمینار کروانے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل پروگرام کی ابتدا مولانا زاہد حسین جعفری نے تلاوت کلام پاک سے کی. پروگرام کی میزبانی کے فرائض محمد وارث عباسی نے سرانجام دیئے۔ پروگرام کی آخر میں ڈاکٹر مرزا امام علی بیگ افسر نے مرثیہ کے موضوع پر گرانقدر تحقیقی خدمات سرانجام دینے کے اعتراف میں زوار عبدالستار درس کو اعزازی طور پر اسمِ پنجتن عہ کا تحفہ پیش کیا۔