”اسلامی ریاست“ کے خلاف کارروائیوں پر عراق اور امریکہ کااتفاق
واشنگٹن (اظہر زمان، تجزیاتی رپورٹ) جس وقت امریکہ نے اپنے نئے عرب اتحادیوں کے ہمراہ شام کی سرحد کے اندر ”اسلامی ریاست“ اور القاعدہ کے مقامی یونٹ پر منگل کے روزز حملہ کیا اس وقت وزیر خارجہ جان کیری، عراق کے صدر فواد معصوم اور وزیر خارجہ ابراہم جعفری نیویارک میں ایک مشترکہ ملاقات میں مصروف تھے۔ ملاقات کے بعد وہ تینوں میڈیا کے سامنے پیش ہوئے جس میں عراقی صدر نے واضح طور پر بتایا کہ ”اسلامی ریاست“ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف حکمت عملی میں ہمارا امریکہ سے مکمل اتفاق ہے۔ انہوں نے اتحاد میں شامل دیگر عرب ملکوں کا شکریہ بھی ادا کیا جو عراق کی حمایت اور دہشت گردی کی مخالفت میں سرگرم ہوئے ہیں۔نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ہم ہمیشہ سے یہ موقف رکھتے تھے کہ اگر ”اسلامی ریاست“ کے خلاف جنگی کارروائی کرنی ہے تو پھر جغرافیے اور سرحد کا لحاظ نہیں ہوگا۔ اس خطے میں ظالمانہ کارروائیاں کرنے کے بعد انہیں احتساب سے بچنے کیلئے محفوظ پناہ گاہوں میں رہنے کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جیسا کہ صدر اوبامہ اعلان کرچکے ہیں ”اسلامی ریاست“ کے جنگجو نہ صرف عراق اور خطے کے استحکام کے لئے خطرہ ہیں بلکہ ان کی دہشت گردی سے امریکہ یورپ اور دور دراز کے ممالک کو بھی خطرہ ہے۔وزیر خارجہ جان کیری نے عراق کی نئی انتظامیہ کی خصوصی طور پر اس بات پر تعریف کی کہ انہوں نے کامیاب سفارتی کوششوں کے ذریعے پچاس سے زائد ممالک کو ”اسلامی ریاست“ کے خلاف اتحاد میں شامل ہونے پر رضامند کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ عراق میں ایک پائیدار جمہوری حکومت کو فروغ دینے میں مددگا رہے گا۔امریکہ نے حال ہی میں عراق کے اندر ”اسلامی ریاست“ کے جنگجوﺅں کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کیا تھا جس کے بعد امریکہ کے اندر اور باہر یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا عراق سے نکلنے کے بعد امریکہ ایک بار پھر عراق میں جنگ کا آغاز کررہا ہے۔ ”اسلامی ریاست“ کی جنگی صلاحیتوں سے باخبر عسکری ماہرین آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں زمینی جنگ کے بغیر شکست نہیں دی جاسکتی۔ لیکن صدر اوبامہ واضح طور پر اس موقف پر قائم ہیں کہ امریکہ وہاں وسیع پیمانے پر زمینی فوج نہیں بھیجے گا اور جو چند سو امریکی فوجی وہاں موجود ہیں وہ عراقی فوج کی مدد کیلئے ہیں اور وہ لڑائی میں براہ راست شریک نہیں ہوں گی۔ امریکی رائے عامہ عمومی طورپر جنگی تھیٹروں سے امریکی فوج کی واپسی کے حق میں ہے اور عراق یا شام میں نئی زمینی جنگ چھیڑنے کے خلاف ہے۔ لیکن ”اسلامی ریاست“نے جس طرح عسکری فتوحات حاصل کی ہیں اور اپنی خلافت کا مستقبل کا ایجنڈا پیش کیا ہے اس سے امریکی عوا م اس بات کے ضرور حامی ہوگئے ہیں کہ امریکہ کو اس خطرے کا سدباب کرنے کے لئے اس خطے میں ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ خلاف معمول کانگریس کے دونوں پارٹیوں کے ارکان نے اوبامہ انتظامیہ کی طرف سے عراقی انتظامیہ کے لئے مالی اور فوجی امداد کے بلوںکو فراخ دلی سے منظور کرلیا ہے۔ عسکری ماہرین اس بات کو بہت اہمیت دے رہے ہیں کہ امریکہ نے سرحد پار شام کے اندر فضائی کارروائی کا آغاز اکیلے نہیں کیا بلکہ عراقی حکومت کو پچاس سے زائد ممالک کے اتحاد کو قائم کرنے کا موقع دیا ہے شام کے اندر پہلا فضائی حملہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ کے غیر شیعہ مسلک کی اکثریت والے ممالک سعودی عرب ، اردن، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور قطر کے ساتھ مل کر کیا ہے۔ اس اتحاد میںشام کی سرکاری انتظامیہ کا حامی ہونے کے باعث ایران شریک نہیں ہے لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ عراق کے اندر ”اسلامی ریاست“ کے اندر کارروائیوں میں بغیر کسی تحریری معاہدے کے ایران امریکہ اور عراقی انتظامیہ کے ساتھ مل کر چل رہا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں ”اسلامی ریاست “ کے خلاف نفرت میں ان کی دو امریکی صحافیوں کا سرقلم کرنے کی کارروائی اور اس کی انٹرنیٹ پر تشہیر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب امریکہ نے شام کے خلاف فضائی کارروائی کی ہے تو امریکہ کے اندر سے اس کے خلاف کوئی واضح آواز بلندنہیں ہوئی۔ واشنگٹن کے سرکاری حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ ”اسلامی ریاست“ نائن الیون کی طرزکا دہشت گردی کا ایک نیا منصوبہ بنارہی تھی جسے ناکام بنادیا گیا ہے۔ یادرہے کہ ”اسلامی ریاست“ القاعدہ کا ہی ایک باغی گروپ ہے لیکن اس کا ایجنڈا ویسا ہی ہے۔ القاعدہ کی فرنچائز تنظیم ”النصرہ فرنٹ“ کا ایک حصہ جسے خراسانی گروپ کہا جاتا ہے وہ ”اسلامی ریاست“ کے ساتھ جنگی کارروائیوں میں سرگرم ہے جس کے ٹھکانے بھی نئے اتحادیوں کا نشانہ بن رہے