نوز شریف کی سزا معطل ، تونہ خانہ ریفرنس میں دائمی وارنٹ گرفتار منسوخ ، ضمانت منظور، العزیزیہ ، ایوان فیلڈریفرنس فیصلوں کے خلاف اپیلیں بحال کرنیکی درخواستوں پر نیب کو نوٹس جاری ، حفاظتی ضمانت میں توسیع
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک ، نیوز ایجنسیاں) پنجاب کی نگران حکومت نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی سزا معطل کردی۔ نگران پنجاب کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سزا معطلی کی منظوری دی ہے، نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے نواز شریف کی سزا معطلی کی تصدیق کر دی ہے۔عامر میرکے مطابق نگران کابینہ نے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سزا معطل کی، کرمنل پروسیجرل کوڈ کے سیکشن 401 کے تحت نواز شریف کی سزا معطل کی گئی ہے۔ سزا معطلی کی درخواست نواز شریف کی جانب سے دی گئی تھی۔ نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر کا کہنا ہے کہ کیس کا حتمی فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کرمنل پروسیجرل کوڈ کے سیکشن 401 کے تحت حکومت کسی بھی مجرم کی سزامعاف کرنےکا اختیار رکھتی ہے،نواز شریف کی 2019 میں لندن روانگی سے قبل بھی سیکشن 401 کے تحت سزا معطل کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد قومی احتساب بیورو(نیب) نے سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا تھا۔بعازاں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں مسلم لیگ(ن)کے قائد نواز شریف دائمی وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے ان کی کی 10 لاکھ کے مچلکوں کے عوض درخواست ضمنات منظور کر لی ، عدالت میں نواز شریف کے ضمانتی کے طور پر ن لیگی رہنما طارق فضل چودھری کو مقرر کیا گیا، توشہ خانہ ریفرنس کیس کی سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر دی گئی ، آئندہ سماعت پر نقول تقسیم کی جائیں گی، جائیداد ضبطگی کی درخواست پر عدالت نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 20 نومبر کو دلائل طلب کر لیے ۔ منگل کو پاکستان مسلم لیگ(ن)کے قائد، سابق وزیر اعظم نواز شریف توشہ خانہ کیس میں چار سال بعد اسلام آباد ہائی کورٹ اور احتساب عدالت اسلام آباد میں پیش ہوئے ۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کے بعد انہیں واپس جانے کی اجازت دے دی۔ بعد ازاں عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کیس کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ۔فیصلہ احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے جاری کیا ہے۔ چار صفحے پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف کی جانب سے ضم شدہ پراپرٹی بحال کرنے کی درخواست دائر کی گئی جس کے تحت نیب کو نوازشریف کی ضم شدہ پراپرٹی بحال کرنے سے متعلق درخواست پر آئندہ سماعت کے لئے نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔فیصلے کے مطابق نوازشریف کی حاضری کے لیے وارنٹ جاری کیے گئے تھے جس پر وہ عدالت میں پیش ہوئے۔تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ نیب کے مطابق نوازشریف کی گرفتاری درکار نہیں، وارنٹ کا مقصد عدالت حاضری تھا جو مکمل ہو گیا۔ نیب کے بیان اور دلائل کی روشنی میں نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری معطل کئے جاتے ہیں۔فیصلے کے مطابق نوازشریف ضمانتی مچلکے جمع کروانے کے لئے تیار ہیں۔ نوازشریف کو 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا جاتا ہے۔فیصلے میں بتایا گیا کہ حاضری سے استثنیٰ کےلئے نوازشریف کے پلیڈر مقرر کرنے کی درخواست بھی دائر کی گئی ۔ وکیل صفائی کے مطابق نوازشریف بیمار ہیں، ہر سماعت پر عدالت پیش نہیں ہوسکتے جس کے باعث عدالتی کارروائی تاخیر کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔ نواز شریف کی جانب سے رانا محمد عرفان کو ان کا پلیڈر مقررکیا گیا ۔فیصلے میں بتایا گیا کہ نیب پراسیکیوٹر کے مطابق پلیڈر کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں اور نوازشریف کی جانب سے رانا محمد عرفان ہر عدالتی پیشی پر حاضر ہو سکتے ہیں۔نوازشریف کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت 20 نومبر تک ملتوی کی گئی ۔۔دریں اثنااسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپیلیں بحال کرنے کی درخواستوں پر قومی احتساب بیوتو (نیب) کو نوٹس جاری کردیا۔نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواستوں پر چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل خصوصی بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت وکیل اعظم نذیر تارڑ روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ آسان الفاظ میں یہ اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہمیں اس پر نوٹس جاری کر کے نیب کو سننا ہے۔ اس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میں آپ کو دلائل دےکر مطمئن کروں گا۔عدالت نے استفسار کیا کہ جب ڈیکلریشن اس قسم کا دیا جائے تو کیا وہ پھر کہہ سکتے ہیں اپیلیں بحال کریں ؟ نواز شریف نے مطمئن کرنا ہے کہ کیوں وہ اشتہاری ہوئے؟ وہ عدالت کیوں پیش نہیں ہوتے رہے؟ ایک بات کلیئر کردوں آپ قانون کے مطابق چلیں گے۔اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھاکہ نواز شریف جان بوجھ کر غیر حاضر نہیں رہے، نواز شریف عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے، ہم عدالت میں میڈیکل رپورٹس پیش کرتے رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کی کسٹڈی اس عدالت کے تحت تھی آپ دوسری عدالت چلے گئے۔اس پر وکیل اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھاکہ دوسری عدالت سے ریلیف سے متعلق ہم نے اس عدالت کو آگاہ کیا تھا، آئین کے آرٹیکل 10 اے سے پہلے کی صورت حال مختلف تھی۔چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھاکہ آرٹیکل 10 اے میں حیات بخش کیس کا فیصلہ بھی ہے، اپیلوں کی بحالی روٹین کا معاملہ نہیں، آپ کومطمئن کرناہے کہ آپ عدالت سے غیرحاضرکیوں رہے؟ وکیل اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ نیب کورٹ نے اشتہاری کا سٹیٹس ختم کردیا ، نواز شریف نے اس تمام وقت کے دوران بہت سی مشکلات دیکھی ہیں، ان کی والدہ اور اہلیہ کی وفات اس دوران ہوئی۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ تمام الزام عدالتوں پر ڈال دیا جاتا ہے، نیب کا کنڈکٹ تو دیکھیں، چیئرمین نیب سے ہدایات لے لیں عدالت کاوقت کیوں ضائع کررہے ہیں؟ چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کہ نیب اگرسمجھتاہے کہ ریفرنسز غلط دائر ہوئے تو وہ واپس لے لیں، اگر ریفرنسز واپس لینے ہوں تو کیسے لیے جا سکتے ہیں؟ اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا، ایسا نہ کریں، نواز شریف پر بہت سے الزامات لگائے گئے، نواز شریف کو عدلیہ اور آئین سرخرو کریں گے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ نیب جب کسی چیزکی مخالفت ہی نہیں کررہاتوپھراپیلیں کیسی؟ چیئرمین نیب سے ہدایات لےکرہمیں بتائیں، ہمیں واضح بتادیں تاکہ ہم فیصلہ دے کر کوئی اور کام کریں۔چیف جسٹس اسلام آباد نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے سوال کیا کہ پھر پوچھ رہے ہیں کیانیب نوازشریف کو گرفتار کرنا چاہتا ہے؟ اس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ نہیں، ہم نوازشریف کوگرفتار نہیں کرنا چاہتے۔چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ کیا نیب کو نوازشریف کی حفاظتی ضمانت میں توسیع پر کوئی اعتراض ہے؟ تو پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب میں کہا کہ نہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔عدالت نے نواز شریف کی حفاظتی ضمانت میں 26 اکتوبر تک توسیع کرتے ہوئے نیب کو نوٹس جاری کردیا۔خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی آج تک حفاظتی ضمانت منظور کر رکھی تھ اور انہیں آج تک گرفتار کرنے سے روکنے کا حکم دے رکھا تھا، نیب نے نوازشریف کو حفاظتی ضمانت ملنے پرکوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ اس سے قبل نواز شریف کمرہ عدالت میں پہنچے تو مسلم لیگ ن کے وکلاءزبردستی کمرہ عدالت میں داخل ہوگئے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمرہ عدالت کیلئے خصوصی پاسز جاری کئے تھے۔قائد مسلم لیگ ن کے کیس کی سماعت کے لئے عدالتی عملے کی جانب سے کمرہ عدالت خالی کرانے کی ہدایت کی گئی، عدالتی سٹاف نے کہا کہ جب تک کورٹ روم خالی نہیں کریں گے، بم ڈسپوزل سکواڈ سکیورٹی کلیئرنس نہیںدے گا سماعت شروع نہین ہو گی، اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر نوید ملک اور عطا تارڑ نے بھی وکلاء سے کمرہ عدالت خالی کرنے کی درخواست کی۔واضح رہے کہ قائد مسلم لیگ ن کی عدالت عالیہ پیشی کے موقع پر کارکنوں کی جانب سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں، ہائیکورٹ کے باہر لیگی کارکنوں نے نوازشریف کے حق میں نعرے بازی کی۔دوری طر ف سابق وزیراعظم نواز شریف کی اسلام آباد کی عدالتوں میں پیشی کے پیش نظر پولیس نے انہیں خصوصی سیکیورٹی فراہم کر دی۔ نوازشریف کی سیکیورٹی اسکواڈ میں 3 اسپیشل پولیس وینز بھی شامل کردی گئیں، اے ٹی ایس اہلکاروں کا خصوصی دستہ بھی نواز شریف کے ساتھ تعینات کردیا گیا۔ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر 500 اہلکار،ہائیکورٹ میں 300 اہلکار تعیناتکئے گئے جبکہ پولیس نے ہائی کورٹ جانے والے راستوں کو خار دار تاریں لگا کر بند کردیا۔
سزا معطل