فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر524
ادھر پاربتی اچانک سوتے سوتے جاگ جاتی ہے۔ اٹھ کر بے چینی سے کمرے سے باہر جانے لگتی ہے۔ شوہر دریافت کرتا ہے ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘
وہ کہتی ہے ‘‘کوئی مجھے پکار رہا ہے۔‘‘
’’اتنی رات گئے کون پکارے گا۔ چلو آرام سے سو جاؤ۔‘‘
پارو بے چین اور بے قرار ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا سبب کیا ہے۔
ادھر حویلی کے باہر اس چبوترے پر پڑا زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے اور زیر لب کہہ رہا ہے ’’میں آگیا پارو۔ میں آگیا۔‘‘
صبح دم گاؤں والے دیوداس کی لاش دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو پہچان بھی لیتے ہیں۔ شدہ شدہ یہ خبر حویلی کے اندر بھی پہنچ جاتی ہے۔ پاربتی کا سوتیلا جوان بیٹا بتاتا ہے کہ باہر کسی مسافر کی لاش پڑی ہے۔
’’کون ہے وہ ؟‘‘ پارو بے چین ہو کر پوچھتی ہے۔
’’نہ جانے کون ہے۔‘‘
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر523پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کوئی بتاتا ہے کہ وہ فلاں گاؤں کے زمیں دار کا بیٹا دیوداس ہے۔ یہ سن کر پارو دیوانہ وار باہر کی جانب بھاگتی ہے بیٹا اور دوسرے لوگ اس کو پکارتے رہ جاتے ہیں مگر وہ بھاگتی چلی جا رہی ہے۔ شوہر کو معلوم ہوتا ہے تو وہ اس کو رکنے کے لیے کہتا ہے اور پھر دربان کو حکم دیتا ہے کہ حویلی کا دروازہ بند کر دو۔ پارو بڑے دروازے پر پہنچتی ہے تو دربان دروازہ بند کر رہا ہے وہ باہر نہیں جا سکتی۔ بڑے چوبی اور آہنی دروازے سے سر ٹکرا کر رہ جاتی ہے۔
باہر دیو داس کی لاش کے آس پاس لوگ جمع ہیں۔
پھر کیمرا اس کی چتا کو شعلوں کی لپیٹ میں دکھاتا ہے۔ ہدایت کار اور مصنف یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ زندگی بھر حالات کے باعث جدائی کا صدمہ برداشت کرنے والے دو محروم ہستیاں مرنے کے بعد بھی ملنے سے محروم ہی رہیں۔ دیوداس زندگی بھر عشق اور جدائی کی آگ میں جلتا رہا مرنے کے بعد بھی یہ آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی۔
ہدایت کار نے اس کے بعد پارو کا کوئی شارٹ دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی چندر مکھی کا چہرہ اسکرین پر سامنے آیا۔
اس طرح یہ فلم اور یہ محبت کی کلاسیکی داستان اختتام کو پہنچی۔
کسی بھی ناول کو فلم کے سانچے میں ڈھالنا ہمیشہ ایک دشوار کام رہا ہے ہالی ووڈ ۔ بھارت پاکستان ہر جگہ ناول فلمائے گئے اور فلمی ضرورتیات کے تحت ان میں ترامیم اور تبدیلیاں بھی کی گئیں جو لکھنے والوں کو کبھی پسند نہیں آئیں۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ جب بھی کوئی ناول فلمایا گیا مصنف نے اسے دیکھ کر ہی مایوسی اور برہمی کا اظہار کیا۔
سرت چند چٹوپا دھیہ اس اعتبار سے خوش نصیب ٹھہرے کہ پہلی بار ان کے ناول کو پی سی بروا جیسے ذہین حساس اور ہنر مند ہدایت کار نے فلم کے سانچے میں ڈھالا۔ اس فل میں سہگل نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور اس کردار کو امر بلکہ ضرب المثل بنا دیا تھا۔ سہگل سرتاپا ایک محروم و مایوس عاشق نظر آتے تھے۔ ان کے چہرے کا حزن و ملال ان کی آواز کا درد اور ان کے گانوں کا سوز و گداز اس کردار کو فلمی کردار میں ڈھالنے کے لیے موزوں ترین تھے۔ وہ ہر اعتبار سے ’’دیوداس‘‘ ہی نظر آتے تھے۔ اس پر مزید ستم ان کے گائے ہوئے نغمات نے ڈھایا تھا۔ اس فلم میں ان کے متعدد گانے تھے اور ان گانوں نے فلم کے مجموعی تاثر میں کئی گنا اضافہ کر دیا تھا۔ یہ فلم دیکھ کر بے اختیار یہ کہنا پڑتا ہے کہ واقعی دیوداس ایسا ہی ہوگا۔
سہگل بے مثل مغنی تھے مگر اداکاری کے لحاظ سے انہیں وہ درجہ اور مرتبہ حاصل نہ تھا۔ جو دلیپ کمار کو حاصل تھا لیکن اس کردار کے لیے سہگل سے زیادہ موزوں اداکار کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا تھا۔ شاید قدرت نے یہ کردار ادا کرنے کے لیے ہی کے ایل سہگل کو گلوکار اور اداکار بنایا تھا۔ ۱۹۳۵ء میں بنائی جانے والی یہ فلم سادہ لیکن انتہائی پر اثر تھی۔ اس کی سب سے بڑی خوبی اس کے کرداروں کا حقیقی نظر آنا اور کرداروں میں ڈھل جانا تھی۔ اس زمانے کے مطابق فلم کی رفتار کافی سست تھی پھر یہ بھی خیال رہے کہ بنگلہ فلموں کا ٹیمپو ہمیشہ سست رہا ہے پھر یہ تو موضوع ہی ٹھہراؤ کے ساتھ فلمانے والا تھا۔ ہمیں یہ فلم جتنی بھی یاد ہے وہ ذہن پر نقش ہو کر رہ گئی ہے۔
