پٹاخہ کلاس روم میں دھماکے سے پھٹا، ہر طرف قیامت کا شور مچ گیا،چوکیدار نے مجھے مرغی کے چوزے کی طرح پکڑ ا اور استاد کے حوالے کر دیا
مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:76
بعض اوقات کلاس کے دوران کوئی بچہ ایسی حرکت کر دیتا تھا جس کا بظاہر کوئی معقول جواز نہ ہوتاتھا اور بعد میں اس کے لیے خجالت اور اکثر اوقات مار کا سبب بھی بنتا تھا۔ ایک نیا نیا پٹھان لڑکا کلاس میں آیا، اس کا بڑا عجیب و غریب سانام تھا: ”پاتی گل“۔ یہ مزاحیہ سا نام زبان پر نہیں چڑھتا تھا۔ ایک دن حساب کی بھرپور کلاس کے دوران پتہ نہیں کب کیوں اور کیسے میرے ذہن میں آیا کہ میں پاتی گل کو پکاُر کر چھیڑوں۔ لہٰذامیں نے پورا گلا پھاڑ کر ”پاتی گل دو آنے میں“ کا اپنا ہی ایجاد کیا ہوا فضول سا نعرہ لگا دیا، کلاس میں ہر طرف سکتہ چھا گیا۔ سب حیرت سے پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھنے لگے، استاد نے چاک اور ڈسٹرمیز پر رکھا،مجھے پاس بلایا اور یہ پوچھے بغیر کہ میں نے یہ نعرہ کیوں بلند کیا تھا، فوراً ہی اپنا بید استعمال کر لیا۔ پوچھ بھی لیتے تو خود مجھے بھی پتہ نہیں تھا میں ان کو کیا بتاتا۔ ان کے بید کا استعمال بہت محدود ہوتا تھا، اور وہ زیادہ شدت سے مارتے بھی نہیں تھے۔ ان کے سزا دینے کے عمل کے دوران اکثرلڑکے مسلسل مسکراتے بھی رہتے۔ اس لیے تقریباً سب ہی ان کی مار سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ لیکن بید تو پھر بید ہے روح پر بھی تو زخم لگا جاتا ہے۔ ساری کلاس کے سامنے پٹنا کوئی ایسی قابل رشک بات بھی نہیں ہے۔
ہماری جماعت کا ایک بہادر بچہ تشدد کی انتہائی بلندیوں پر بھی مسکراتا بلکہ ہنستا رہتا تھا۔ جب اسے نیچے لٹا کر ڈرائنگ کے ماسٹر صاحب نے اس کی گردن پر پیر رکھا ہوا ہوتا تھا اور کسی پہلوان کی طرح اس کا ہاتھ مروڑ رہے ہوتے تھے، تو تب بھی وہ نیچے پڑا دوستوں کو آنکھیں مارتا اور اپنی اس نا قابل رشک حالت پر ہنسنے والوں کو آنکھیں دکھاتا تھا اور اشاروں اشاروں میں انھیں سبق سکھانے کی دھمکیاں بھی دیا کرتا تھا۔
ایک دفعہ سکول کی عمارت کے باہر سڑک پر، میں اپنے جیسے کلاس سے بھاگے یا نکالے ہوئے بچوں کے ساتھ مل کر پٹاخے پھوڑ رہا تھا۔ یہ گول گول رنگ برنگے پٹاخے ہوتے تھے جن کو چلانے سے پہلے مٹھی میں رکھ کر منہ سے گرم گرم پھونک ماری جاتی اور پھر اسے پوری قوت سے فرش پر یا دیوار پر دے مارتے، ایک زور دار سا دھماکہ ہوتا اور صاحب پٹاخہ کی روح راضی ہو جاتی تھی۔سستے سے تھے اس لیے سب بچوں کے پاس ہر وقت وافر سپلائی موجود رہتی تھی۔
