قانون کے بھگوڑے
دہری شہریت کے معاملے پر ارکان اسمبلی کی نااہلی اور بعدازاں وزیر داخلہ رحمن ملک کا یہ بیان کہ ابھی اور بہت سے ارکان بھی دہری شہریت رکھتے ہیں، ہماری جمہوریت میں در آنے والے جھوٹ اور فراڈ کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔ جس طرح جعلی ڈگریوں کے معاملے پر ارکان اسمبلی اخلاقی جرا¿ت کا مظاہرہ کر کے مستعفی نہیں ہوئے تھے، اسی طرح اس معاملے میں بھی مٹی میں سر دبائے بیٹھے ہیں کہ کسی کو پتہ نہ چلے اور وہ اپنے فراڈ کو چھپائے رکھیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایسے تمام ارکان اسمبلی مستعفی ہو جاتے ،جن کی دہری شہریت ہے، مگر وہ سچ بولنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے اور انتظار میں ہیں کہ جب تک سپریم کورٹ انہیں کان سے پکڑ کر نہیں نکالے گی، وہ نہیں نکلیں گے۔کسی جمہوری ملک میں اس قسم کے رویے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ عرصہ پہلے برطانوی وزیر خزانہ ڈیوڈلاز صرف اس وجہ سے مستعفی ہو گئے تھے کہ ان پر اپنی وزارت میں استحقاق سے بڑھ کر اخراجات کا الزام تھا۔ یہی وہ جمہوری کلچر ہے، جس کی وجہ سے برطانیہ کو جمہویت کا رول ماڈل کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے اور لکڑ ہضم پتھر ہضم کے نظریئے پر بھی پوری طرح کار بند رہتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ہر برائی کا ذائقہ چکھتے ہیں، مگر پارسائی کا دعویٰ بھی نہیں چھوڑتے۔
جمہوریت کریڈیبلٹی کا نام ہے۔ یہ کوئی بے لگام طرز حکومت نہیں۔ ہمارے ہاں ایک سازش کے تحت یہ نظریہ پروان چڑھایا گیا کہ جو پانچ برس کے لئے منتخب ہو گیا، اسے مقررہ مدت سے پہلے کوئی نہیں چھیڑ سکتا، چاہے اس نے انتخابات میں جعلی ڈگری پر حصہ لیا ہو، یا دہری شہریت کے قانون کی خلاف ورزی کی ہو۔ اسی مافیا نے عوام کی عدالت کا ڈرامہ بھی ایجاد کیاہے اور اپنی ہر بڑی کرپشن اور خلاف قانون حرکت پر یہ کہہ کر پردہ ڈال دیتا ہے کہ ہم صرف عوام کی عدالت کے سامنے جوابدہ ہیں۔ عوام کی عدالت کے پاس کوئی اختیار یا ڈنڈا نہیں ہوتا، جو وہ ایسے کرپٹ عوامی نمائندوں کے خلاف فوری استعمال کرے۔ اس کی طاقت تو خود ان عوامی نمائندوں کا ضمیر ہوتاہے، جو چھوٹے سے چھوٹے الزام پر بھی سر تسلیم خم کر دیتاہے، جو جمہوری ممالک کے اکثر عمال حکومت ایسے مواقع پر کرتے رہتے ہیں۔
ہمارے ارباب اختیار مثالیں تو جمہوری ممالک کی دیتے ہیں، لیکن اعمال کے ضمن میں ان کی تقلید نہیں کرتے۔ پارلیمنٹ کو سپریم کہنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ جو بات پارلیمنٹ کو سپریم بناتی ہے۔ وہ اس کے ارکان کی بلند کرداری اور قانون کے احترام میں پنہاں ہے۔ وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ ملک کا وزیر داخلہ خود کسی کریمنل کیس میں ملوث ہو اور سب سے بڑی عدالت اس کے خلاف کیس کی سماعت بھی کر رہی ہو، وہاں ایسا بھی نہیں ہوتا کہ جسے سپریم کورٹ کسی اخلاقی جرم کا مرتکب قرار دے، اسے مزید بڑا عہدہ سونپ دیا جائے۔ جمہوری ملک میں ایسا بھی نہیں ہوتا کہ ملک کی سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے قانونی اور آئینی موشگافیوں کے ذریعے فرار کے راستے اختیار کئے جائیں اور بس نہ چلے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف ہی سازشیں شروع کر دی جائیں۔
