تھر پارکر ایک بار پھر قحط کا شکار
صوبہ سندھ کا سب سے بڑا ریگستانی ضلع تھرپارکر ایک بار پھر سخت قحط کا شکار ہے۔ پورے علاقے میں بارش برسنے کی تعداد اور رفتار اس نوعیت کی نہیں رہی، جس کی وجہ سے لوگ کاشت کاری کر پاتے۔ پہلی بارش پر زمین ہموار کی، دوسری پر بیج ڈالا اور تیسری بارش کا انتظار ہی رہا، لیکن بارش نہیں ہوئی۔ نتیجہ میں خشک سالی اور قحط پڑ گیا ۔ سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا گزر بسر ہی مویشیوں پر ہوتا ہے۔ جب مویشی کے کھانے کے لئے چارہ نہ ہو اور پینے کا پانی بھی موجود نہ ہو تو ان لوگوں کو نہری علاقوں کی طرف اپنے مویشیوں سمیت منتقل ہونا پڑتا ہے۔
آج کل ایسی ہی صورت حال ہے۔ نوکوٹ سے ننگر پارکر تک فاصلہ ساڑھے تین سو کلو میٹر بنتا ہے۔ رات ہو یا دن، سڑک پر ایک کنارے مویشیوں کے ریوڑ چلتے ملتے ہیں۔ نہری علاقوں کو یہ سندھ قرار دیتے ہیں۔ نہری علاقوں میں یہ لوگ اپنے مویشیوں کے لئے چارہ حاصل کرسکیں گے اور خود کاشت کاری کر کے اپنا پیٹ بھر سکیں گے۔ایسے حالات سے جو لوگ دوچار ہوتے ہیں انہیں ہی حالات کی سختی کا علم اور احساس ہوتا ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں تو تھر پارکر میں وسائل رکھنے والوں کے لئے زندگی معمول کے مطابق ہی رہتی ہے۔
جو لوگ ان علاقوں کے لوگوں سے ووٹ حاصل کرتے ہیں اور بڑے ایوانوں میں نمائندگی کے دعوے دار ہوتے ہیں، ان کی بے حسی اور بلدیاتی اداروں کے منتخب نما ئندوں اور افسران کی سوچ و صلاحیت سے محروم ناقص کارکردگی پر رونا آتا ہے۔ قحط کو ئی نئی بات نہیں ہے کیوں کہ تین یا چار سال بعد پورا علاقہ اسی طرح کی صورت حال سے دوچار ہوتا ہے، جس کا کوئی عملی تدارک نہیں کیا جاتا ہے۔
بہت کم لاگت پر ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جن کے نتیجے میں قحط کے شکار لوگوں اور مویشیوں کو کسی حد تک سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ تھر پارکر کے پانچوں تعلقوں میں ہر فاصلے جو پچیس کلو میٹر ہو سکتا ہے، کے بعد ایسے سرائے اور مویشیوں کی خوراک کا بندوبست کیا جاسکتا ہے جہاں ’’سندھ‘‘ جانے کی بجائے وہ اپنے دیہاتوں کے قریب ہی اپنے مویشیوں کو خوراک کھلا سکیں اور خود بھی پیٹ بھر سکیں۔ اسلام کوٹ میں نینو رام کا آشرم موجود ہے جہاں انسانوں اور جانوروں کے لئے موسم میں کسی تبدیلی کے اثرات کے بغیر لنگر خانہ چوبیس گھنٹے کھلا ررہتا ہے۔ دیگر علاقوں میں اس آشرم کے طرز پر ٹھکانے کیوں نہیں بنائے جاسکتے ہیں۔ اس کی منصوبہ بندی کوئی مشکل یا مہنگا کام نہیں ہے۔
تھر پارکر کی ایک تحصیل اسلام کوٹ میں کوئلے سے بجلی تیار کرنے کے منصوبہ پر کام تیزی سے ہو رہا ہے۔