سارے کلاس روم کی کھڑکیاں باہر سڑک کی طرف تھیں جنہیں کمروں میں پنکھے نہ ہونے کی وجہ سے کھلارکھا جاتا تھا، اور حفاظت کے لیے ان میں آہنی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔اس روز میرا ستارہ گردش میں تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے مروجہ طریقے کے مطابق پٹاخے کو پھونک مار کرگرم کیا تھا اور پھر اسے سکول کی دیوار پر دے مارا، قسمت خراب تھی میری، نشانہ خطا ہوا اور پٹاخہ کھڑکی کی سلا خوں سے گزر کر سیدھاکلاس روم میں داخل ہوا اور سامنے والی دیوار سے ٹکرا کر ایک زور دار دھماکے سے پھٹا۔ ہر طرف قیامت کا شور مچ گیا۔ میں نے اس تخریبی کاروائی کے بعد جائے واردات سے بھاگنے کی کوشش کی جو گیٹ پر کھڑے ہوئے چوکیدار نے ناکام بنا دی اور انتہائی بد تمیزی سے گھیر گھار کر مجھے مرغی کے چوزے کی طرح پکڑ ا اور اس کلاس کے استاد کے حوالے کر دیا جنہوں نے مختصر ساسوال کیاکہ ”کیوں کیا؟“ میں نے مختصر سا ہی جواب دے دیا کہ ”پتہ نہیں“ اور انھوں نے کان مروڑ کر مجھے وہاں سے بھگا دیا۔ انگریزی کے استاد تھے شاید اس لیے تھوڑا مہذب بھی تھے۔بات کو بڑھایا نہیں۔
پتہ نہیں کراچی کے محکمہ ڈاک کو کیا سوجھی کہ ایک نئی نویلی خودکارمشین منگوا کر ہمارے سکول کے سامنے نصب کر دی، جو غالباً پاکستان کی پہلی اور آخری پوسٹل وینڈنگ مشین تھی جس میں مطلوبہ تعداد میں سکے ڈالنے پر پوسٹ کارڈ، لفافہ یا مختلف مالیت کے ڈاک ٹکٹ باہر نکل آتے تھے اور مشین پوری ایمانداری سے باقی پیسے بھی سکوں کی شکل میں باہر لگی ہوئی ٹرے میں پھینک دیتی۔ ایک آنہ پوسٹ کارڈ والے سوراخ میں ڈالا جاتا تو وہ ایک پوسٹ کارڈ، جو کہ اس وقت دوپیسے کا ہوتا تھا، باہر نکال دیتی اور پیچھے پیچھے لش لش کرتا دوپیسے کا سکہ بھی چھن کرکے باہر ٹرے میں آ گرتاجسے یار لوگ اس وقت ادھنی یا ٹکہ کہتے تھے۔ ہمارے اس وقت کے ایک آئن سٹائن دوست نے مشین پر مختلف تجربات کر کے یہ راز پا لیا تھاکہ ایک آنے کے بجائے اگر اس میں تانبے کا سوراخ والا ایک پیسے کا سکہ ڈالا جائے تو تب بھی یہی نتائج برآمد ہوتے تھے۔ مطلب پرست تھا، کسی اور کو نہ بتایا، اور اکیلا ہی پیسے بنانے کے چکر میں مشغول رہا، لیکن کسی اور لڑکے کے ہاتھوں اس کا یہ راز بے نقاب ہوا۔ اب کیا تھا سب نے یہی کام شروع کر دیا، ایک پیسہ ڈالتے ہی ایک پوسٹ کارڈ اور دوپیسے واپس مل جاتے تھے جو قطعی گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ اس سے ان دنوں 4 گول گپے مل جاتے تھے جو ٹھیلے والا گندے سے گھڑے میں پڑے ہوئے املی کے کھٹے پانی سے بھر بھرکر، ایک ترتیب کے ساتھ قطار میں کھڑے ہوئے منتظر بچوں کے منہ میں ٹھونس دیتا تھا، کہتا تھا”میرے پاس پیالیاں نہیں ہیں“اور ہاتھ میں وہ اس لیے نہیں پکڑاتا تھا کہ بھرا ہوا گول گپا ہاتھ میں تھماتے وقت ذرا سی تاخیر اور بے احتیاطی کے سبب اس کے پھٹ جانے کا خطرہ ہوتاتھا۔بات میں دم تو تھا،اس طرح سب کا بھلا ہو جاتا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