دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم پانی کے سنگین بحران کا حل

دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم پانی کے سنگین بحران کا حل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ناصرہ عتیق

پاکستان میں پانی کے سنگین بحران سے بچنے کے لئے دیامیربھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پانی کا یہ بحران شب بھر میں پیدا نہیں ہوا۔ اس کا بیج گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں بویا گیا تھا جو مختلف حکومتوں کی چشم پوشیوں اور بے رعنائیوں کے سبب آج شجر خبیثہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس بحران سے نبٹنے کا فوری طریقہ وہی ہے جو پاکستان کے عدالت عظمیٰ کے متحرک چیف جسٹس نے سجھایا ہے اور جس کی تائید ملک کے وزیراعظم نے فی الفور کی ہے۔ محترم چیف جسٹس کی تحریک پر اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں نے صدقِ دل سے لبیک کہا اور اپنے پیارے وطن کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بساط سے بڑھ کر رقوم کی ترسیل شروع کر دی۔ بڑے تو ایک طرف بچوں نے بھی اپنا جمع شدہ جیب خرچ سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ بنک اکاؤنٹ میں جمع کرانا شروع کر دیا ہے۔ خواتین اس ضمن میں خاصی فعال ہیں۔میرے وطن کی خواتین ویسے بھی نیک کاموں کے لئے عطیات کی اپیل پر کان ،ہاتھوں اور گلے کے زیورات بھی نچھاور کرنے میں ذرا دریغ نہیں کرتیں اور پھر یہ معاملہ تو ویسے بھی ملک و قوم کی حیات و بقا کا معاملہ ہے۔ خواتین نہ صرف خود مالی امداد دے رہی ہیں بلکہ ان سب لوگوں کو بھی رغبت دلا رہی ہیں جو ان کے دائرہ اثر میں ہیں۔ لوگوں کو اب اس بات کا یقین ہے کہ ان کے عطیات کی رقم صحیح جگہ پر خرچ ہوگی اور غلط ہاتھوں میں نہیں جائے گی۔
دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر ایک ناگزیرضرورت ہے۔ ملک میں آبی ذخیروں کی صورت حال سے سب ہی آگاہ ہیں اور ان میں تیزی سے پیدا ہوتی ہوئی کمی سے سبھی واقف ہیں تاہم چند مفاد پرست اور شورش پسند عناصر نے جو پاکستان کی ترقی و استحکام کے بارے میں ہمیشہ منفی رویہ رکھتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے محترم چیف جسٹس کی جانب سے عطیات کی اپیل کو استہزاء اور تضحیک کا نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ان بدباطن لوگوں نے دراصل ان بیرونی قوتوں کی آواز میں آواز ملائی ہے جنہیں پاکستان کی ترقی و نمو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور جو پاکستان میں پانی کے بحران کو جلد سے جلد ایک قومی المیہ کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
دیامربھاشا ڈیم ایک بڑا ڈیم ہے جو گلگت بلتستان میں ضلع دیامیر کے شہر چلاس کی اترائی میں چالیس میل کی دوری پر واقع ہے۔ اس کی تکمیل کے بعد 4500میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی جو ملکی کھپت کا بڑا بوجھ اٹھائے گی اور ان خدشات کو دور کرے گی جن کا سامنا ڈیم نہ بننے کی صورت میں پاکستان کو 2025ء میں کرنا پڑے گا۔
اللہ پاک ہمت و استقامت سے نوازے ہمارے محترم چیف جسٹس کو کہ جنہوں نے اس ملکی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے بروقت صدا بلند کی اور لوگوں میں اس مسئلے کا شعور بیدار کیا۔ عوام نے جس عجلت کے ساتھ محترم چیف جسٹس کی پکار پر لبیک کہا وہ قابلِ ستائش ہے۔ لوگوں کا فوری ردعمل اس بات کا غماز ہے کہ وہ صادق و امین رہنما کی آواز پہچاننے لگے ہیں۔ گھپ اندھیرے پر روشنی یقیناً غلبہ پاتی ہے خواہ ایک ہی دیا کیوں نہ جلایا جائے۔ بارہا میں ایسے مشاہدات میں سے گزری ہوں کہ جب عوام نے حق و سچ کی پکار کا ادراک کرتے ہوئے اپنے منہ کا نوالہ اور ہاتھ کی آخری پونجی بھی دے دی تھی۔ پاکستانی قوم کو میں نے سنگین موقعوں پر سیسہ پلائی دیوار میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قوم سے میں کبھی مایوس نہیں ہوئی۔
