گزشتہ سے پیوستہ
دولتِ عثمانیہ کے سلطان علاؤ الدین نے جو فوجی اصطلاحات نافذ کیں ان کی وجہ سے 300 برس تک حکومت اسی خاندان کے پاس رہی۔ اس کے وزیراعظم کانام خیرالدین تھا اس نے ایک ایسی تجویز پیش کی کہ اس عسکری تنظیم نے ترکوں کا نام پوری دنیا میں روشن کر دیا۔
ینی چری
وہ تجویز یہ تھی کہ عیسائی اسیران جنگ میں سے دس دس بارہ بارہ سال کے ہونہار اور صحت مند لڑکوں کی ایک تعداد منتخب کی جائے۔ ان کو ایسے ماحول میں رکھا جائے کہ وہ خود بخود اسلام کی طرف مائل ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو فوجی تعلیم دی جائے اور ان کی ایک مستقل فوج قائم کی جائے…… اور خان کو یہ رائے پسند آئی۔ اس نے ایک ہزار عیسائی لڑکوں کو منتخب کر کے انہیں فوجی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا شروع کر دیا دوسرے سال ایک ہزار لڑکوں کا ایک اور دستہ چنا گیا۔ یہ سلسلہ 300 برس تک جاری رہا۔ جس سال عیسائی جنگی قیدی نہ ملتے اس سال عیسائی رعایا کے لڑکوں سے یہ کمی پوری کرلی جاتی لیکن سلطان محمد رابع کے عہد حکومت میں یہ نظام بدل گیا اور 1650ء سے خود انہی سپاہیوں اور ترکوں کے لڑکے اس فوج میں داخل کئے جانے لگے۔
اس فوج کا نام ینی چری (نئی فوج) رکھا گیا۔ اور خان نے جو اول اول اس فوج کا ”سنگ بنیاد“ رکھا تو پہلے دستے کو حاجی بکتاش کی خدمت میں لے گیا جو اپنے زہدو تقومی کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور تھے اور ان سے دعا کی خواہش کی۔ اس زمانے کے حکمران بھی اہلِ دل کا خاص خیال رکھا کرتے تھے اور ان کی خدمت میں گاہے گاہے حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوا کرتے تھے۔ حاجی بکتاش نے اس نئی فوج کیلئے فتح و نصرت کی دعا کی اور خود اس کا نام ینی چری(JENNI CHARY) رکھا۔ سلطنت عثمانیہ کی ابتدائی تین صدیاں جو اس کے عروج و ترقی کی صدیاں کہلاتی ہیں ان میں ینی چری کی قوت شباب پر تھی۔ اس میں بھرتی ہونے والے نوجوان لڑکوں پر چونکہ اسلام قبول کرنے کا کوئی دباؤ نہ تھا اور وہ برضا و رغبت حلقہ بگوش اسلام ہو کر فن حرب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تھے، اس لئے ان کی ٹریننگ اعلیٰ درجے کی ہوتی تھی۔ وہ ہر قسم کے شدائد کو آسانی سے برداشت کر لیتے تھے اور آجکل کے کمانڈو دستوں کی طرح سریع الحرکت بھی تھے اور سریع الاثر بھی۔ اپنے والدین، مذہب اور وطن سے چھوٹنے کے بعد ان کی تمام امیدیں سلطان کی اطاعت، دولت عثمانیہ کی خدمت اور اسلام کی حمایت سے وابستہ ہو جاتی تھیں اور یہی ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔ سلطان کو ان پر پورا پورا اعتماد تھا اور وہ ہمیشہ ان کو انعام واکرام سے سرفراز کرتا رہتا تھا۔ چونکہ ینی چری ترک انفنٹری کا بازوئے شمشیر زن تھی، اس لئے یہ موضوع مزید تفصیل کاطالب ہے۔
ینی چری کے قیام کے اسباب
ترکی مورخین کا خیال ہے کہ مندرجہ ذیل اسباب کی بناء پر ینی چری کا قیام عمل میں آیا:
1۔ جب ترکوں نے یورپی علاقوں پر حملے کئے اور بہت سے علاقے فتح کئے تو ان سارے علاقوں پر مستقل حکومت قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ عثمانیوں نے محسوس کر لیا کہ فتوحات کو جاری رکھنے کے لئے ایک مستقل اور تنخواہ دار فوج کی ضرورت ہے۔
2۔ اور خان کے دور میں خالص ترکوں کی جو پیادہ اور سوار فوج تیار کی گئی تھی وہ وسیع مفتوحہ علاقوں کے لئے ناکافی تھی۔
