فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔جسٹس اعجاز الحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے اتفاقِ رائے سے یہ فیصلہ سنایا تاہم آرمی ایکٹ کی دو دفعات کو خلاف آئین قرار دینے سے جسٹس یحییٰ آفریدی نے اتفاقِ نہیں کیا۔عدالت عظمیٰ کے مطابق اگر کسی سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوا ہے تو وہ بھی کالعدم قرار پائے گا،عام شہریوں کے مقدمات سویلین عدالتوں میں بھیجے جائیں گے اور فیصلے کا اطلاق 9اور10 مئی کے واقعات میں ملوث زیر حراست تمام افراد پر ہو گا۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو اِس لیے انتہائی اہم قرار دیا جا سکتا ہے کہ9مئی کے واقعے میں ملوث افراد گزشتہ کئی ماہ سے پابند ِ سلاسل ہیں اور اُن پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں یا اُن کی تیاری ہو رہی ہے۔پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی سپریم کورٹ سے منظوری کے بعد(3)184 کے تحت دائر درخواستوں پر ہونے والے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دیا جا چکا ہے،پانچ رکنی بینچ کے اِس فیصلے کے خلاف بھی اپیل دائر کی جائے گی جو لارجر بینچ سنے گا۔ مستقبل میں کیا فیصلہ ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم ایک بات طے ہے کہ مقدمات چاہے سول عدالتوں میں چلیں یا فوجی میں انصاف کے تقاضے بہرحال پورے ہونے چاہئیں۔
سیاسی جدوجہد اور اپنے سیاسی حقوق کے لیے احتجاج کا حق دنیا کا ہر معاشرہ اور قانون تسلیم کرتا ہے لیکن اگر سیاسی جنگ کی آڑ میں ریاست اور ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا جائے تو پھر اِس جدوجہد پر سوال اُٹھنا قدرتی بات ہے۔اگرچہ ماضی میں فوجی عدالتوں میں سویلینز پر مقدمات چلے ہیں اور سزائیں بھی دی گئی ہیں تاہم اب جو فیصلہ سنایا گیا ہے،اُس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ 9مئی کے بعد یہ بحث مسلسل جاری ہے کہ ملزمان کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں یا سول عدالتیں یہ فریضہ بجا لائیں۔ قانون دانوں اور سیاسی رہنماؤں کا ایک بڑا حصہ یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ گرفتار شدہ سویلیز کے مقدمے فوجی عدالتوں میں نہ بھیجے جائیں جبکہ ایک بڑی تعداد اِس کے حق میں دلائل دیتی رہی ہے۔فوجی تنصیبات پر حملے کے واقعات پاکستان میں پہلی بار دیکھنے میں آئے،اِس سے پیشتر اِس گناہِ کبیرہ کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ماضی میں کسی سیاسی جماعت کے متعلقین و متاثرین نے اِس طرح کی کوئی جسارت نہیں کی،اِس لیے اب جو کچھ ہوا،اِس پر قومی سطح پر انتہائی تشویش کی لہر دوڑ گئی اور ہر باشعور پاکستانی مضطرب ہوا کہ انہونی کیونکر ہو گئی۔اسی لیے بڑی تعداد میں اہل ِ سیاست اور دانش یہ کہہ رہے تھے کہ فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والے سویلیز کو فوجی عدالتوں کے سپرد کرنا چاہئے تاکہ اُن کے معاملات تیز رفتاری سے نبٹائے جا سکیں۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جو فیصلہ سنایا ہے اُس کے بعد9مئی کے ملزموں کے خلاف فوجی عدالتوں کے مقدمات سول عدالتوں میں منتقل ہو جائیں گے۔آخری نتیجے کے لیے ہمیں لارجر بینچ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا۔سول عدالتوں کو یہ ذمہ داری نبھانی پڑی تو انہیں بغیر رکے کارروائی جاری رکھنا ہو گی تاکہ اُن پر یہ اعتماد بحال ہو کہ اُن کے سامنے پیش ہونے والے ملزم جلد از جلد کیفر کردار کو پہنچائے جا سکتے ہیں۔