ایک نجی کمپنی نے حکومت سندھ کے اشتراک سے کام شروع کیا، کوئلہ کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں، بجلی تیار کرنے والے پاور ہاؤس کی تعمیر مکمل ہونے کو ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ دسمبر میں بجلی تیار کرنے کا کام شروع کر دیا جائے گا۔ اس منصوبہ کی وجہ سے تو اسلام کوٹ یا قریبی دیگر علاقوں میں تیز رفتاری کے ساتھ معاشرتی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں، لیکن جو بات بتانا مقصود ہے وہ یہ کہ کوئلہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے پانی کے مسلے سے دوچار ہونا پڑا۔ کڑوا پانی نکلا۔ پانچ ہزار ٹی ڈی ایس کا پانی نکالا گیا ۔ کمپنی نے اس پانی سے دیگر فوائد حاصل کئے۔ مچھلی کی پیداوار شروع کی ۔ ریگستان میں مچھلی کا تصور ہی نہیں تھا۔ اب وہاں مچھلی پیدا ہورہی ہے، اس کڑوے پانی سے شجر کاری کی جارہی ہے۔ پودے اور درخت اگائے گئے ہیں، سبزیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کڑوے پانی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ کوئلہ کے بجلی گھر کی تعمیر پر ماحول میں آلودگی پیدا ہونے کے امکانات کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن کمپنی نے ماحول میں پیدا ہونے والی آلودگی کا مقابلہ کرنے کے لئے شجر کاری کے کاموں کا آغاز بھی کیا ہے۔ درختوں کی بہتات پورے علاقے کی آب و ہوا اور ماحول کو ساز گار رکھنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔
جب اس منصوبے پر کام کرنے والے لوگ شجر کاری کر سکتے ہیں تو جگہ جگہ ایسے چھوٹے تالاب کیوں نہیں تعمیر کئے جاسکتے جن میں موجود پانی سے گھاس پیدا کی جاسکے۔ اور ان ہی تالابوں کے قریب کڑوے پانی کو میٹھا کرنے والے سورج کی روشنی سے چلنے والے آر او پلانٹ کیوں نہیں نصب کئے جا سکتے ۔ حکومت سندھ کا تو دعوی ہے کہ اس نے تھرپار کر کے مختلف علاقوں میں چار سو چھوٹے بڑے پلانٹ نصب کئے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان میں سے کتنے پلانٹ کام کر رہے ہیں، کیونکہ بڑی تعداد میں پلانٹ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ پڑے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے بعض دیہاتوں میں آر او پلانٹ نصب کئے۔ گاؤں والے خود آر او پلانٹ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور اس پانی سے کاشت کاری بھی کرتے ہیں۔ اگر مقصد سامنے رکھا جائے تو سرکاری سطح پر کم لاگت سے یہ کام کیوں نہیں کئے جاسکتے ہیں۔
مقصدتو یہ ہی ہے کہ غریب لوگوں کو ان کے مویشیوں کے لئے گھاس فراہم کر دیا جائے ۔ پینے کا پانی فراہم کردیا جائے اور چھوٹے چھوٹے لنگر خانے شروع کر دئے جائیں۔ ماڈل کے طور پر نوکوٹ سے ننگر پارکر کے درمیان چار ہی منصوبوں پر کام کا آغاز کیا جا سکتا ہے ۔ یہ ذمہ داری سرکاری ملازمین انجام دینے سے قاصر رہیں گے کیوں کہ ان کا مطمح نظر اور خواہش کچھ اور ہوتی ہیں۔ فلاح انسانیت فا ؤنڈیشن سے مدد لی جائے اور کوئلہ سے بجلی تیار کرنے والی کمپنی اینگرو کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایاجائے تو یہ منصوبہ کامیاب ہوجائے گا ۔ جب یہ کامیاب ہو جائے تو اسے دوسرے علاقوں میں پھیلایا جائے، تاکہ افلاس کے مارے ہوئے لوگوں پر زندگی آسان ہو سکے۔