اب دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا معاملہ ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ یہ دونوں ڈیم مقررہ وقت میں تعمیرہوجائیں گے اس لئے کراس کا بھرپور آغاز اس شخص کے توسط سے ہوا ہے جو ایک دردمند دل رکھتا ہے اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا مصنف ہے۔
عدالت عظمیٰ کے محترم چیف جسٹس کالاباغ ڈیم کی افادیت اور ناگزیریت سے بخوبی آگاہ ہیں تاہم وہ ان پھندوں سے بھی واقف ہیں جو تخریب کار سیاستدانوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے راستے میں بچھائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محترم چیف جسٹس نے دیامیربھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تکمیل کو سرفہرست رکھا ہے تاکہ کسی قسم کا الجھاؤ پیدا نہ ہو اور کام تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچے۔ یہ دونوں ڈیم ملکی معاشرت و معیشت کے لئے از حد ضروری ہیں۔ پینے کا صاف پانی، آبپاشی کے تقاضے اور بجلی کی پیداوار ان دونوں ڈیموں کی تعمیر کے نتیجہ میں میسر ہو گی۔
کہتے ہیں کہ آئندہ جنگیں پانی کے حصول کی خاطر لڑی جائیں گی۔پاکستان دنیا کے جس خطے میں واقع ہے وہاں پانی کی صوت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ اس لئے ہمیں حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس بارے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔
اس بات کا علم سب کو ہے کہ پانی زندگی ہے۔ اس دنیا کا 71فیصد حصہ پانی ہے۔ سب سے زیادہ پانی بحر و سمندر کی صورت میں موجود ہے جبکہ جھرنوں، جھیلوں، ندیوں اور دریاؤں کی صورت میں پانی اس دنیا میں زندگی کا پرچم سنبھالے ہوئے ہے۔ انسانی بدن میں بلحاظِ جسامت 55سے 78 فیصد پانی موجود ہوتا ہے۔ پانی ہمیں زندہ رکھتا ہے اور ہماری ضروریات پوری کرتا ہے۔ پینے، کھانے پکانے، کپڑے دھونے ، صفائی ستھرائی اور نہانے کے علاوہ اَن گنت کام ایسے ہیں جن میں پانی کا استعمال ہوتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بیش بہا خدائی عطیے کا احساس نہیں ہے۔ بے دریغ ہم اسے ضائع کرتے ہیں اور اس کے استعمال میں احتیاط نہیں برتتے۔ اب جو شور مچا ہے تو ہمیں اس شور پر کان دھرنا چاہیے۔ سمجھدار قومیں اپنے مسائل کا احساس کرتی ہیں اور ان کے حل کے لئے راست اقدام کرتی ہیں۔
دیامربھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے محترم چیف جسٹس نے نہ صرف صدا بلند کی ہے بلکہ ایک ایسے نیک اکاؤنٹ کا اجراء کیا ہے کہ جس میں جمع ہونے والی رقوم ان لوگوں کو سرخروئی عطا کرے گی جو ان کے عطیات پر مشتمل ہوگی۔ یہ عطیات چندہ ہرگز نہیں ہیں بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت ایک ایسے مقصد کے تحت جمع کی جانے والی رقم ہے جو قومی و ملکی مفاد کے لئے فائدہ مند، مستقل و پائیدار اور عام لوگوں کے لئے نفع آور ثابت ہوگی۔ باعثِ مسرت ہے یہ امر کہ لوگوں نے عطیات کی اپیل پر مثبت اور فوری ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی قوم اور تارکینِ وطن دل کھول کر رقوم جمع کرا رہے ہیں۔ پاکستانی خواتین بالخصوص اس کارِ خیر میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ وہ بڑھ چڑھ کر عطیات دے رہی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ عطیات دینے والوں کے نام مشتہر ضرور کئے جائیں۔ ایسا کرنا ان کی نمود و نمائش نہیں ہے بلکہ تحریک ہے ان لوگوں کے لئے جو صاحبِ استطاعت ہیں مگر متذبذب ہیں۔ تاہم اکثریت کو اس بات کا یقین ہے کہ عطیات کی اپیل اس بار مخلص اور درمند دل کی آواز ہے اور ’قرض اتارو، ملک سنوارو‘ سے رسوا نعرے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا اعلان ملک کی عدالت عظمیٰ کے محترم چیف جسٹس نے کیا ہے اورمجھے یقین ہے کہ دونوں ڈیم اپنی مقررہ مدت میں تعمیر ہو کر ملکی ترقی و فلاح میں پائیدار اور مستقل کردار ادا کریں گے۔ انشاء اللہ

مزید :

ایڈیشن 2 -