نوازشریف کی آمد پر پیپلزپارٹی کی معنی خیز خاموشی

         نوازشریف کی آمد پر پیپلزپارٹی کی معنی خیز خاموشی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 سابق وزیراعظم نواز شریف کی چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد پاکستان میں آمد کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے خوش آمدید نہیں کیا گیا بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنما_¶ں کے ردعمل مختلف تھے جس میںان کی طرف سے ناراضگی کا عنصر نمایاں تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری جن کی میاں نوازشریف سے بہت قربت رہی ہے، ان کی طرف سے بھی نیک خواہشات کا اظہار نہیں ہوا۔ بلاول بھٹو زرداری جنہوں نے گذشتہ حکومت میں وزیرخارجہ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے، لندن پہنچ کر میاں نواز شریف سے ملاقات کی تھی ، اہم پیغامات کا تبادلہ ہوا تھا اور کچھ وعدے و عید بھی ہوئے تھے ، انہوں نے بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ 

میئر کراچی مرتضی وہاب کا ضمنی الیکشن ، حیران کن تھا۔ جب ضلع ملیر کی یوسی8، ابراہیم حیدری جیسے مضافاتی علاقے میں ان کے مدمقابل سات امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے گئے اور وہ بلامقابلہ جیت گئے۔ الیکشن کمیشن نے مرتضی وہاب کی کامیابی کا اعلان کردیا اور فارم 7 جاری کردیا ۔ اس فیصلے پر سوالیہ نشان برقرار رہے گا۔ 

ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور جے یو آئی ف کے درمیان اتحاد کے بعد قرین قیاس ہے کہ مسلم لیگ ن بھی اسی اتحاد کا حصہ بن جائے، اگر ایسا ہوا تو پیپلز پارٹی کےلئے سندھ میں پوزیشن برقرار رکھنا مشکل ہوگا، اگرچہ مسلم لیگ ن کا سندھ میں ووٹ بینک نہیں، لیکن عمومی تاثر کے اثرات بھی مفید ہوسکتے ہیں۔ 

کراچی سمیت سندھ بھر میں کئی بلدیاتی مخصوص نشستوں پر سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار بھی نہیں لاسکیں، خاص طور پر خواجہ سرا کی نشستیں خالی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے سیکریٹریٹ کو بہتر انداز سے چلانے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ ممبرسازی کرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن میں بھی بہتر امیدوار اتار سکیں۔ 

ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے مفتاح اسماعیل سے ملاقات کرکے انہیں ایم کیو ایم میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ ابھی ان کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا لیکن موجودہ سیاسی حالات میں سابق وزیرخزانہ کےلئے یہ پیشکش اہم ہے۔ مفتاح اسماعیل اپنی سابقہ پارٹی پر جتنی تنقید کرچکے ہیں ، اس کی وجہ سے ان کی واپسی دکھائی نہیں دیتی، جبکہ نئی پارٹی بنانے اور اس میں شاہد خاقان عباسی اور مصطفی نواز کھوکھر کی شمولیت بھی آسان بات نہیں۔ تینوں رہنما_¶ں نے اکٹھے کئی پروگرام بھی کیے ہیں اس کے علاوہ تحریک انصاف بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ ان کو وہاں سے پیشکش آسکے۔ 

گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کے حوالے سے متضاد اطلاعات زیرگردش ہیں، ان کے عرصہ اقتدار پر بات ہورہی ہے لیکن ابھی کچھ حتمی نہیں البتہ انہوں نے جرا_¿ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مظلومین سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ گورنر ہا_¶س سندھ پر شمعیں روشن کی گئیں اور مظلوم عوام کےلئے دعا کی گئی ۔ عوامی سطح پر گورنر سندھ کے اقدام کو سراہا گیا۔ 

سابق صدر آصف علی زرداری سے، سینیٹر علی گوہر مہر نے ملاقات کی اور جی ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرکے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ پاکستان میں سیاستدانوں کا یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور وہ پارٹیاں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔

نگراں وزیرداخلہ سندھ اور نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں افغان مہاجرین کی رخصتی کے عمل پر بات چیت کی ہے جس کے حوالہ سے حکومت پاکستان نے جو ڈیڈ لائن مقر کی تھی اس کے اختتام کے دن قریب آرہے ہیں اگرچہ افغان مہاجرین کے خاندان واپس جارہے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ دونوں صوبے سندھ اور بلوچستان آپس میں کوآرڈینشن میں ہیں اور یکم نومبر سے کاروائی کا ارادہ ظاہر کررہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کتنی کامیاب ہوتی ہے۔ کیونکہ جو خاندان مستقل بنیادوں پر آباد ہوچکے ہیں ان کو واپس بھجوانا بہت بڑا ٹاسک ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ وہ اسمگلنگ کی روک تھام چاہتی ہے۔ جس سے معیشت کو جو دھچکا لگا ہے، اس کا ازالہ کیا جاسکے۔ 

الخدمت تنظیم جو جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم ہے، اس نے کراچی میں مفاد عامہ کے بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے جس میں فارمیسزکا قیام اور ایک آئی ٹی یونیورسٹی قائم کرنا شامل ہے، یقینا یہ خوش آئند اعلانات ہیں۔

وحدت المسلمین کی طرف سے دفاع غزہ ریلی کا اہتمام کیا گیا جس میں کثیر افراد نے شرکت کی۔ پاکستان سے ضروری امدادی سامان بھی غزہ جانا شروع ہوچکا ہے ، لیکن اس کی مقدار بہت کم ہے۔ حتی کہ دنیا بھر سے بہت کم امداد وہاں پہنچ رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ انسانی المیہ پیدا نہ ہوجائے۔ 

٭٭٭

 بلاول اور زرداری نے بھی خوش آمدید نہیں کہا!

 جی ڈی اے ، ایم کیو ایم اور جمعیت علماءاسلام کے اتحاد میں مسلم لیگ (ن) کی

 شمولیت کا امکان، جی ڈی اے کے سینیٹر علی گوہر مہر کی پیپلزپارٹی میں شرکت!

 مفتاح اسماعیل کو ایم کیو ایم میں شمولیت کی دعوت، وہ اپنی جماعت کے باغی ہیں، نئی جماعت کا امکان کم ہے

مزید :

ایڈیشن 1 -