3۔ بعض اوقات ترک فوجی بے ہودہ حرکات کرتے تھے…… سلاطین اور سپہ سالاروں نے فیصلہ کیا کہ عیسائی بچوں کو مسلمان بنانے کے بعد ایک خاص قسم کی فوج تیار کی جائے جو صرف سلطان سے تعلق رکھے، اسی سے محبت کرے، اسی پر جاں نثار کرے اور سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ یعنی عثمانیوں نے ترکی النسل فوجیوں کے اثرات سے خائف ہو کر ینی چری کو تیار کیا تھا تا کہ انہیں بڑے بڑے عہدے دے کر مطیع کر لیا جائے، فوجی کام بھی چلے اور گڑ بڑ بھی نہ ہو۔ کئی سو سال تک اس نئی فوج نے عثمانی خاندان کی خدمت کی۔ بعد میں جب ان کی دست درازیاں حد سے بڑھ گئیں تو سلطان محمود ثانی نے 19 ویں صدی میں ان سب کو ختم کر دیا اور از سر نو ترک مسلمانوں کی فوج قائم کی۔
بھرتی کرنے کا طریقہ
اسیران جنگ میں سے ہر پانچ صحت مند افراد میں سے ایک کو لیا جاتا تھا۔ انہیں گیلی پولی (یورپ میں) روانہ کر دیا جاتا تھا۔ جہاں عجمی اور باغی JAGHI نامی ادارہ میں یہ لوگ معمولی کام کرتے تھے اور روزانہ ایک آقچہ تنخواہ پاتے تھے۔ جب یہ لوگ یہاں چند ماہ زندگی بسر کر لیتے تھے تو استنبول روانہ کر دیئے جاتے۔ جہاں انہیں ینی چری کے دفتر میں لے لیا جاتا اور ینی چری بنا لیا جاتا۔ یہ طریقہ دیگر ترک ریاستوں میں بھی نظر آتا ہے۔ ان اسیروں کوپچک اوغلانی کہتے تھے (پچک سے مراد پانچ میں سے ایک خراج کے طور پر لئے جانے والے)۔
بعض اوقات اسیران جنگ کام کے دوران گیلی پولی کے علاقے سے نکل کر راہ فرار اختیار کر لیا کرتے تھے۔ چونکہ ان کی عمریں زیادہ ہوتی تھیں اور وہ راستوں سے واقف ہوتے تھے اس لئے بھاگنا آسان تھا۔ اس چیز کو روکنے کے لئے ایک نیا اصول مرتب ہوا۔ جنگ میں قید ہونے والے کم عمر عیسائیوں کو سب سے پہلے اناطولیہ کے ترک خاندانوں کے سپرد کر دیا جاتا۔ وہ لوگ زراعت کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، ترکی زبان سیکھتے اور ترکی و اسلامی عادات اختیار کرتے تھے۔ انہیں معمولی اجرت دی جاتی تھی۔ بعد میں ان کا نام گیلی پولی کے عجمی اور جاغی نامی اداروں میں لکھا جاتا تھا۔ پھر انہیں استنبول بھیج کر ینی چری بنا دیا جاتاجہاں انہیں روزانہ 2 آقچہ تنخواہ ملتی تھی۔
جب 1402ء میں تیمور لنگ نے جنگ انگورہ میں عثمانیوں کو شکست دی اور بایزید کو گرفتار کر لیا تو اناطولیہ میں عثمانی طاقت کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ یورپ اور ایشیا میں عثمانیوں کی فتوحات ایک دم سے رک گئیں اور دس سال تک پورا ملک داخلی انتشار کا شکار ہو گیا۔ زیادہ فوجیوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لیکن جنگ میں اتنے اسیر ہاتھ نہیں آتے تھے اس لئے ایک قانون کے تحت یورپی علاقوں سے بچوں کو حاصل کرکے تربیت دینے کی غرض سے ایک نیا اصول وضع کیا گیا۔ اس کو ترکی زبان میں دو شرمہ (DEVSHIRME) کہتے تھے۔ اس کے تحت مناسب تعداد میں عیسائی بچوں کو تربیت کے لئے لایا جاتا تھا۔
ینی چری کی اقسام
یہ تین مختلف ناموں کے دستے تھے:
1۔ ”یایا“ (YAYA) اس کو جماعت بھی کہتے تھے۔ اس کا افسر شور با جی (CHORBAJI یعنی شور بہ والا) کہلاتا تھا۔
2۔سکبان (SEKBAN یعنی کتا پالنے والے) اس کا افسر بولوک باشی کہلاتا تھا (BOLUKBASHI)۔ یہ دستہ 1451ء میں محمد فاتح کے دور میں قائم ہوا۔
3۔آغا بولوک لری (AGHABOLUKLERI)۔ یہ سب سے آخر میں قائم ہوا۔ اس کے افسر کو بھی بولوک باشی کہتے تھے۔
ینی چری کے افسران
سب سے بڑا افسر ینی چری آغاسی تھا (آغا لفظ آقا کی دوسری شکل ہے۔ قدیم ترکی میں مالک اور صاحب کو آقا کہتے تھے۔ جدید ترکی میں جاگیر دار اور زمیندار کو کہتے ہیں، ان کے بعد مندرجہ ذیل لوگ آتے تھے:
الف۔سکبان باشی
ب۔ زغارجی باشی
ج۔ تور نہ جی باشی
د۔ اور باش چاؤش
اس کے علاوہ ینی چری آفندی بھی ہوتا تھا جو دراصل ینی چری کا کا تب ہوتا تھا۔ تنخواہ و غیرہ کی تقسیم اور حساب کتاب اس کے ذمہ تھی۔ ینی چری کو تین ماہ میں ایک بارتنخواہ ملتی تھی۔(جاری ہے)