دوردور تک ویرانہ ہے، بات کرتی ہے تو پھول جھڑتے ہیں،میں نے گردن گھما کر دیکھا، وہ جا چکی تھی،ہمیشہ کیلئے ریل گاڑی سے بھی، میری زندگی سے بھی
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:168
”دوردور تک ویرانہ ہے۔ سکھر چھوٹاسا قصبہ ہے۔ کھجور کے باغات ہیں، مکئی کی فصل تیار ہے، ڈھلتی شام نے دن کی گرمی بہت حد تک کم کر دی ہے۔ 3 اونٹوں کا مختصر سا قافلہ ریسٹ ہاؤس کے سامنے سے گزرکر ہمارے قریب رکا ہے۔ ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار اللہ بخش کا بیٹا”سچل“ وجیہ اور کڑیل جوان آنے والے قافلے کے انتظار میں بے چین کھڑا ہے۔ اونٹ سے چند خواتین، کچھ مرد اترے۔ میری آنکھ اُن میں سے ایک پر ٹک گئی ہے۔یہ ان سب میں نوخیز، کم عمر اور شعلہ جوان ہے۔اس کے بالوں نے اس کا چہرہ ڈھانپ رکھا ہے۔ وہ سچل کی طرف بڑھی، اُسے آنکھ کا اشارہ کیا اور کھجور کے باغ سے ہوتی مکئی کے کھیت کی طرف بڑھ گئی ہے۔ میں نے نین کو اشارے سے ان کی حرکت کا بتایاہے۔ ڈوبتے سورج کی کندنی کرنیں مکئی کے لمبے پودوں پر لرز رہی ہیں۔ دونوں انہی پودوں کے درمیان کہیں جا چھپے ہیں۔ان کے جسم پر لباس ہیں لیکن وہ دنیا اور مافیا سے بے خبر ایک دوسرے کی بانہوں میں سمٹے مکئی کے کھیت میں لیٹے ہیں۔ انہیں دیکھ کرمجھے ریل کا وہ سفر بھی یاد آ گیا جب میں اکیلاہی پنتیس (35) برس قبل بہاول پور جا رہا تھا۔ رات کے 10 بجے تھے۔جاڑے کا موسم تھا۔ میں کمبل میں لپٹا سو رہا تھا۔ ریل کا ڈبہ بھی خالی ہی تھا گنتی کے دو چار مسافر ہی تھے۔اوکاڑہ سے ایک جوڑا میری تنہائی توڑتے ریل کے اسی ڈبے میں سوار ہوا اور میری سیٹ کے اوپر والی برتھ پر چڑھ گیا۔ چلتی ریل کی کھٹ کھٹ کے ساتھ اوپر سے بھی ایسی ہی آوازیں آنے لگیں۔ میں خود سے شرمندہ ساہوا ہوں اور سر جھکا کر بیٹھا رہا۔دونوں نے عجیب ٹھکانہ ڈھونڈا تھا۔مرد خانیوال اتر گیا اورخاتون برتھ سے اتر کر میرے سامنے والی سیٹ پر آ بیٹھی تھی۔ مجھے اُس کے طوفان خیز جذبات کا کچھ اندازہ تھا۔ لمحوں کی خاموشی کے بعد بنا شرمائے بلا جھجک ایک انگلی سے میرا گال چھوتے بولی ”ہیلو ہینڈسم!“۔ وہ عجیب نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ مجھے اپنے کانوں کی لوئیں تپتی اور سر گھومتا محسوس ہوا۔میں جتنا شرماتا اس کی پیش قدمی اتنی ہی بڑھتی جاتی تھی۔اس نے تمام حدیں پھلانگ دیں۔میں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا۔ وہ جا چکی تھی،ہمیشہ کے لئے ریل گاڑی سے بھی، میری زندگی سے بھی۔“
ہر شخص کی زندگی میں ایسی عورت ہوتی ہے جو حسن کا درشن دے کر چلی جاتی ہے یا زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ میری زندگی میں پہلی عورت جس سے مجھے محبت ہوئی میری بیگم ”عظمیٰ“ ہے۔ اس کا ساتھ خوش بختی ہے۔ عشق و نشاط کی جنت۔ معصوم سادہ حسن و جمال کی پیکر۔ بات کرتی ہے تو پھول جھڑتے ہیں۔ حلیم طبع ہونے کے ساتھ ساتھ راست گو اور شریں مزاج بھی ہے۔ ایسی ہی عورتیں کی لوگ عبادت کرتے ہیں اور جنہیں دیکھ کر بے اختیار سجدہ کرنے کو دل چا ہتا ہے۔ ایسی ہی عورتوں کے بارے ْقرآن کہتا ہے؛”یہ خوش بخت ہیں خاوند کے لئے اللہ کا انعام۔“ پہلی نظر کی محبت۔میری سانس، میری روح۔ نہ جانے اس میں کیا جا دو ہے کہ اس کا سحر ہر گزرے دن کے ساتھ مجھے اور مضبوطی سے جکڑے جا رہا ہے۔
یہاں میں اپنے بیٹوں محمدعمر شہزاد اور احمد شہزاد کا ذکر بھی کرتا چلوں۔ تابعدار، رحم دل، بھلے مانس، شائستہ، حلیم طبع، دیندار، ایماندار۔ اگر بیٹے اللہ کا انعام ہیں تو اللہ پھر ہر باپ کو ان جیسے ہی بیٹے عطا کرے۔ آمین۔ دونوں مردانہ وجاہت اور جسمانی طاقت کا بہترین نمونہ ہیں۔ جھوٹ، آوارگی اور ناانصافی کی آلودگی سے بھی وہ ہمیشہ خود کو بچاتے رہے ہیں۔بیٹے ہی باپ کی نیک نامی، شکوہ و سطوت کا تسلسل برقرار رکھتے ہیں۔ اللہ ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، دین و دنیا کی ساری خوشیاں عطا کرے اور ان کی تمام خواہشوں کو پورا کرے۔ آمین۔ کہتے ہیں باپ کی دعا اللہ ضرور سنتا ہے اور مجھے اپنے اللہ پہ پورا یقین ہے کہ میری ان دعاؤں کو ضرور میرے بچوں کے حق میں قبول کرے گا۔ انشا اللہ۔ میری بہو مریم بھی شائستگی اور شرافت کی تصویر ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)