” خوش بختی کہ مجھے آپ جیسا غمگسار ملا“، کاش میرے پاس اسکے دکھوں کا مداوا ہوتا! کاش میں اسکے دل میں جینے کی امنگ پیدا کر سکتی
مصنف:یاسمین پرویز
آخری قسط
میں واپس سسرال پہنچی، تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ عالمِ سرخوشی میں گویا ہوا ”بھابی جی آپ وہ عظیم ہستی ہیں جن سے میں بلا جھجک اپنے دل کی ہر بات کر لیتا ہوں۔ میری خوش بختی کہ مجھے آپ جیسا غمگسار ملا۔“ اور میں محض ایک آہ بھر کر رہ جاتی کہ اے کاش میرے پاس اس کے دکھوں کا مداوا ہوتا! کاش میں اس کے دل میں جینے کی امنگ اور آرزو پیدا کر سکتی!!
مجھے وہ المناک شام کبھی نہ بھول پائے گی، جب مجھے ”بھابی ماں“ کہنے والا میرا یہ نیک طینت دیور چند ہی لمحوں میں بڑی خاموشی سے یہ جہاں چھوڑ گیا۔ کچھ دیر پہلے وہ ہم سب کے درمیان بیٹھا، معمول کی گفتگو کر رہا تھا۔ پھر یکایک اٹھ کر باہر گیا اور حویلی کے صحن میں بچھی چارپائی پہ دراز ہوتے ہوئے ملازموں کو ہدایت کی کہ مجھے سونے دیا جائے اور کوئی مجھے نہ اٹھائے۔ ملازموں نے حکم کی تعمیل کی مگر جب شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو ملازم پریشان ہو گئے۔ حکم عدولی کرتے ہوئے پریشانی کے عالم میں انہوں نے انہیں بیدار کرنا چاہا، تو ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی جب ان کی پکار پر موندی ہوئی آنکھوں میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔ ہاتھ لگایا تو بدن اپنی حرارت کھو چکا تھا۔ اب حویلی میں کہرام مچ گیا۔ کتنی خاموشی سے، بنا ء کسی کو کچھ کہے سنے، جاوید نے سب سے ناطہ توڑ لیا تھا، یہ سانحہ کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔
سب کا محسن، سب کا غمگسار کتنی خاموشی سے ابدی سفر پہ روانہ ہو گیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا شہر اکٹھا ہو گیا۔ ہر آنکھ پرنم تھی اور ہر دل غم سے نڈھال۔ آج سب کو احساس ہوا کہ یہ سادہ لوح شخص کتنی خاموشی سے دلوں پہ حکومت کر رہا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان گنت گھرانوں کی کفالت بھی اس نے اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو اور دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ، اس کی عظمت کی گواہی دے رہے تھے۔
دائمی جدائی اگرچہ ہمارا مقدر ٹھہری مگر دلوں میں بسنے والے دل کی ہر دھڑکن میں زندہ رہتے ہیں اور ہر لب کی دعا بن جاتے ہیں۔ مجھے یقین کامل ہے کہ دلوں کا فاتح اور درد دل کی دوا کرنے والا یہ مسیحا، انیس اعلیٰ اوصاف کے باعث مالک دوجہاں کی بخشش کا مستحق ٹھہرے گا۔ ان شاء اللہ۔
محبت کا حصار
زندگی کی تیز رفتاری کا ساتھ دیتے ہوئے بعض مرتبہ رواروی میں ہم اِتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ برابر میں اٹھنے والے قدموں کی چاپ بھی سُن نہیں پاتے۔ پھر زندگی کے کسی موڑ پر جب قدم رُکتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ برابر میں اٹھنے والے قدم کسی اپنے کے تھے جو ہماری کم نگاہی کا شکار ہو گیا۔
برسوں پہلے جب سرکاری ملازمت کے سلسلے میں دیئے گئے انٹرویو کے نتیجے میں، سرکاری ادارے میں میری تعیناتی کا خط مجھے موصول ہواتو اس خط پر جس ہستی کے دستخط تھے، اُن سے میرا تعلق اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ میری ہم نام تھیں۔سرکاری امور کی انجام دہی کے سلسلے میں اب اکثر ان سے میری ملاقات ہو جاتی مگر یہ ملاقات کبھی دوستی کا روپ نہ دھار سکی۔ دراصل یہ دور زندگی کا مصروف ترین دور ہوتا ہے جس سے گزرتے ہوئے چند لمحوں کی فرضت بھی غنیمت لگتی ہے۔ سو میری ہم نام یاسمین مسعود سے میری ملاقاتیں تشنگی کا شکار رہیں۔ حتّٰی کہ وہ وقت آ گیا جب مجھے اس ادارے اور اس سے وابستہ لوگوں کو الوداع کہنا پڑا۔ اب احساس ہوا کہ وقت کس طرح ریت کے ذروں کی مانند زندگی کے توانا ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے اور زندگی کے دمکتے چہرے کی آب و تاب ماند پڑ جاتی ہے۔
فرصت کے لمحات میسّر آئے تو زندگی کو دیکھنے کے زاویے میں بھی تبدیلی آ گئی۔ جن باتوں پر اچٹتی اور سرسری نگاہ ڈال کر گزرنا معمول بن گیا تھا، اب ان کی گہرائی تک پہنچنا باعث تسکینِ قلب تھا۔
یاسمین مسعود سے قربت بڑھی تو ان کی شخصیت کے وہ پوشیدہ پہلو میرے سامنے آئے، جو اس سے قبل میری کم نگاہی کا شکار ہو گئے تھے۔ ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو جس نے مجھے متاثر کیا وہ ان کا اخلاص اور شیریں لب و لہجہ ہے۔ یہ اوصافِ حمیدہ مدِّمُقابل کو یوں اپنا اسیر بنا لیتے ہیں کہ پھر محبت کے اس حصار سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتاہے۔ گویا دِلوں کو مَسخّر کرنا وہ بخوبی جانتی ہیں۔
ہمارا یہ مِلن اگرچہ ماہ و سال کی قید سے آزاد ہے، مگر میں جب جب ان سے ملی، یہ ملاقات ذہن و فکر کے لیے مژدہئ جانفزا ثابت ہوئی۔ تکلف و ریاسے پاک دوستی حقیقتاً باعث تقویتِ جسم و جاں ٹھہرتی ہے۔
خدا کرے کہ مہکتے گلابوں کی مانند ہماری یہ دوستی ہمیشہ باعثِ تسکینِ قلب و جاں رہے!!آمین۔
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)