لاہور سمیت ملحقہ 4اضلاع کیلئے صرف ایک صارف عدالت ،سائل مشکلات کا شکار
لاہور (لیاقت کھرل) اگرچہ صارف عدالت کے حوالے سے عام شہریوں میں آگاہی کم ہے لیکن اس کی افادیت سے انکار کسی طور پر ممکن نہیں ہے۔ایک روپے کی ماچس سے ایک کروڑ روپے گھر یا لاکھوں روپے کی گاڑی تک خرید وفروخت میں تمام تر تقاضوں سے انحراف ہے قانونی دروازے صارف عدالت میں ہی کھلتے ہیں۔ لاہور اور اس سے ملحقہ چاروں اضلاع کی کم وبیش ڈیڑھ کروڑ آبادی کیلئے صرف ایک عدالت کی موجودگی نے صارفین پر عدالت کے قانونی دروازے کھٹکھٹانا مشکل کردیے جہاں اربوں روپے کا لین دین کیا جاتا ہے اور اس میں کروڑوں کی جعل سازی و ہیرا پھیری معمول کی بات ہے۔ وہاں محض ایک صارف عدالت اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ ”پاکستان“ نے لاہور سمیت چار شہروں شیخوپورہ، ننکانہ، قصور کے شہریوں کیلئے ریوارزگارڈن میں قائم صرف واحد صارف عدالت کا سروے کیا اور صارف عدالت میں آنے والے شہریوں کے مسائل سنے تو اس موقع پر صارف عدالت میں آنے والے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا تھا کہ اربوں روپے کے روزانہ لین دین والے شہروں میں صرف ایک صارف عدالت کا ہونا ایک زیادتی ہے۔ صرف لاہور کی مارکیٹوں میں کمپیوٹرائز لیپ ٹاپ، جنریٹرز، موبائل فونز، شوز، رکشہ، گاڑی اور ٹریکٹرز سمیت کروڑوں کے گھروں کی خریدوفروخت میں روزانہ کروڑوں روپے کے فراڈ ہورہے ہیں۔ اس میں صارف عدالتوں کا دائرہ کار کو وسیع کرنا انتہائی ضروری ہے اور صارف عدالتوں کو خصوصی عدالتوں کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ اس موقع پر صارف عدالت میں آنے والے چوہدری منیر احمد، خاتون زمیر فاطمہ اور فرزانہ شاہد نے کہا کہ صارف عدالت کے قیام سے سول عدالتوں میں کئی کئی سال تک دھکے کھانے سے بچ گئے ہیں۔ اس میں صرف ایک مسئلہ کے عدالتوں کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔ لاہور میں کم سے کم چار صارف عدالتیں جبکہ لاہور سے ملحق شہروں شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور قصور میں الگ صارف عدالتوں کا قیام ضروری ہے۔ اس موقع پر فرزانہ شاہد نے بتایا کہ ایک پرائیویٹ ہسپتال کے ڈاکٹر نے اس کے پیٹ میں رسولی نہ ہونے کے باوجود الٹراساﺅنڈ اور سی ٹی سکین کی رپورٹ میں رسولی ظاہر کردی۔ جس پر اسے آپریشن کروانا پڑا اور پیٹ میں رسولی نہ نکلی اور صارف عدالت کے بارے پتہ چلنے پر کیس دائر کیا تو انصاف کی کرن دکھائی دینے لگی ہے۔ ایک خاتون زمیر فاطمہ نے بتایا کہ اس نے لبرٹی مارکیٹ میں ڈریس ڈیزائنر کو سوٹ دیا اور فراڈ اور ذہنی تکلیف کا نشانہ بننے پر صارف عدالت رجوع کیا اور اب صارف عدالت نے دکان کے مالک کو طلب کرلیا ہے اس موقع پر ایڈووکیٹ چوہدری طارق جاوید نے کہا کہ صارف عدالتوںکا قیام ایک خوش آئند اور ان عدالتوں کا دائرہ کار وسیع کردیا جائے۔ تو مارکیٹوں، بازاروں اور دکانوں سمیت دیگر ہونے والے کروڑوں اور لاکھوں کے فراڈ کی روک تھام ہوسکتی ہے۔ لاہور میں قائم صارف عدالت میں روزانہ 40 سے 50 کیسز آرہے ہی ں جبکہ ماہانہ 50 سے 60کیسوں پر فیصلہ سنائے جارہے ہیں اس سے ایک عام آدمی سے لیکر کروڑوں کے متاثرہ شہری کو انصاف مل رہا ہے۔ ان عدالتوں کو چونکہ خصوصی عدالتوں کے اختیارات حاصل ہیں اور عدالتوں کی تعداد بڑھنے سے شہر میں جہاں آگاہی بڑھے گی۔ وہاں نچلی سطح پر عام شہریوں تک انصاف کی رسائی مزید آسان ہوجائے گی۔ ایڈووکیٹ رانا منظور احمد نے بتایا صارف عدالتوں کا قیام سال 2006ءمیں اور ان عدالتوں کو سال 2007ءمیں فگشنل کیا گیا۔ اب تک ہزاروں کیسوں مدیں فیصلے اور ان پر عمل درآمد ایک بہت اچھا فیصلہ اور شہریوں کو بااثر تاجروں اور صنعت کاروں سے لاکھوں روپے واپس دلوانے کوئی عام بات نہیں ہے لیکن صارف عدالت کے قیام سے 400 روپے کے شوز سے لے کر کروڑوں روپے کے گھر اور لاکھوں روپے کی گاڑیوں تک کے فیصلے سنائے جانا آزاد عدلیہ کا ایک بہت بڑا کام ہے