’’دیوداس‘‘ کے ایک رومانی منظر میں دیوداس پاربتی سے کہتا ہے کہ ’’وہ چاند کی طرح حسین ہے۔‘‘
پاربتی جواب دیتی ہے’’اس سے زیادہ کیونکہ چاند کے چہرے پر تو داغ ہے۔‘‘
دیوداس کے ہاتھ میں درخت کی ایک شاخ ہے۔ وہ اچانک یہ چھتری نما شاخ پاربتی کو مارتا ہے۔ اس کی پیشانی پر چھوٹا سا زخم ہو جاتا ہے خون رسنے لگتا ہے۔
دیوداس کہتا ہے ’’اب تم میں اور چاند میں کوئی فرق نہیں رہا۔ چاند کی طرح تمہارے چہرے پر بھی داغ ہے جو ہمیشہ رہے گا۔‘‘
یہ داغ بعدمیں دیوداس کی نشانی بن گیا جو پاربتی کے لیے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی اور قابل قدر تھا۔
سرت چندرنے یہ کہانی تین اہم مرکزی کرداروں میں بانٹ دی ہے۔ پاربتی، دیوداس اور چندر مکھی۔ ہر کردار بالکل انوکھا اور عشق کے ہاتھوں مجبور ہے۔ ان تینوں کے ساتھ مصنف نے یکساں انصاف کیا ہے۔ یوں سمجھئے کہ یہ محبت کی ایک تکون ہے لیکن ان کے گرد اس عہد کی معاشرتی روایات و اقدار کا تانا بانا بھی بڑی خوب صورتی سے بنایا گیا ہے۔ مختلف کرداروں کو اس معاشرے کے مطابق مختلف رنگوں میں پیش کیا گیا ہے اور یہی اس ناول کا حسن ہے جو بروا کی فلم میں جا بجا بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔
جب بمل رائے نے دیوداس کو تیسری بار بنانے کا اردہ کیا تو یہ فیصلہ بہت غور و خوض کے بعدکیا گیا تھا۔ ایک یادگار فلم کو دوبارہ بنانا بہت بڑا رسک ہوتا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا بھر میں عظیم فلموں کو دوسری بار بنایا گیا تو دیکھنے والوں کو پہلی فلم ہی بہتر نظر آئی۔ غالباً اس کے پیچھے یہ نفسیاتی مسئلہ بھی کارفرما رہتا ہے کہ نقش اوّل ہمیشہ کے لیے ذہن و دماغ پر نقش چھوڑ جاتا ہے لیکن بمل رائے نے یہ چیلنج قبول کرلیا۔
وہ بذات خود بنگالی تھے۔ تعلیم یافتہ، ذہین اور بہت بڑے اور کامیاب ہدایت کار تھے۔ ان حساس کرداروں کے لیے انہوں نے اس زمانے کی بہترین کاسٹ کا انتخاب کیا۔ سچترا سین کو بنگالی فلموں کی ساحرہ کہا جاتا تھا۔ انہیں پاربتی کے کردار میں پیش کیا گیا۔ وجنتی مالا کا تعلق جنوبی ہند یعنی مدارس سے تھا مگر وہ رقص میں ماہر اور ایک بہت مقبول اور عظیم فنکارہ تھیں۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے چندرمکھی کے کردار کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے۔
دیوداس کے لیے برصغیر کے عظیم ترین فلمی اداکار اور المیہ فلموں کے شہنشاہ دلیپ کمارکا انتخاب کیاگیا تھا۔ یہ درست ہے کہ اس کردار کے لیے اس زمانے میں دلیپ کمار سے زیادہ موزوں کوئی اور فنکار نہیں تھا۔ دلیپ کمار کے لیے یہ کردار ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ سچ پوچھئے تو بمل رائے ، سچترا سین اور وجنتی مالا نے اس فلم کے ذریعے خود کو بہت آزمائش میں ڈال لیا تھا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اتنے بڑے نامور اور عظیم فنکاروں کی یہ مجموعی کوشش بھی قبول عام حاصل نہ کر سکی نہ ہی نقادوں نے اس کو سراہا۔ دراصل سہگل کی شخصیت اور ان کے گائے ہوئے لافانی گانے ان دونوں فلموں کے مابین بہت بڑ فرق ثابت ہوئے۔
خاص طور پر سہگل کے گانوں کی کمی کا نہ تو دلیپ کمارکی شہرت تلافی کر سکی نہ وجنتی مالا کے رقص، گلیمر اور اداکاری، سچترا سین نے بہت اچھی اداکاری کی تھی مگر ان کی مقبولیت اور اداکاری بھی کسی کام نہ آئی۔ بمل رائے جیسے کامیاب اور عظیم ہدایت کار اور ان فنکاروں کی مجموعی کوشش بھی پرانی فلم ’’دیوداس‘‘ کی یادیں نہ بھلا سکی۔مگر کیا یہ ایک معیاری فلم ہے؟ سہگل اور دلیپ کمار کے دیوداس کے مقابلے میں شاہ رخ خان نے واقعی اداکاری کا انمول نمونہ پیش کیا ہے؟ ایشوریہ رائے اور مادھوری ڈکشٹ نے پارو اور چندر مکھی کے کرداروں کے ساتھ صحیح معنوں میں انصاف کیا ہے؟ تو اب فلم بین ہی فیصلہ کرسکتے ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)