10لاکھ یہودی امریکہ ہجرت کر چکے،سالانہ 2500 کینیڈا منتقل ہو رہے ہیں , رپورٹ
مقبوضہ بیت المقدس( اے این این )اسرائیلی حکومت کی دنیا بھرکے یہودیوں کو فلسطین میں منتقل کرنے کی کوششوں کے علی الرغم لاکھوں یہودی خود کو اسرائیل میں غیرمحفوظ سمجھنے لگے ہیں، جس کے بعد بڑی تعداد میں صہیونی امریکا اور کینیڈا جا رہے ہیں۔اسرائیل کے سرکاری ٹی وی 2 نے عبرانی سال کے آغاز پرایک رپورٹ میں اسرائیل سے واپس دوسرے ملکوں میں نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کے بارے میں اعدادو شمار جاری کیے ہیں۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے فلسطینیوں کی جانب سے مزاحمت میں شدت آنے کے بعد ایک ملین یہودی امریکا جا چکے ہیں جبکہ سالانہ کم سے کم 2500 یہودی کینیڈا جا رہے ہیں۔عبرانی ٹی وی کے نامہ نگاروں نے امریکا ، کینیڈا اور دوسرے ملکوں میں نقل مکانی کر جانے والے یہودیوں کے تاثرات لیے اور ان سے نقل مکانی کی وجہ دریافت کی۔ ان میں اکثریت کا یہ کہنا تھا کہ وہ اسرائیل میں خود کو غیرمحفوظ سمجھتے تھے، جس کے بعد انہوں نے خود کو کسی دوسرےملک میں منتقل کرنے کے بارے میں سوچا، اسرائیل میں یہودیوں کا مستقبل تاریک ہے، جنگوں، فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں اور علاقائی صورت حال کے باعث ہریہودی شہری سخت ڈپیریشن کا شکار ہے۔ کئی تجزیہ نگار اسرائیل کی تباہی اور بربادی کی پیشنگوئیاں کر رہے ہیں۔ ایسے میں اسرائیلی ریاست میں قیام کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ امریکا منتقل ہونے والوں کا کہنا تھا کہ وہ خود کو امریکا جب کہ کینیڈا جانے والوں کا خیال تھا کہ وہ کینیڈا میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ کم از کم ان ملکوں میں جنگ یا تباہی اور بربادی کا تو کوئی اندیشہ نہیں ہے۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یہودی آباد کاروں کی اتنی کثیر تعداد کی دوسرے ملکوں میں واپسی نے صہیونی فیصلہ سازوں کی نیندیں حرام کردی ہیں کیونکہ اسرائیلی حکومتیں دنیا بھر سے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کے لیے نہ صرف ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں بلکہ وہ یہودیوں کو لانے کے لیے بے پناہ اخراجات بھی اٹھا رہی ہیں۔ اس کے باوجود یہودیوں کی بیرون ملک سے لائی جانےوالی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اسرائیل سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھ رہی ہے۔اسرائیل کے ایک تجزیہ نگار میخائل شیرون کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران کم سے کم دس لاکھ یہودی امریکا جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، اور آسٹریلیا منتقل ہوچکے ہیں۔ یہودیوں کی اتنی بڑی تعداد کی نقل مکانی صہیونی حکومت کے لیے نہ صرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ ایک بڑی پریشانی کا موجب بنی ہوئی ہے۔ادھر اخبارمعاریف نے الگ سے اپنی ایک رپورٹ میں یہودیوں کی دوسرے ملکوں میں نقل مکانی پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں آباد یہودیوں کی اسرائیل منتقلی صہیونی حکومت کا درد سر ہے لیکن یہودیوں کو اسرائیل میں کوئی کشش دکھائی نہیں دیتی ہے۔ یہاں پریہودی آنے کے بجائے واپسی کا سوچ رہے ہیں۔ سنہ 2010 میں صہیونی محکمہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پانچ سال کے دوران دنیا بھر سے 18 ہزار 129 یہودیوں کو اسرائیل لایا گیا ہے ، جو کہ سنہ1988 کے بعد سے پانچ سال کے عرصے میں قلیل ترین تعداد ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ 70 فی صد یہودی کسی یورپی ملک کے بجائے امریکا جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پچاس فی صد کو اسرائیل کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے جبکہ اسرائیل میں موجود 50 فی صد یہویوں کے پاس امریکا یا کسی دوسرے ملک کی شہریت بھی ہے اور ان لوگوں نے امریکا میں شادیاں بھی کر رکھی ہیں۔ اسرائیلی ریاست میں موجود صرف 20 فی صد یا اس سے بھی کم تعداد میں یہودی صہیونی ریاست پر اعتماد کرتے ہیں۔اسرائیلی اخبار نے یہودیوں کی دوسرے ملکوں میں واپسی کے بارے میں اپنی رپورٹ میں اس کے اسباب کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہودیوں کو جہاں اسرائیلی ریاست کے مستقبل کے بارے میں خدشات ہیں، وہیں فلسطینیوں کی بڑھتی تحریک مزاحمت ہے، کیونکہ اسرائیل میں تمام ترسہولیات حاصل ہونے کے باوجود یہودی ایک انہونے خوف کا شکار رہتے ہیں۔ فلسطینیوں کے راکٹ ان کے خوف کا ایک بڑا سبب ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی ریاست کی دگر گوں معیشت بھی یہودیوں کو دوسرے ملکوں میں منتقل کرنے کا باعث بن رہی ہے۔