جیت کا نشہ اپنی جگہ لیکن کوئی کھلاڑی جم کر نہ کھیل سکا
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رمیض راجہ نے بالکل ٹھیک کہا کہ اپنی ٹیم کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی، یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے، سری لنکا میں جاری ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے وارم اپ میں میں اسی ٹیم نے بھارت کی ٹیم کی طرف سے دیا جانے والا بڑا ہدف (پانچ گیند) پہلے ہی سر کرلیا اور پھر یہ حضرات برطانیہ کی ٹیم کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ اس برطانیہ کے ساتھ گزشتہ روز بھارت نے وہی سلوک کیا جو برطانوی ٹیم نے وارم اپ میچ میں پاکستان کے ساتھ کیا تھا یوں رمیض راجہ کی بات درست ثابت ہوئی۔اب اصل مقابلے شروع ہوئے تو کھلاڑیوں کی کچھ محنت، کچھ اتفاق اور خوش قسمتی نے ٹیم کو پہلا میچ جتا دیا نیوزی لینڈ کی ٹیم 13 رنز کے فرق کے ساتھ جیتنے والے میچ سے پوری قوم خوش اور مبارک بادیں دے رہی ہے۔اسی طرح بھارت کے خلاف جیت پر خوشیاں منائی گئی تھیں اور پھر جب برطانیہ سے ہارے تو سو سو کیڑے نکالے گئے۔ شاہد آفریدی، عمران نذیر اور عمر اکمل کو باہر بٹھانے پر زور دیا جانے لگا، کپتان عبدالحفیظ کی رہنمائی، باﺅلنگ اور بیٹنگ بھی اعتراض کا باعث بنی اوراب نیوزی لینڈ کے خلاف فتح نے سب کچھ ہی بھلا دیا ہے۔ ایک کھیل ہے اس کو کھیل ہی سمجھنا چاہئے اور پھر اس کھیل کے بارے میں تو بالکل صاف کہا جاتا ہے کہ جو ٹیم وقت پر اچھا کھیلے وہ جیت جاتی ہے اور گزشتہ روز پاکستان کرکٹ ٹیم کی خوش قسمتی کا دن تھا، ورنہ برینڈن میکلم جس طرح آﺅٹ ہوئے وہ کس کھاتے میں ڈالیں گے۔ ان کے ستارے گردش میں تھے کہ جو گیند وہ کھیلے اس نے آخری وقت میں بیلز گرا دیں ورنہ وہ تو ڈینجر مین اور ہیرو سعید اجمل کو بھی بہت اچھا کھیل رہے تھے۔ جیت کے نشے میں یہ نہ بھولیں کہ حفیظ، ناصر جمشید اور عمران نذیر کے بعد کوئی بھی کھلاڑی جم کر نہ کھیل سکا اور پہلے کے ہیرو گزشتہ روز کے زیرو ثابت ہوئے، پھر عمر ا کمل نے 23 رنز بنائے۔ شائقین کرکٹ نیوزی لینڈ والوں کی داد بھی دیں کہ وہ ایک بھرپور حکمت عملی سے کھیلے اور ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں کامیاب نظر آنے لگے تھے کہ قسمت نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، سعید اجمل نے پھر جادو گری دکھائی اور چار وکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ دوسری طرف برینڈن میکلم پریشان ہوکر باہر گئے اور پھر کامیابی پاکستان کی طرف آگئی۔ جیت کا نشہ اپنی جگہ، لیکن پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتا حضرات کو ویڈیو دیکھ کر خامیوں کا اندازہ لگانا چاہئے۔ عمران نذیر پر اعتراض کیا جارہا ہے تو یہ بھی دیکھا جائے کہ کیا اسے نیچرل گیم کھیلنے دی جارہی ہے۔ گزشتہ دو میچوں کے دوران تو یہی احساس ہوا کہ اسے دیکھ بھال کر اپنے قدرتی انداز سے کھیلنے کی ہدایت کے بجائے وکٹ پر کھڑا ہوکر ٹیسٹ کرکٹ کی طرح کھیلنے کو کہا گیا جو اس کے بس کی بات نہیں۔ اس کا تو صرف ایک ہی حل ہے کہ اسے ہدایت کی جائے کہ سکور کرنا ہے اور دیکھ کر اپنے اصل انداز سے کھیلو، عمران نذیر ایسا کھلاڑی ہے جو چند لمحوں میں کھیل کا پانسہ پلٹنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر اس کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ شعیب ملک اور کامران اکمل کو بھی خود پر توجہ دینا ہوگی کہ صرف ایک میچ میں بہتر کارکردگی ہی کامیابی کی ضامن نہیں، ان کو بہتر کارروائی میں تسلسل پیدا کرنا ہوگا، شاہد آفریدی کی بات تو وہ عرصہ دراز سے سکور نہیں کررہا اور پھر ان کی عادات میں تبدیلی نہیں آئی، وہ اپنی سنیارٹی کے زعم میں بھی ہیں کیا انہیں فارم میں واپس لانے کے لئے صرف باﺅلر کے طور پر کھلایا جارہا ہے، کیا ان کی باﺅلنگ والی کارکردگی سوالیہ نشان نہیں؟ بہتر ہوگا کہ اس پر بھی غور کیا جائے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ ہمارا فاسٹ باﺅلنگ کا شعبہ کیوں کمزور جارہا ہے، محمد اکرم کو سپشلسٹ کوچ کے طور پر لیا گیا، اب تک تو ان کی کوچنگ کے اثرات یہ ہیں کہ محمد سمیع باہر بیٹھا ہے، سہیل تنویر کی پرفارمنس بھی سوالیہ نشان ہے، اس لئے وٹمور اور اکرم کو خود میچ کی ویڈیو دیکھ کر اپنی استادی کے گروں پر غور کرنا چاہئے۔آج کا میچ رسمی قرار دیا جارہا ہے بنگلہ دیش کی ٹیم میں تمیم اقبال، شکیب الحسن اور ناصر حسین جیسے نوجوان موجود ہیں۔ بنگلہ دیشی ٹیم کو کمزور نہ جانا جائے، اگلے راﺅنڈ کے لئے آج کا میچ بڑے مارجن سے جیتنا ضروری ہے، سینئر کھلاڑیوں کو اسے پریکٹس کے طور پر بھی لینا چاہئے تاکہ سپر ایٹ میں کارکردگی جیت والی ہو کہ وہاں غلطی کی گنجائش نہیں ہوگی۔ ٹی 20 ورلڈ کپ جیتنے کے علاوہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا یہ ریکارڈ بھی ہے کہ وہ تمام میچوں میں سیمی فائنل ضرور کھیلی، پوری قوم کی دعائیں ساتھ ہیں، کھلاڑیوں کو قوم کے جذبات کے ساتھ ساتھ اپنے کیریئر کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