وزیراعظم کا تاریخی خطاب

وزیراعظم کا تاریخی خطاب
وزیراعظم کا تاریخی خطاب

  

اقوام متحدہ 24اکتوبر 1945ء میں معرض وجود میں آیا، جس کا مقصد مذہب، زبان، رنگ و نسل اور جنس کے فرق سے بالاتر ہو کر انسانیت کی عزت و حرمت ، انسانی اقدار کی قدرو منزلت ،بنیادی حقوق کی فراہمی، نسل نو کو جنگوں سے بچانا اور چھوٹی بڑی قوموں کو مساوی حقوق فراہم کرنا ہے،لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ بڑی طاقتوں کا آلہ کار بن کر رہ گیا، جس کی وجہ سے کشمیر و فلسطین سمیت تیسری دُنیا کے مسائل آج بھی حل طلب ہیں جو مہذب دُنیا کا مُنہ چڑا رہے ہیں۔

کشمیر کے حوالے سے اگر پاکستان اور بھارت کے تاریخی تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو قیام پاکستان سے لے کر آج تک بھارت سے باہمی تعلقات کبھی پُرامن اور نارمل نہیں رہے۔ 14اگست 1947ء کو برصغیر ہند کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تو پہلی پاکستان آزاد مسلم ریاست وجود میں آئی ۔ آزادی کو ایک برس بھی نہیں ہوا تھا کہ بھارت نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان پر جنگ مسلط کر دی ۔اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لا ل نہرو نے جنگ بندی اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دو قرار دادیں پیش کیں، جو متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔کشمیروہ واحد عالمی تنازع ہے، جس کے لئے 1948ء سے لے کر 1957ء تک یکے بعد دیگر 5قرار دادیں منظور کی گئیں،جن پر بھارتی قائدین کے دستخط بھی ثبت ہیں۔ پاکستان نے تو ان قراردادوں کو من و عن تسلیم کیا، لیکن بھارت نے قراردادوں کی پاسداری کے بجائے کشمیری عوام پرظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے اور کشمیر کو اٹوٹ انگ کہہ کر عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی پر تُلا ہوا ہے۔

کشمیریوں کے پیدائشی اور بنیادی انسانی حق خود ارادیت کے لئے پاکستان نے دنیا کے ہر فورم پر اپنی آواز بلند کی۔ سارک سے لے کر اقوام متحدہ تک اس مسئلے کو لے کر گیا۔ صدر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو،جنرل (ر) ضیاء الحق نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوشش کی،لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور سے لے کر 2012ء تک اسے مسلسل نظر انداز کیا گیا یا چشم پوشی کی گئی۔ 2001ء میں جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی ایجنڈا پیش کیا، جسے حریت رہنماؤں نے یکسر مسترد کر دیا۔یہاں تک کہ اس دوران حریت رہنماؤں کو بھارت کی ایٹمی طاقت سے ڈرا دھمکا کر کشمیر پر سمجھوتہ کرنے کے لئے دباؤ بھی ڈالا گیا۔ 2006ء میں پرویز مشرف اقوام متحدہ کے فورم پر گئے، لیکن انہوں نے مسئلہ کشمیر کے بجائے بیرونی امداد نہ ملنے کا رونا رویا اوراپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر کرنا بھی گوارا نہ سمجھا۔ پرویز مشرف دور میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب شمشاد احمد خان نے انکشاف کیا کہ پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں بات نہ کرنے کا حکم صادرکر رکھا تھا۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ میں ڈائس پر بے نظیر بھٹو کی تصویررکھ کر خطاب کیا ،ان کا فوکس دہشت گردی پرہی تھا۔ عالمی رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے وہ بار بار بے نظیر بھٹو کا ذکر کرتے رہے اور اقوام متحدہ سے بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرانے میں مدد کی اپیل کی ۔افسوس کہ 2009ء میں بھی جنرل اسمبلی کے خطاب میں پیپلزپارٹی کی قیادت نے مسئلہ کشمیر کی بجائے امریکہ سے امداد پر زور لگا دیا۔بھلا ہو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا جنہوں نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کے لئے ٹھوس حکمت عملی اپنائی ۔2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آنے کے بعد وزیراعظم میاں محمد شریف نے مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم، بھارتی درندگی ، حیوانیت،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حوالے سے علاقائی اور عالمی سطح پر بھر پور موقف اپنایا اور تنازع کے حل کے لئے از سرنو جدوجہد کاآغاز کیا۔

گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے پہلی بار30سال بعدہندو بنئے کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تو پورا ہندوستان بلبلا اُٹھا ۔ انہوں نے اس موقع پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے5نکاتی ایجنڈا بھی پیش کیا،لیکن بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اورمذاکرات سے بھاگ گیا۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھانے پر ہندوستان کے پیٹ میں مروڑ اس بات پر اٹھا کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر پر واضح اور سنجیدہ موقف کیوں اپنایا۔بس اسی چیز کو لے کر جنگی جنون میں مبتلا بھارت پاکستان کو عالمی دنیا میں تنہاکرنے، معاشی پابندیاں لگوانے اور دہشت گرد ملک قرار دلوانے کے جتن میں لگ گیا،لیکن مودی سرکار کا یہ راگ بے سرا ہی ثابت ہوا ۔۔۔’’کشمیر مشن ‘‘ کے نام سے موسوم حالیہ دورہ اقوام متحدہ میں وزیراعظم نے یک نکاتی ایجنڈے پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔21ستمبر 2016ء کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 193ممالک پر مشتمل دُنیا کی سب سے بڑی پنجائیت میں مقبوضہ کشمیر کی گھمبیر صورتِ حال، انتفاضہ طرز(کسی شخص کو جھنجھوڑنے سے بڑے پیمانے پر عوامی بیداری یا بغاوت کی تحریک) پر کشمیریوں کی تحریک پر بھارت کے ظالمانہ ریاستی اقدامات کو نہ صرف بے نقاب کیا،بلکہ اقوام متحدہ کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور مطالبہ کیا کہ وہ انصاف اور عالمی امن کے لئے اپنی ہی منظور شدہ قرار دادوں پر عمل کرائے، ماورائے عدالت کشمیریوں کے قتل عام کی تحقیقات کے لئے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجا جائے، جموں و کشمیر سے بھارت کا غیر قانونی قبضہ ختم کرایا جائے ۔وزیراعظم نے اپنے خطاب میں پوری قوم کے اصولی موقف کی ترجمانی کی، جس سے کشمیریوں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں وزیراعظم نواز شریف ہی وہ واحد لیڈر ہیں،جنہوں نے عالمی بیٹھک میں مدلل ، مدبراور جامع الفاظ میں کشمیر کے دیرینہ مسئلے کو از سر نو اُجاگرکیا۔ وزیراعظم کی ڈلیوری کا لب و لہجہ، انداز تخاطب اتنا واضح اور اثرانگیز تھا کہ مکار ہندو آگ بگولا ہو گئے اور وزیراعظم پر چڑھ دوڑے۔

وزیراعظم پاکستان کی دو ٹوک تقریرسن کر انتہاپسندوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور انتہا پسندی کی انتہا کر دی گئی ۔بھارتی انتہا پسند تنظیم نے نواز شریف کا سر کاٹ کر لانے والے کے لئے ایک کروڑ روپے کا انعام رکھ دیا۔اس دوران بھارتی میڈیا بھی جنگی جنون میں اندھا ہوگیا۔ باؤلا ہوکر اخلاقیات اور تہذیب کا سر قلم کر دیااور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں تمام حدیں پار کرگیا۔ادھر عاقبت نا اندیش، تنگ نظر، تنگ دل اور بزدل نریندر مودی نے تحریک آزادی کو دبانے کے لئے ظلم اور جھوٹ، دھوکہ اور فریب کا سہارا لئے ہوئے ہیں۔ ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں نہتے اور معصوم کشمیریوں پر ظلم کی داستانیں رقم کی جار ہی ہیں تو دوسری طرف جھوٹ کا سہارا لے کر آئے روز پاکستان پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ پُرجوش جدوجہد سے بدحواس بھارت نے حالیہ اڑی حملے کا ڈرامہ رچایا اورچند ہی گھنٹے بعد اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا، لیکن بھارتی تحقیق کاروں نے ہندوستانی حکام اور میڈیا کے مُنہ پر یہ کہہ کر کالک مل دی کہ حملہ آوروں سے ملنے والے ہتھیاروں پرکسی ملک کے نشانات نہیں پائے گئے۔۔۔ جنرل اسمبلی میں خطاب کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کو کشمیر میں ہندوستانی فوج کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ریاستی دہشت گردی کے ثبوت اور تصاویر پیش کیں، جنہیں دیکھ کر سیکرٹری جنرل نے گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم روکنے کے لئے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور فرانس کو مکتوب تحریر کئے گئے ہیں، جن میں بھارتی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران سائیڈ لائن میں ہونے والی وزیراعظم کی ملاقاتوں میں چین ، ترکی، اٹلی، سوڈان سمیت دیگر ممالک نے پاکستانی موقف کی کھل کر تائید کی، جس کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں خاصی مدد ملی ہے۔

8 جولائی 2016ء کو حریت کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت سے شروع ہونے والی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے بھارتی فورسز کی فائرنگ سے اب تک 100 سے زائد کشمیری شہید اور 10ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں ۔ پیلٹ گنوں سے سینکڑوں کشمیری نوجوان اور شیر خوار بچے بینائی سے محروم ہوچکے ہیں ۔ وادی بھر میں 76روز سے کرفیو اور کشیدگی نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے، لیکن ایک جذبہ حریت ہے جو کسی صورت کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔علاوہ ازیں لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیز کراس بارڈر فائرنگ سے گزشتہ دو برسوں میں 57پاکستانی شہری شہید اور 225 سے زائد زخمی ہوئے۔ 2014ء میں 315بار ایل او سی کی خلاف ورزی کی، گولہ باری سے 18شہری شہید اور 74زخمی ہوئے۔ 2015ء میں 248 بارسیز فائر کی خلاف ورزی اور گولہ باری سے 39شہری شہید اور 150 زخمی ہوئے۔ رواں سال اب تک 44بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔یہ امر افسوسناک ہے کہ انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن اقوام متحدہ اور مغرب نے کشمیر میں بھارتی نسل کشی ، ظلم و ستم پر آنکھیں موند رکھی ہیں۔ اگر عالمی بیٹھک میں ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر واویلا ہو سکتا ہے، تو کشمیر میں ظلم و جبر کی انمٹ داستانیں نظر کیوں نہیں آتیں؟مسئلہ کشمیر پر اقوام عالم کی پراسرار اور متعصبانہ خاموشی سوالیہ نشان ہے۔

مزید :

کالم -