صدر آصف علی زرداری نے حال ہی میں ایک سے زائد بار یہ کہا ہے کہ جمہوری سیٹ اپ مضبوط ہے۔ حکومت یا پارلیمنٹ کو کوئی خطرہ نہیں۔ صدر صاحب چونکہ اس پارٹی کے چیئر مین بھی ہیں، جو اس وقت ملک پر حکومت کر رہی ہے، اس لئے انہیں ایسا دعویٰ کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن زمینی حقائق تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔ یہ کیسا مضبوط جمہوری سیٹ اَپ ہے کہ جس کے بارے میںہر روز افواہیں اڑتی ہیں، جس سیٹ اَپ اور جمہوریت کے بارے میں آئے روزحکمرانوں کو یہ بیان دینے پڑیں کہ اسے کوئی خطرہ نہیں، کیا اسے مضبوط کہا جا سکتا ہے؟ کیا برطانوی یا بھارتی جمہوریت کے بارے میں بھی وہاں کے حکمران آئے روز یہ یقین دلاتے ہیں کہ اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں؟ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہماری جمہوریت فاختہ کے انڈوں کی طرح نازک ہے، جسے کسی وقت بھی کوئی اپنا شکار بنا سکتا ہے۔ جمہوریت جمہوری اقدار کی پاسداری، ارکان پارلیمنٹ کی ایمانداری اور قانون کی عملداری سے مضبوط ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ان میں کوئی بھی اپنی جگہ موجود نہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں تو خود آئین نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ اس کی شق 62-63 پر پورے اترتے ہوں، جو در حقیقت ان کی ایمانداری، سچائی، اخلاقی بلند کرداری اور اعلیٰ انسانی اوصاف سے متعلق ہے۔ ہماری جمہوریت میں یہ تینوں خوبیاں صرف دعوﺅں کی حد تک ہیں۔ یہاں تو وزیر داخلہ کی کریڈیبلٹی بھی سوالیہ نشان بن جاتی ہے اور ارکان پارلیمنٹ واضح طور پر قانون شکنی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہماری جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں عہدے مضبوط اور اقدار کمزور ہیں۔ جمہوریت کے حوالے سے ہم جن ممالک کی مثال دیتے ہیں، ان میں عہدہ اتنا ہی کمزور ہے، جتنی کہ جمہوریت مضبوط ہے۔ ذرا سی باد مخالف چلتی ہے اور کوئی مستند الزام لگتا ہے تو عہدہ سوکھے پتوں کی طرح ہوا میں بکھر جاتا ہے۔ ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے، جو جتنا کرپٹ ہو، وہ اتنا ہی مضبوط تصور کیا جاتا ہے۔ نامی گرامی اور سزا یافتہ بھی اس جمہوریت کے راستے سیاست میں داخل ہوتے ہیں، اصل میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ پاکستان میں جس کے پاس پیسہ ہے، اسے سیاست میں قدم جمانے اور اقتدار کے مزے اڑانے سے کوئی نہیں روک سکتا اور یہ ہے بھی درست۔ سیاسی جماعتیں کسی باکردار شخص کی بجائے اسے ٹکٹ دیتی ہیں، جو پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے کا بھتہ دے سکے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت جس طرح مخلص اور قربانی دینے والے کارکنوں کو نظر انداز کر کے کسی نودولتئے، یا کالے دھن والے کو ترجیح دی جاتی ہے، وہ بذات خود جمہوریت کا جنازہ نکالنے کے لئے تابوت کی پہلی کیل ثابت ہوتی ہے۔
ایسے نمائندے منتخب ہونے کے بعد قوم کی فلاح کا کیونکر سوچ سکتے ہیں؟ وہ تو اجلاسوں میں صرف حاضری لگانے کے لئے شریک ہوتے ہیں یا پھر انہیں ان فنڈز اور مفادات سے غرض ہوتی ہے، جو اسمبلی کے فلور پر وزیر اعظم اور وزراءکی بآسانی دستیابی کے باعث کوٹوں اور پرمٹوں کی مختلف درخواستوں پر احکامات سے حاصل ہوتے ہیں۔پاکستان میں کتنے وزراءارکان اسمبلی یا عوامی نمائندے ایسے ہیں، جنہوں نے کسی الزام یا اپنی وزارت کی خراب کارکردگی کے باعث استعفا دیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اول تو بڑی سے بڑی کوتاہی اور سنگین سے سنگین الزام پر بھی کسی کو مستعفی ہونے کی جرا¿ت نہیں ہوتی۔ اگر ہمارے ہاں چند مثالیں ملتی بھی ہیں تو ان میں کسی نے اخلاقی جرات کے تحت استعفے نہیں دئیے ،بلکہ عدلیہ اور میڈیا کے کردار کی وجہ سے انہیں ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
65 برسوں میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ جمہوریت صرف بلند بانگ دعوﺅں یا پارلیمنٹ کی بالادستی کے کھوکھلے نعروں سے مضبوط نہیںہو سکتی۔ اس کے لئے اقدار اور کردار کی مضبوطی ضروری ہے۔ جمہوریت میں اگر جھوٹ اور مکرو فریب غالب آجائیں تو اس سے برا نظام اور کوئی نہیں۔ اس نظام حکومت میں سب کچھ کریڈیبلٹی اور اعلیٰ اخلاقی و قانونی اقدار کے سہارے چلتا ہے، کوئی بھی شخص جمہوریت میں ناگزیر نہیں ہوتا، مگر یہاں تو ہر کوئی خود کو جمہوریت کے لئے ناگزیر سمجھتا ہے اور تاثر یہ دیتا ہے کہ اسے ہٹایا یا نااہل کیا گیا تو جمہوریت ڈوب جائے گی، حالانکہ جمہوریت مضبوط ہی اس وقت ہوتی ہے ،جب اسے شخصیات کی بجائے جمہوری اقدار اور اعلیٰ اصولوں کے تابع رکھا جائے۔ تب کوئی وزیر اتنا ناگزیر نہیں ہوتا کہ اسے کابینہ میں رکھنے کے لئے طے شدہ ضابطوں کو پامال کر دیا جاتا ہو۔ جن لوگوں کو سپریم کورٹ نے نا اہل کیا ہے، وہ اپنے گھر چلے گئے ہیں، تو جمہوریت کمزور نہیں ہوئی ،بلکہ اس میں استحکام آیا ہے۔ وہ لوگ جو ابھی اسمبلیوں میں موجود ہیں اور اس ”جرم“ کا ارتکاب کئے ہوئے ہیں، انہیں بھی از خود یہ راستہ اختیار کر لینا چاہیے، وگرنہ یہ بات تو طے ہے کہ اس ”جنگ“ میں قانون کے ان بھگوڑوں کا بھانڈہ کسی اور نے نہیں، گھر کے بھیدیوں نے پھوڑنا ہے، جو لنگر لنگوٹ کس چکے ہیں، جب تک جمہوریت کو ایسے ” قانون شکن“ رویوں سے آزاد نہیں کرایا جاتا، اس وقت تک ہماری جمہوریت اسی طوائف الملوکی کا شکار رہے گی، جو 65 برسوں سے اسے تارعنکبوت کی طرح جکڑے ہوئے ہے۔ ٭